Faroge Razviyat Aur Ulama e Nepal Oct to Dec 2018

 فروغ رضویات اور علماے نیپال خصوصی شمارہ اکتوبر تا دسمبر 2018


 سرکار اعلی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے عرس صد سالہ کے پر بہار موقع پر سہ ماہی سنی پیغام نیپال کا علمی و تاریخی خصوصی شمارہ "فروغ رضویات اور علماے نیپال نمبر"  ملک نیپال میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا تاریخی کام ہے جو ماخذ کی حیثیت رکھتا ہے۔

مطالعہ فرمانے کے لیے نیچے کے لنک سے ڈاؤن لوڈ کریں یا آن لائن مطالعہ فرمائیں

 فروغ رضویات اور علماے نیپال خصوصی شمارہ اکتوبر تا دسمبر 2018





فروغ رضویات میں علماے مہوتری کا کردار

انتظامی ڈھانچے کے اعتبار سے نیپال کو سات صوبوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس میں سے ترائی خطے کے آٹھ ضلعوں پر مشتمل ایک صوبہ )راجیہ( کو راجیہ نمبر 2 کا نام دیا گیا ہے۔ اس راجیہ کے آٹھ ضلعوں میں سے مہوتری بھی ایک ضلع ہے جوایک ہزار مربع کیلو میٹر میں پھیلا ہوا ہے اور شمالی بہار کے سیتامڑھی ضلع سے متصل ہے۔ یہ  دس نگر پالیکا اور تین گاوں پالیکا پر مشتمل ضلع ہے  اور  اس کی کل آبادی 2011ء کی مردم شماری کے مطابق 627580 ہے جس میں مسلمانوں کا تناسب تقریبا ایک لاکھ کی آبادی کے ساتھ 14 فیصد ہے۔ اس ضلع میں علماے کرام و مفتیان عظام کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے اور یہاں کے مسلمانوں پر اولیاے ثلاثہ﷭  روضہ شریف اور ماضی قریب کی بزرگ ہستیاں خصوصا سرکار زاہد ملت ، سرکار حنیف ملت اور حضور محدث اعظم نیپال  کا خاص فیضان جاری ہے کہ اس ضلع میں غالب اکثریت اہل سنت و جماعت اور مسلک اعلی حضرت کے پیروکاروں کی ہے ۔ یہ سب ہمارے علما ے اہل سنت کی محنت اور مسلک اعلی حضرت کے تئیں ان کا  ہمہ وقت حساس رہنے کا نتیجہ ہے۔

 ایک محتاط اندازے کے مطابق  اس وقت پورے مہوتری ضلع میں تقریبا ایک ہزار علماے کرام ہیں جن میں سے کچھ کسب معاش کے لیے خلیجی ممالک میں ہیں اور باقی  ہند و نیپال میں درس و تدریس اور امامت و خطابت کے ذریعہ دین و سنیت کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔  رضویات کے فروغ میں یہاں کے علما کا ایک خاص کردار رہا ہے جس کی  وجہ سے ضلع کے  مسلمان سواد اعظم  مسلک اعلی حضرت کےسچے و پکے  متبعین  ہیں۔ آپ کو اس ضلع کے اکثرو بیشتر مساجد ، مکاتب، مدارس  اور تنظیمات و تحریکات  کا نام سرکار رضا کے نام  پر گلشن رضا، فیضان رضا ، برکات رضا، مدرسہ رضویہ ، رضا جامع مسجد، امام احمد رضا  ، اعلی حضرت  انجمن ، ٹرسٹ فاونڈیشن  جیسے نام ملیں گے حتی کہ   لوگ  اپنے دکان ، مکان ، چوک، عمارت  وغیرہ کا نام بھی اعلی حضرت  امام احمد رضا خان  فاضل بریلوی کے نام پر رکھنے لگے ہیں۔ یہ سب سرکار رضا   کی ذات سے لوگوں کی عقیدت اور فروغ رضویات میں یہاں کے علما کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔

رضویات کے فروغ میں بذریعہ درس و تدریس،تصنیف و تالیف،  امامت و خطابت، بیعت و ارادت، دعوت و تبلیغ،  تنظیم و تحریک  اور تعمیر و ترقی حصہ لینے والے اس ضلع کے علماے ذوی الاحترام کی ایک لمبی فہرست ہے لیکن بخوف طوالت ہم یہاں ان میں سے  چند ہی کے تذکرہ کی سعادت حاصل کر پا رہے ہیں۔   

قطب نیپال  حضرت  علامہ حافظ زاہد حسین مجیبی معروف بہ زاہد ملت 

تنویر حیات:      استاذ العلما حضرت علامہ حافظ زاہد حسین مجیبی معروف بہ زاہد ملت کی ولادت  ضلع مہوتری  کی مشہور بستی علی پٹی میں  1325 ھ مطابق 1904ء میں ہوئی ۔ گاوں کے مکتب سے آپ کی تعلیم کی ابتدا ہوئی اور حفظ قرآن کے بعد متوسطات اور اعلی تعلیم کے لیے دار العلوم فیض الغربا آرہ بہار  میں داخل ہوئے  جہاں سے  1350ھ مطابق 1930ء میں   محدث اعظم ہند حضرت علامہ سید محمد اشرفی کچھوچھوی، ملک العلما حضرت علامہ ظفر الدین بہاری، سراج الاولیا حضرت تیغ علی شاہ وغیرہ جلیل القدر علماے کرام و مشائخ عظام کے مقدس ہاتھوں سند و دستار فضیلت سے  نوازے گیے۔

 فراغت کے بعد روحانی تشنگی بجھانے اور اپنے آپ کو علوم ظاہری و باطنی سے آراستہ کرنے کی خاطر خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف کے عظیم المرتبت  بزرگ حضرت سید شاہ محی الدین مجیبی پھلواری کے دست حق پرست پر شرف بیعت  حاصل کیے ۔ یہ وہی بزرگ ہیں کہ :

"ایک بار اعلی حضرت ایک جلسہ میں شرکت کے لیے تشریف لائے  ہوئے تھے۔ اتفاقا وہاں امیر شریعت ثانی حضور محی الدین پھلواروی بھی تشریف لے گیے۔ جب آپ کو حضرت فاضل بریلوی کی تشریف آوری کی خبر ملی تو آپ نے یہ خبر بھیجی کہ ناچیز بغرض ملاقات حاضر ہو رہا ہے تو اعلی حضرت نے فرمایا کہ میں خود ہی چل کر حاضر خدمت ہوں گا اور اس ارادے سے آپ نے عمامہ باندھنے کی خاطر سر پر شملہ رکھاہی تھا کہ کسی نے خبر دی کہ وہ )شاہ محی الدین(  تشریف لے آئے۔ اس خبر کو سن کر )اعلی حضرت(بے تاب ہو گیے اور والہانہ انداز سے اسی طرح ایک ہاتھ سر پر رکھے ہوئے اس حالت میں عمامہ کا دوسرا کنارہ زمین سے لٹکا ہوا تھا آگے بڑھ کر سلام کے بعد معانقہ کیا اور یہ فرمایا کہ میں خود حاضر خدمت ہونے والا تھا"۔

)حیات زاہد ملت ، ص: 39 بحوالہ شیخ کامل کی تلاش ، مصنف: مولانا ابو دانش محمد زکریا قالب آروی، ص: 33(

نقوش خدمات:  اہل علاقہ پر آپ کے اتنے احسانات ہیں کہ اگر لوگ  اپنی ساری زندگی آپ کے مزار مقدس کی جاروب کشی میں گزار دیں پھر بھی ان احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتے۔ واقعی  علاقے میں آپ نے اسلام کی از سر نو  تبلیغ فرمائی ورنہ تو گاوں کا گاوں شرکیہ افعال میں مبتلا تھا اور لوگ صرف نام کے مسلمان  رہ گیے تھے۔ علاقہ کا سب سے  پہلا  مدرسہ  دار العلوم قادریہ مصباح المسلمین کا قیام آپ کی زندگی کا  سب سے سنہرا کارنامہ ہے ۔ آج علاقہ میں جو جبہ و دستار کی کثرت  پائی جاتی ہے  یہ سب حضور زاہد ملت  کا فیضان اور دار العلوم قادریہ کی دین ہے۔  بلکہ آج جو کچھ لوگ اپنے  اکثر القابات میں اعظم کا لاحقہ لگاتے ہیں ان کی بھی زندگی میں جھانکیں تو آپ کو حضور زاہد ملت  کی شاگردی اور دار العلوم قادریہ کی دال روٹی نظر آئے گی یہ الگ بات ہے کہ حق نمک اور مثل پدر اساتذہ کے تئیں وفاداری کی توفیق کسی کسی کو ملتی ہے۔

گوشہ فروغ رضویات:     فروغ رضویات میں آپ کے کردار کے تعلق سے میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ اہل علم سے خالی پورے علاقے کے آپ تنہا قطب تھے اگر چاہتے تو پورا کا پورا علاقہ خانقاہ پھلواری کے رحم و کرم پر ہوتا لیکن آپ نے پوری زندگی مسلک اعلی حضرت کی ترویج و اشاعت میں گذار دی اور مسلمانوں کو مسلک اعلی حضرت پر چلنا سیکھایا حتی کہ اپنے صاحب زادے حضرت علامہ ساجد حسین  قادری رضوی  مصباحی کے گلے میں  شہزادہ اعلی حضرت حضور مفتی اعظم ہند  کی غلامی کا پٹہ ڈال کر  آنے والی نسلوں کو  سواد اعظم مسلک اعلی حضرت  ہی سے وابستہ رہنے کا پیغام دے گیے۔

علم و فضل  اور تقوی و طہارت  کا یہ آفتاب و ماہتاب 1987ء میں غروب ہو گیا ۔ دار العلوم امانیہ امان الخائفین  علی پٹی کے صحن میں آپ کی آخری آرام گاہ ہے جہاں ہر سال تزک و احتشام کے ساتھ عرس مبارک کا انعقاد ہوتا ہے جس  میں ہند و نیپال کے اکابر علماے کرام و مشائخ عظام شریک ہوتے ہیں۔

استاذ العلماحضرت  علامہ محمد حنیف القادری  معروف بہ حنیف  ملت 

تنویر حیات:      حنیف ملت حضرت مولانا محمد حنیف القادری ﷫بن مولوی عبد اللہ بن پناہ بن حاجی ثمن علی کی ولادت قصبہ بیلا اکڈارا ضلع مہوتری نیپال میں 1927ء میں ایک شریف  متمول خاندان میں ہوئی ۔ ناظرہ قرآن اور ابتدائی اردو کی تعلیم اپنے والد ماجد کے پاس حاصل کرنے کے بعد عربی فارسی کی تعلیم کے لیے مدرسہ رضاء العلوم کنہواں میں داخل ہوئے اور متوسطات تک کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اعلی تعلیم کے لیے مشرق ہند کی عظیم دینی درس گاہ فیض الغربا آرہ بہار پہونچے اور ماہر و مشفق اساتذہ کرام سے اکتساب فیض فرمانے کے بعد1942ء میں خلیفہ اعلی حضرت علامہ ظفر الدین بہاری صاحب صحیح البہاری﷫، محدث اعظم ہند کچھوچھوی ﷫، سراج الاصفیا حضرت شاہ تیغ علی سرکار سرکانہی ﷫ جیسے  وقت کے  مشاہیر اجلہ مشائخ عظام کے مقدس ہاتھوں سند و دستار فضیلت سے سرفراز ہوئے۔

مدرسہ رضاء العلوم کنہواں میں زمانہ طالب علمی میں حضرت مولانا شاہ خلیل الرحمان نند پوری بنگلا دیش کے دست اقدس پر سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت ہوئے۔ حضور حنیف ملت کو  نبیرہ اعلی حضرت تاج الشریعہ علامہ اختر رضا خان ازہر ی نے1988ء میں مدرسہ مظہر العلوم کے زیر اہتمام منعقد "رسول اعظم کانفرنس" میں مختلف سلاسل کی اجازت و خلافت عطا فرمائی۔

نقوش خدمات:  فراغت کے بعد 1951ء میں اپنے مشفق استاد گرامی فاضل بہاری علامہ مفتی عظیم الدین کے دست اقدس سے مدرسہ مظہر العلوم گلاب پور کی تعمیر ثانی  کے لیے  سنگ بنیاد رکھوا کر دعوت و تبلیغ اور رشد و ہدایت کا دائمی مرکز بنا لیا ۔ آپ کی درس و تدریس اور دعوت و تبلیغ کا ایسا اثر ہواکہ خود قصبہ" سسوا کٹیا" تو گل گلزار ہو کر "گلاب پور" بناہی جہالت و تاریکی میں ڈوبا پورا علاقہ آپ کے فیضان علم سے مالا مال ہوگیا، آج گلاب پور اور علاقہ  میں آپ کے تلامذہ یا تلامذہ کے تلامذہ  علما کی ایک اچھی خاصی تعداد موجود ہےجو ملک و بیرون ملک دین و سنیت کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔  

گوشہ فروغ رضویات:     حضور حنیف ملت از ابتدا تا وقت وصال مدرسہ مظہر العلوم کے صدر الدرسین کے عہدہ پر فائز رہے  اور تاحین حیات  مدرسہ ھذا کے جملہ داخلی و خارجی معاملات کی باگ و ڈور سنبھالتے رہے ۔ آپ نے اپنی پوری زندگی علاقہ میں مسلک اعلی حضرت کی ترویج و اشاعت اور فروغ رضویات میں گزار دی۔ صاحب تذکرہ علماے اہل سنت  سیتامڑھی  حضرت مولانا الیاس مصباحی اندولوی لکھتے ہیں:

حضرت حنیف ملت کی دینی ، مذہبی، تدریسی اور تبلیغی خدمات کا دائرہ نیپال کے ساتھ ضلع سیتامڑھی کے دیار و امصار تک پھیلا ہوا ہے۔ آپ اپنی زندگی کی آخری سانس تک مذہب و ملت اور مسلک اعلی حضرت کی بے لوث اور پرخلوص خدمات دیتے رہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج علاقہ کی سنیت کی جو عظیم بہاریں ہیں وہ آپ ہی کی ہمہ گیر خدمات کا ثمرہ ہے۔ 

تذکرہ علماے اہل سنت سیتامڑھی، ص: 401

پورے علاقہ میں اپنے علم و عمل کی خوشبو بکھیر کر 16 شعبان المعظم 1413ھ مطابق 21 فروری 1992ء بروز جمعہ علم و فضل اور تقوی و طہارت کا یہ روشن ستارہ  ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا ۔ قمر العلما حضرت علامہ قمر رضا خان بریلوی نے نماز جنازہ پڑھائی  اور مدرسہ مظہر العلوم کے صحن میں سپرد خاک ہوئے۔ ہر سال 16 شعبان المعظم کو نہایت تزک و احتشام کے ساتھ آپ کا عرس مبارک منعقد ہوتا ہے۔

محدث اعظم  نیپال حضرت علامہ مفتی محمد کلیم الدین  براہیمی  رضوی

تنویر حیات:      فقیہ اعظم نیپال حضرت علامہ مفتی محمد کلیم الدین رضوی کی ولادت با سعادت ۱۳۵۵ھ مطابق 1936 ء میں مہدیا رحمن پور ٹولہ میں نہایت شریف اور زمیندار گھرانے میں ہوئی۔ والد ماجد الحاج صوفی عبد الاحد صاحب مرحوم و مغفور صوم و صلاۃ کے پابند دینی مزاج رکھنے والے بزرگ تھے۔ دلی تمنا تھی کہ بیٹا عالم بنے لہذا والد ماجد نے 1949ء میں حضور زاہد ملت کی خدمت میں  دار العلوم قادریہ مصباح المسلمین علی پٹی شریف میں داخل کردیا، جہاں کامل  سات سال رہ کر محنت و لگن اوردلجمعی کے ساتھ  ابتدا سے متوسطات تک کی تعلیم حاصل کی۔ حضور زاہد ملت اور دیگر مشفق و ماہر اساتذہ کرام سے اکتساب فیض فرمانے کے بعد اعلی تعلیم کے لیے صوبہ بہار کی عظیم دینی درس گاہ فیض الغربا آرہ بہار چلے گیے اور یہیں سے 1960ء میں درس نظامیہ کی تکمیل کے بعد حضور محدث اعظم  حضرت سید محمد اشرف اشرفی جیلانی کچھوچھوی، حضرت قائم قتیل سراجی دانا پوری ، حضرت ابو الفصیح غازی پوری،  خطیب مشرق حضرت علامہ مشتاق احمد نظامی،  مفتی اعظم کان پور حضرت علامہ رفاقت حسین اشرفی جیسے وقت کے مشاہیر علماے کرام و مشائخ عظام کے مقدس ہاتھوں سند و دستار فضیلت سے سرفراز ہوئے۔ مدرسہ فیض الغربا کے شیخ الحدیث  استاذ الاساتذہ حضرت علامہ مفتی محمد ابراہیم قادری سے خصوصی استفادہ فرمانے کی وجہ سے آپ ان کے نام کی نسبت سے ابراہیمی لکھتے ہیں۔

شہزادہ اعلی حضرت حضور مفتی اعظم ہند علامہ مصطفی رضا خان بریلوی کے دست حق پرست پر1973ء میں  دار العلوم رضاء العلوم کنہواں کی عظیم الشان کانفرنس میں بیعت و ارادت کا شرف حاصل ہوا اور شہزادہ حضرت مفتی محمد ابراہیم قادری حضرت ڈاکٹر انور سہیل فریدی دامت برکاتہم العالیہ سے اجازت و خلافت ملی۔

آپ کی ذات ستودہ صفات مختلف امتیازات و خصوصیات کی حامل تھی۔آپ کی شخصیت  تصنع و ریاکاری سے دور  عجز و انکساری اور حلم و بردباری کا پیکر اور اخلاق حسنہ  کا مجسمہ تھی۔ آپ  اپنے وقت کے عظیم محدث، بڑے  فقیہ، کامیاب  مدرس، ماہر مناظر  اور علم و عمل کے کوہ ہمالہ تھے۔  شیر اعلی حضرت مناظر اہل سنت حضرت علامہ مفتی عبد المنان کلیمی صاحب قبلہ قاضی شہر مرادآباد جو کہ آپ کے شاگرد خاص اور آپ ہی کے نام کی نسبت سے کلیمی لکھتے ہیں آپ کی علمی شخصیت کو ان لفظوں میں بیان فرماتے ہیں : "آپ کے  تبحر علمی  اور مہارت فقہ و افتا اور متکلمانہ و محدثانہ جاہ و جلال کے سامنے نیپال کے نام نہاد بڑے بڑے شیر و ببر طفل مکتب کا بھی درجہ نہیں رکھتے"۔ حیات محدث اعظم نیپال، ص: 17

نقوش خدمات:  فراغت کے بعد 1960ء میں اپنے مادر علمی دار العلوم قادریہ مصباح المسلمین علی پٹی میں بحیثیت صدر المدرسین بحال ہوئے اور مسلسل 18 سالوں تک تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔دار العلوم قادریہ کو نیپال کا سب سے بڑا علمی مرکز بنانے میں آپ کا اہم کردار رہا ہے۔ 1978ء میں قائد اہل سنت حضور فخر نیپال دامت برکاتہم العالیہ کو منصب صدار ت سونپ کر دار العلوم فیضان العلوم دارا پٹی ضلع مظفر پور بہار بحیثیت شیخ الحدیث تشریف لے گیے اور2010ء  وصال سے چند ماہ قبل تک  وہیں سے خدمت دین و سنیت کا فریضہ انجام  دیتے رہے۔

خدمت دین و سنیت اور ترویج مسلک اعلی حضرت کی خاطر آپ نے  علماے اہل سنت  نیپال کی تنظیم "آل نیپال سنی جمیعۃ العلما " کا قیام فرمایا اور اس کے سرپرست اول مقرر ہوئے۔ اس جمعیت کے  زیر اہتمام " آل نیپال دار القضا و مرکزی رویت ہلال کمیٹی" کی پہلی مجلس شوری میں  اول امین شریعت نیپال اور قاضی القضاۃ نیپال بھی آپ ہی  منتخب ہوئے۔ آپ کے بعد آپ کے نائب خاص حضور فخر نیپال دام ظلہ علینا بحسن و خوبی اس عہدہ کو سنبھالے ہوئے ہیں اور آل نیپال سنی جمعیۃ العلما کی سرپرستی اور نیپال کے علما و عوام کی قیادت فرما رہے ہیں۔

گوشہ فروغ رضویات:     حضور محدث اعظم نیپال کی پوری زندگی مسلک و ملت کے لیے وقف تھی۔ملک نیپال سے شمالی بہار تک آپ کی خدمات کا دائرہ وسیع ہے۔  درس و تدریس اور دعوت و تبلیغ کے ذریعہ تاحین حیات مسلک اعلی حضرت کی ترویج و اشاعت اور فروغ رضویات کی خدمات انجام دیتے  رہے۔ آپ کے تلامذہ میں بڑے بڑے علماے کرام و مفتان عظام کے اسما شامل ہیں جن کی خدمات کا دائرہ  نیپال اور ہندوستان میں وسیع تر ہے۔ امین شریعت نیپال تاج الفقہا حضرت علامہ الشاہ مفتی محمد اسرائیل رضوی مصباحی المعروف بہ حضور فخر نیپال، شیر اعلی حضرت مناظر اہل سنت حضرت علامہ مفتی عبد المنان کلیمی قاضی شہر مرادآباد، فقیہ النفس حضرت علامہ مفتی محمد عثمان رضوی بیلاوی، ادیب نیپال حضرت علامہ مفتی مصلح الدین برہانی  گلاب پوری مصنف شان خطابت، نجم العلما شہزادہ حضور حنیف ملت حضرت علامہ مفتی نجم الدین  قادری مصباحی ، حضرت علامہ عبد الشکور کوثر جمالی وغیرہم  آپ کے  فروغ رضویات اور ترویج مسلک اعلی حضرت بذریعہ افراد سازی کی دلیل اور زندہ و جاوید مثال ہیں۔

2010ء میں زیارت حریمین شریفین سے واپسی کے بعد آپ کی طبیعت سخت  علیل ہوئی اور ۲۲ ربیع الاول ۱۴۳۲ھ مطابق 25 فروری 2011ء شب جمعہ 10:30 پر اپنے مالک حقیقی سے ملنے کے لیے اس دار فانی سے دار بقا کی طرف ہمیشہ کے لیے  کوچ کر گیے۔وصیت کے مطابق  آپ کے معتمد خاص جامع شریعت و طریقت حضور فخر نیپال دامت برکاتہم العالیہ نے نماز جنازہ پڑھائی ۔ آپ کا مزار پر انوار اپنے آبائی قبرستان رحمن پور ٹولہ میں واقع ہے جہاں ہر سال عرس مبارک منعقد ہوتا ہے ۔

امین شریعت نیپال حضرت علامہ مفتی محمد اسرائیل رضوی مصباحی معروف بہ   فخر نیپال دامت برکاتہم العالیہ

تنویر حیات:      قائد اہل سنت امین شریعت حضرت علامہ مفتی محمد اسرائیل رضوی مصباحی المعروف بہ فخر نیپال دامت برکاتہم العالیہ 1952 ء میں موضع بھمرپورہ ضلع مہوتری میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی عربی فارسی کی تعلیم دار العلوم قادریہ مصباح المسلمین میں حاصل کیے اور 1982ء میں ازہر ہند جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں سرکار حافظ ملت کے ہاتھوں دستار فضیلت سے نوازے گیے۔

آپ کو ۱۳۸۹ھ میں سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ میں حضور مفتی اعظم ہند کے دست حق پرست پر شرف بیعت و ارادت حاصل ہوا  اور ۱۴۰۹ھ میں نبیرہ  سرکار اعلی حضرت علامہ توصیف رضا خاں  ﷫ سے سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ  کی اجازت و خلافت ملی۔

نقوش خدمات:  فراغت کے بعد حضور حافظ ملت کے حکم پر درس و تدریس اور دعوت و تبلیغ کے لیے سری نگر کشمیر تشریف لے گیے جہاں آ پ نے ایک سال تک نہایت خلوص اور پوری ذمہ داری کے ساتھ خدمت دین متین انجام دی۔ 1971ء میں مادر علمی دار العلوم قادریہ مصباح المسلمین علی پٹی کو اپنا علمی نشیمن بنایا ۔ 1978ء میں آپ کے مشفق استاد محدث اعظم نیپال حضرت علامہ مفتی محمد کلیم الدین رضوی نوری ﷫نے آپ کو داخلی و خارجی تمام ذمہ داریاں سونپ کر صدر المدرسین کے عظیم عہدہ پر فائز کر دیا تب سے لے کر آج تک  نہایت  خلوص اور کمال تدبر کے ساتھ دار العلوم کی مکمل  باگ و ڈور آپ ہی سنبھال رہے ہیں۔

 ۱۳۹۹ھ میں دار العلوم قادریہ مصباح المسلمین علی پٹی کے زیر اہتمام منعقدہ ’’آل نیپال تاجدار مدینہ کانفرنس‘‘ میں اکابر علماے اہل سنت کی موجودگی میں رئیس القلم حضرت علامہ ارشد القادری نے آپ کی دینی و ملی اور مسلکی خدمات کی بنا پر آپ کو "فخرنیپال" کے اعزازی لقب سے نوازا اور ہزاروں لوگوں نے نعرئہ تکبیر و رسالت کی گونج سے اس کی تائید کی۔

آل نیپال سنی جمیعۃ العلما، آل نیپال تنظیم المدارس، مرکزی رویت ہلال نیپال،آل نیپال دار القضا، علامہ فضل حق ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ نیپال، وغیرہ درجنوں  متحرک تنظیمیں آپ کی قیادت و سرپرستی میں چل رہی ہیں۔ ان کے علاوہ شمالی بہار و ترائی نیپال کے کئی اضلاع کے مکاتب مساجد کی بنیادیں آپ کے ہاتھوں رکھی گئیں ہیں اور فی الحال آپ درجنوں تنظیم و مدارس اور ملی و مسلکی تحریکات کی سربراہی فرمارہے ہیں۔

درس و تدریس اور دعوت و تبلیغ کے ساتھ تحریر و قلم سے بھی آپ کا مضبوط رشتہ ہے۔ کثرت مصروفیات  کے باوجود اب تک کی آپ کی تحریری خدمات درج ذیل ہیں:

1.     گلشن علم و ادب                                      مطبوعہ

2.     مشکل کشا                                             مطبوعہ

3.     اجماع و قیاس کی شرعی حیثیت                       مطبوعہ

4.     آثار و تبرکات کی شرعی حیثیت                     مطبوعہ

5.     احقاق حق وابطال باطل                              مطبوعہ

6.     مزارات مقدسہ پر عورتوں کی حاضری              غیر مطبوعہ

7.     فتاوی فخر نیپال                                        زیر ترتیب

گوشہ فروغ رضویات

مسلک اعلی حضرت کی ترویج و اشاعت اور فروغ رضویات میں آپ نے جن ذرائع سے حصہ لیا ہے وہ درج ذیل ہیں۔

بذریعہ تقریر و خطابت:     اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی قدس اللہ سرہ العزیز کی ذات بابرکات آپ کا پسندیدہ عنوان ہے۔اعلی حضرت کے اوصاف و کمالات  بالخصوص اعلی حضرت کے عشق رسول پرجب آپ کی  گفتگو ہونے لگتی ہے تو پورا مجمع عش عش کر اٹھتا ہے۔  اپنی تقریرمیں کثرت کے ساتھ بر محل کلام رضا اورپیر ومرشد حضور مفتی ہند کے کلام کا استعمال فرماتے ہیں۔  ملک نیپال خاص کر مہوتری و دھنوشہ ضلع میں فروغ رضویات اور مسلک اعلی حضرت کی ترویج و اشاعت میں آپ کی تقریر و خطابت نے ایک اہم رول ادا کیا ہے۔

بذریعہ تحریر و قلم :          آپ نے ہمیشہ زبان و بیان اور تحریر و قلم سے علاقے میں مسلک اعلی حضرت کو فروغ دیا ہے۔جب بھی کسی نے عقائد و معمولات اہل سنت پر انگشت نمائی کی تو آپ نے تحریر و تقریر کے ذریعہ اس کا بھرپور رد کیا ہے اور دنداں شکن جواب دے کر علاقے کے اہل سنت و جماعت کے ایمان و عقیدہ کی حفاظت فرمائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الحمد للہ پورا علاقہ اہل سنت و جماعت اور مسلک اعلی حضرت کے پیروکاروں کا ہے۔ مشکل کشا ، اجماع اور قیاس کی شرعی حیثیت ،آثار و تبرکات کی شرعی حیثیت اور  احقاق حق و ابطال باطل جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے  آپ کی وہ کتابیں ہیں جن کو آپ نے  فروغ رضویات اور مسلک اعلی حضرت کی ترویج و اشاعت کی خاطر لکھی ہے۔

بذریعہ جلسے جلوس:          نیپال کی عبقری علمی شخصیت ہونے کے ناطے  علاقہ کے اکثر جلسوں کی صدارت و سرپرستی آپ ہی فرماتے ہیں اور ہر سال  بلا ناغہ علاقے میں دو چار جلسے سرکار اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی کے نام سے منعقد کرواتے ہیں۔ بالخصوص جن علاقوں میں فتنہ وہابیت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے وہاں اس کا خاص التزام فرماتے ہیں۔

بذریعہ بیعت و ارادت:    نبیرہ اعلی حضرت حضرت علامہ توصیف رضا خاں   سے سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کی اجازت و خلافت ملنے کے بعد ہی سے آپ پوری مستعدی کے ساتھ اس سلسلہ کا کام بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں۔ نیپال اور شمالی ہند میں آپ کے مریدین کی تعداد ہزاروں میں ہے اور آپ کے  درجنوں خلفا سلسلہ رضویہ کے فروغ اور دین و سنیت کی خدمات انجام  دے رہے ہیں۔

بذریعہ تعمیر مساجد و مکاتب:            نیپال کے ضلع مہوتری، دھنوشہ، سرہا اور شمالی ہند کے ضلع سیتامڑھی اور مدھوبنی کے علاقوں میں تقریبا دو درجن مساجد و مکاتب اور مدارس کے آپ بانی و سرپرست ہیں جن میں سے بیشتر اعلی حضرت یا اہل سنت کے کسی بزرگ ہستی کی جانب منسوب ہے۔ ان میں جامعہ برکات رضا، مدرسہ گلشن رضا ، رضا جامع مسجد پرڑیا وغیرہ شامل ہے۔ آپ اکثر سنگ بیناد کی محفل کے صدر ہونے کے ناطے اسی طرح کے اسما رکھواتے ہیں تاکہ یہ نام وہابیہ اور اہل سنت کے مابین خط امتیاز بنا رہے۔ 

بذریعہ رد و مناظرہ:اہلیان نیپال کی جانب سے بالاتفاق آپ کو مسلک اعلی حضرت کے پاسبان کہے جانے کے پیچھے آپ کی مسلکی خدمات کے ساتھ آپ کے رد و مناظرہ بھی شامل ہے۔ جب جب مسلک اعلی حضرت کو لے کر اعتراض ہوا یا عوام الناس میں گمرہیت پھیلانے کی کوشش کی گئی آپ ان کبراے وہابیہ و دیابنہ سے تحریری و تقریری مناظرے کرکے احقاق حق و ابطال باطل کیے اور ان کے فتنوں کے گرد مضبوط حصار قائم فرمائے۔ دربھنگہ، مجھورا، علی پٹی اور پرسا سے آپ کی للکار اور مسلک اعلی حضرت زندہ باد کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔

حضرت علامہ محمد داود حسین  رضوی مصباحی  صاحب قبلہ بھمرپورہ

تنویر حیات:      حضرت مولانا محمد داود حسین رضوی مصباحی ابن الحاج محمد یعقوب ابن الحاج محمد یوسف صاحب مرحوم قصبہ بھمرپورہ حال لوہار پٹی نگر پالیکا وراڈ نمبر ۷ضلع مہوتری نیپال  میں 6 جون 1975ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کی تعلیم کی ابتدا  الجامعۃ الرضویہ اصلاح المسلمین بھمرپورہ سے ہوئی اور الجامعۃ الحنفیہ اٹہروا ضلع مدھوبنی بہار اور مدرسہ رضویہ شمس العلوم باڑا ضلع سیتامڑھی بہار سے ہوتے ہوئے  1988ء میں ازہر ہند الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور یوپی جا پہونچی ۔اکناف ہند میں معیاری اور اعلی تعلیم کے لیے مشہور الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور میں جماعت ثانیہ میں آپ کا داخلہ ہوا اور مکمل سات سالوں تک ماہر و مہرباں اساتذہ کرام سے اکتساب فیض فرمانے کے بعد 6 نومبر 1994 ء میں سند و دستار فضیلت سے سرفراز ہوئے۔

دوران تعلیم 1986ء میں شیخ الاسلام و المسلمین تاج الشریعہ حضرت علامہ اختر رضا خاں ازہری ﷫کے دست حق پرست پر بیعت ہوکر سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ میں داخل ہوئے۔

آپ کوسلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ میں  ہند و نیپال کی تین بزرگ ہستی سے اجازت و خلافت حاصل ہے۔ 2008ء میں دار العلوم عطاے مصطفی بیلا کے زیر اہتمام "عطاے مصطفی  کانفرنس" میں نبیرہ اعلی حضرت حضرت علامہ توصیف رضا خان ﷫ بریلی شریف نے سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کی اجازت و خلافت عطا فرمائی۔دوسری بار  عرس امین شریعت کے موقع سے مناظر اہل سنت جامع معقولات و منقولات رازئ زماں غزالئ دوراں امین شریعت نیپال  حضرت علامہ الشاہ مفتی محمد اسرائیل صاحب رضوی مصباحی المعروف بہ حضور فخر نیپال  دامت برکاتہم العالیہ  نے سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کی اجازت و خلافت سے نوازا۔2016ء میں الجامعۃ الرضویہ کے زیر اہتمام محدث کبیر  کانفرنس میں شہزادہ حضور صدر الشریعہ محدث کبیر حضرت علامہ ضیاء المصطفی قادری دام ظلہ العالی نے بھی اسی سلسلہ کی اجازت و خلافت عطا فرمائی۔

نقوش خدمات:  فراغت کے فورا بعد 1995ء میں مادرعلمی الجامعۃ الرضویہ اصلاح المسلمین بھمرپورہ کے اراکین و ممبران کے اصرار پر بحیثیت صدر الدرسین بحال ہوئے تب سے لے کر آج تک نہایت خلوص و ذمہ داری کے ساتھ دینی، ملی، مسلکی اور تدریسی خدمات بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں۔ الجامعۃ الرضویہ کی تقریبا چوبیس سالہ مدت تدریس میں بے شمار تلامذہ پیدا کیے جو ہند و نیپال اور دیگر ممالک میں دینی ملی مسلکی اور تبلیغی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

الجامعۃ الرضویہ اصلاح المسلمین کے توسط سے علاقہ میں مسلک اعلی حضرت کی نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ فی الحال پورے علاقہ میں سب سے زیادہ متعلمین آپ ہی کے ادارہ میں ہیں اور بحمدہ تعالی اونچی  جماعت تک باضابطہ  معیاری تعلیم بھی ہو رہی ہے۔ جامعہ کی تعلیم کے ساتھ تعمیری ترقی کے لیے  بھی آپ قابل مبارک باد ہیں۔ اب تک شعبہ حفظ و قرآت اور شعبہ عالمیت و فضیلت سے درجنوں علما، حفاظ اور قراء حضرات فارغ التحصیل ہو کر ملک و بیرون ملک مسلک اعلی حضرت کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

گوشہ فروغ رضویات:     مسلک اعلی حضرت کی ترویج و اشاعت اور فروغ رضویات کی غرض سے جامعہ رضویہ اصلاح المسلمین  کے زیر اہتمام1996ء ، 2002ء  اور 20016ء میں  اب تک آپ تین کامیاب کانفرنسیں منعقد کروا چکے ہیں جن میں ہندوستان، پاکستان  اور نیپال کے مشاہیر علماے کرام اور مشائخ عظام کی تشریف آوری ہوئی تھی۔

الجامعۃ الرضویہ اصلاح المسلمین میں آپ نے سرکار اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی کے نام سے درسی وغیر درسی کتب کی لائبریری کا نام  "رضا لائبریری"، طلبا کو عصری تعلیم سے مزین کرنے کے لیے شعبہ کمپیوٹر کا نام "رضا کمپیوٹر سینٹر" اورشب جمعہ منعقد ہونے والی طلبا کی بزم کا نام   "بزم رضا"  رکھا ہے۔ علاوہ ازیں عمارت میں عالی شان مین گیٹ کا نام بھی سرکار رضا کے نام پر رکھا گیا ہے جس کے اوپر سنہرے لفظوں میں " باب رضا" لکھا ہوا ہے اور مستقبل قریب میں اسی کے اوپر ایک خوبصورت گنبد رضا بنانے کا آپ کا ارادہ ہے۔ فروغ رضویات میں یہ آپ کی زریں خدمات ہیں جو آئندہ نسل کے لیے مشعل راہ اور ہم غلامان رضا کے لیے باعث صد افتخار ہے۔

مصلح قوم و ملت حضرت علامہ مفتی محمد مصلح الدین  قادری صاحب قبلہ گلاب پور سسوا کٹیا

تنویر حیات:         مصلح ملت حضرت علامہ مفتی محمد مصلح الدین قادری ابن تسلیم ملت حافظ محمد تسلیم الدین قادری  11 نومبر 1959ء کو گلاب پور سسوا کٹیا ضلع مہوتری نیپال میں پیدا ہوئے۔ پانچ سال کی عمر میں حضور حنیف ملت کے مبارک کلمات سے  مدرسہ مظہر العلوم گلاب پور سسوا کٹیا میں رسم بسم اللہ خوانی ادا کی گئی۔ ناظرہ  قرآن اور ابتدائی عربی فارسی کی تعلیم مدرسہ مظہر العلوم ہی میں ہوئی۔ متوسطات کی تعلیم کے لیے مدرسہ شمس العلوم باڑا ضلع سیتامڑھی، یادگار حضور زاہد ملت دار العلوم قادریہ مصباح المسلمین علی پٹی شریف  اور مدرسہ انوار العلوم کما ضلع سیتامڑھی گیے۔ اعلی تعلیم کے لیے یوپی کا رخ کیے اور اہل سنت و جماعت کی مرکزی درسگاہ الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور ضلع اعظم گڑھ میں داخل ہوئے لیکن آب و ہوا ناموافق ہونے کی وجہ سے منظر حق ٹانڈہ چلے گیے اور وہیں سے باقی ماندہ تعلیم کی تکمیل ہوئی۔ ۱۱ شعبان المعظم ۱۳۹۷ھ میں جامعہ عربیہ سلطان پور کے سالانہ جلسہ دستار بندی میں حضور مجاہد ملت اور دیگر مشاہیر علما ے کرام و مشائخ عظام کے مقدس ہاتھوں سند و دستار فضیلت سے سرفراز ہوئے۔ درس نطامیہ کے علاوہ عربی فارسی  بورڈ الہ آباد سے تمام اساند آپ کو حاصل ہے۔

آپ کو 1973ء میں  شہزادہ سرکار اعلی حضرت حضور مفتی اعظم ہند کے دست حق پرست پر بیعت و ارادت کا شرف حاصل ہوا  اور  حضور برھان ملت جبل پوری سے  سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کی اجازت و خلات عطا ہو ئی۔

نقوش خدمات:  فراغت کے بعد ہندوستان کے درج ذیل مرکزی درسگاہوں میں  آپ درس و تدریس کی خدمات انجام دے چکے ہیں :

مدرسہ مخدومیہ لطیفیہ فیض آباد              بحیثیت صدر المدرسین

دار العلوم اہل سنت جبل پور                  بحیثیت نائب شیخ الحدیث

مدرسہ بحر العلوم مئو                           بحیثیت صدر المدرسین

الجامعۃ الامجدیہ بھیونڈی                       بحیثیت صدر المدرسین

مدرسہ عربیہ رضویہ ضیاء العلوم ادری        بحیثیت مدرس

فی الوقت  آپ الہ آباد یوپی کی مشہور و معروف  درس گاہ  مدرسہ حبیبیہ اسلامیہ لعل گوپال گنج میں شیخ الحدیث کے عہدہ کو زینت بخشے ہوئے ہیں۔

تحریر و قلم سے آپ کا گہرا رشتہ ہے،  اللہ تعالی نے آپ کو اس فن میں غیر معمولی قوت سے نوازا ہے۔ اب تک آپ کی درج ذیل کتابیں منظر عام پر آکر مقبولیت دوام حاصل کرچکی ہیں۔

1.     شان خطابت ، مطبوعہ 1986ء ، صفحات 132

2.     روح خطابت، مطبوعہ 1989ء صفحات 192

3.     نور خطابت، مطبوعہ 2006ء صفحات 176

4.     جان خطابت، مطبوعہ 2009ء صفحات 304

5.     تاج خطابت، مطبوعہ 2014ء صفحات 288

6.     قصبہ پریہار کا فیصلہ کن مناظرہ ، مطبوعہ  1978ءصفحات 50

ان کے علاوہ درج ذیل کتابیں غیر مطبوعہ یا زیر ترتیب ہیں۔

7.     آسمانی شفا زیر ترتیب

8.     قادری میخانہ نعتیہ دیوان غیر مطبوعہ

9.     سیرت مصلح اعظم  زیر ترتیب

گوشہ فروغ رضویات:     آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ فروغ رضویات اور مسلک اعلی حضرت کی ترویج و اشاعت میں صرف ہو رہا ہے ۔ تحریر ، تقریر ، تصنیف اور رد و ابطال کے ذریعہ آپ رضویات  اور مسلک اعلی حضرت کی خدمات  انجام دے رہے ہیں۔ ذیل میں ہم فروغ رضویات میں آپ کے کردار کی بخوف طوالت معمولی جھلک  ہی پیش کرنے کی سعادت حاصل کر پا رہے ہیں:

سواد اعظم مسلک اعلی حضرت کی خاطر  آپ نے کبراے وہابیہ و دیابنہ سے کئی ایک مناظرے کیے  جن میں  17مارچ 1987ء کا قصبہ بہار ضلع پرتاپ گڑھ یوپی کا مناظرہ ، اپریل 1984ء کا اوجھنی ضلع کوشامبی  کا مناظرہ اور 1978ء کا قصبہ پریہار ضلع سیتامڑھی بہار کا تاریخی مناظرہ قابل ذکر ہے۔ جن میں  بفضل رب ذو المنن و بطفیل رسول اکرم اعلاء کلمۃ الحق  اور احقاق حق ہوا اور بد عقیدوں کی حزیمت اور شکشت فاش ہوئی۔

فروغ رضویات کے تعلق سے آپ کا یہ بھی  ایک تاریخی کارنامہ ہے کہ ضلع پرتاپ گڑھ خصوصا لعل گوپال گنج و جوار کی تقریبا پچاس سے زائد  سنی مساجد میں جہاں جمعہ کی اذان ثانی داخل مسجد ہوا کرتی تھی آپ نے مسلک اعلی حضرت کی روشنی میں خارج مسجد دلوائی  جس کے لیے کہیں کہیں آپ کو مزاحمت بھی کرنی پڑی لیکن بحمدہ تعالی آپ کی محنت شاقہ کی بدولت آج ان مساجد میں جمعہ کی اذان ثانی خارج مسجد ہی ہوتی ہے۔

آپ نے درس و تدریس ، بیان و تقریر ، دعوت و تبلیغ اور تصنیف تالیف کے ذریعہ بھی رضویات اور مسلک اعلی حضرت کے فروغ میں حصہ لیا ہےجن کا احاطہ اس ذیلی عنوان میں ممکن نہیں۔تفصیل کے لیے اسی خصوصی شمارہ میں شامل ادیب لبیب مولانا صفی اللہ قادری گلاب پوری کا مقالہ "فروغ رضویات میں مصلح ملت کا کردار" ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

بلبل  نیپال حضرت علامہ  محمد سعادت حسین اشرفی  صاحب قبلہ  علی پٹی شریف

تنویر حیات:      بلبل نیپال حضرت مولانا محمد سعادت حسین اشرفی ابن الحاج حافظ محمد شرافت حسین قادری ابن حاجی محمد ریاست حسین  28 اپریل 1958ء کو موضع علی پٹی ضلع مہوتری میں پیدا ہوئے۔ قطب نیپال حضور زاہد ملت کے زیر سایہ ناظرہ سے متوسطات تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلی تعلیم کے لیے 1978ء میں شمس العلوم گھوسی ضلع مئو یوپی میں داخل ہوئے اور ایک سال کے بعد ازہر ہند جامعہ اشرفیہ مبارک پور چلے گیے ، جہاں مسلسل تین سالوں تک حصول علم میں مصروف رہے لیکن کسی وجہ سے 1982ء میں سرکار اعلی حضرت کے قائم کردہ ادارہ دار العلوم منظر اسلام بریلی شریف آگیے اور 1983 میں یہیں سے بحر العلوم مفتی عبد المنان اعظمی، ریحان ملت علامہ ریحان رضا خان، حضرت مفتی جہاں گیر صاحب اکابر علماے اہل سنت و مشائخ طریقت کے مقدس ہاتھوں سند و دستار فضیلت سے سرفراز ہوئے۔

آپ کو سرکار کلاں سید شاہ مختار اشرف کچھوچھوی کے دست اقدس پر 1987ء میں بیعت و ارادت کا شرف حاصل ہوا اور 2008ء میں نبیرہ اعلی حضرت علامہ توصیف رضا خان سے اور 2016ء میں قائد اہل سنت حضور فخر نیپال دامت برکاتہم العالیہ سے سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کی اجازت و خلافت عطا ہوئی۔ 2018ء میں عرس زاہدی کے پربہار موقع سے شہزادہ حضور حافظ ملت  حضرت علامہ عبد الحفیظ دام ظلہ علینا سربراہ اعلی الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور نے بھی آپ کو سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ عزیزیہ کی اجازت و خلافت سے نوازا۔

نقوش خدمات:  فراغت کے بعد1983ء میں  درس و تدریس کےلیے  راجستھان کے ضلع ادے پور محلہ خانجی پیر انجمن تعلیم القرآن میں بحال ہوئے اور 1990ء تک پوری ذمہ داری اور  خلوص کے ساتھ دین و سنیت کی خدمات انجام دیتے رہے۔  انجمن تعلیم القرآن ادے پور راجستھان سے مستعفی ہونے کے بعد یادگار حضور زاہد ملت ﷫ اور اپنے  مادر علمی" الجامعۃ الامانیہ امان الخائفین " علی پٹی کے ناظم اعلی مقرر ہوئے اور آج تک یہیں سے درس و تدریس اور دعوت و تبلیغ کے ذریعہ علاقہ میں فروغ رضویات اور مسلک اعلی حضرت کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

گوشہ فروغ رضویات:     فروغ رضویات بذریعہ جلسہ و جلوس میں آپ کا اہم کردار رہا ہے۔ قیام راجستھان کے دوران شہر ادے پور میں سرکار مفتی اعظم ہند کا سب سے پہلا عرس منعقد کرنے والے آپ ہی ہیں اور یہ  سلسلہ غالبا آج تک جاری و ساری ہے اور ہرسال ادے پور شہر میں  اعلی پیمانے پر عرس نوری کا انعقاد ہوتا ہے۔

اشرفی صاحب قبلہ قابل مدرس اور اچھے خطیب ہونے کے ساتھ عمدہ آواز کے مالک  ایک بہترین  نعت خواں بھی ہیں بایں سبب آپ کو بلبل نیپال بھی  کہا جاتا ہے۔ علما و عوام، بوڑھے بچے جوان سب آپ سے نعت نبی ﷺ سننے کے متمنی رہتے ہیں۔ شوق و جذبہ کے ساتھ جب آپ کلام رضا پڑھتے ہیں تو مجمع پر ایک وجدانی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔

فی الحال درس و تدریس، نعت و تقریر اور بڑے پیمانے پر عرس زاہدی میں ہند و نیپال کے مشاہیر علماے کرام کو مدعو کرکے مذہب و مسلک کی خدمات اور  فروغ رضویات میں مصروف ہیں۔

شہزادہ حنیف ملت حضرت علامہ مفتی نجم الدین قادری  مصباحی  صاحب قبلہ  بیلا اکڈارا

تنویر حیات:      نجم العلما حضرت علامہ مفتی نجم الدین قادری ابن حنیف ملت حضرت علامہ محمد حنیف قادری ابن عبد اللہ ابن حاجی ثمن علی کی ولادت 6 جولائی 1963ء میں شمالی بہار سے متصل موضع بیلا اکڈارا ضلع مہوتری نیپال میں دینی و علمی گھرانے میں ہوئی۔ ناظرہ کی تعلیم گاوں کے مکتب میں حاصل کرنے کے بعد اپنے والد گرامی حضرت علامہ مفتی حنیف قادری المعروف بہ حنیف ملت سے دار العلوم مظہر اسلام میں عربی فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ والد ماجد کی اجازت سے  ملک نیپال کی مرکزی درس گاہ دار العلوم قادریہ مصباح المسلمین میں داخل ہوئے اور محدث اعظم نیپال حضرت علامہ مفتی کلیم الدین براہیمی اور فخر ملت جامع معقولات و منقولات حضرت علامہ الشاہ مفتی محمد اسرائیل رضوی مصباحی دامت برکاتہم العالیہ کے زیر سایہ میزان و منشعب ، پنج گنج، نحومیر ، عوامل النحو اور روضۃ الادب وغیرہ کی تعلیم حاصل کی۔ بعدہ دار العلوم کنہواں چلے آئے اور متوسطات کی تکمیل کے بعد اعلی تعلیم کے لیے  دار العلوم شمس العلوم گھوسی ضلع مئو یوپی  گیے اور وہاں سے الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور میں جماعت سابعہ میں داخلہ لیے۔ دوسالوں تک ماہر اساتذہ کرام سے اکتساب فیض فرمانے کے بعد 1980ء عرس حافظ ملت میں سند و دستار فضیلت سے سرفراز ہوئے۔

1979ء میں حضور مفتی اعظم ہند ﷫کے دست حق پرست پر شرف بیعت سے مشرف ہوئے اور 2005ء میں حضور تاج الشریعہ علامہ اختر رضا خان ازہری  ﷫ سے سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کی اجازت وخلافت ملی۔

نقوش خدمات:  بعد فراغت حضرت بحر العلوم ﷫ کے حکم پر دار العلوم سر کار آسی سکندر پور بلیا یوپی بحیثیت صدر المدرسین تشریف لے گیے اور ایک سال تک دلچسپی اور ذمہ داری کے ساتھ درس و تدریس میں مصروف رہے ۔ بعدہ دار العلوم غوثیہ اشرفیہ کانپور بحیثیت مدرس بحال ہوئے اور چند سالوں تک بحسن و خوبی خدمات انجام دیتے رہے۔ گورنمنٹی  سروس کی وجہ سے مستعفی ہوکر مدرسہ تعلیم القرآن رحمانیہ شتر خانہ کانپور میں بحال ہوگیے اور تاحال وہیں درس و تدریس اور افتا کے ذریعہ دین و سنیت کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

کثرت مصروفیات کے باوجود آپ کی تحریری خدمات بھی ہیں جن میں نو آموز مفتیوں کے لیے لکھی گئی اصول  افتا سے متعلق اور چند مخصوص مسائل پر مشتمل کتاب "فقہی تجلیات" ہے جو زیور طبع سے آراستہ ہو چکی ہے اور قرآن و حدیث اور ائمہ و مفسرین کے اقوال کی روشنی میں قبر اور اس کے عذاب سے متعلق  کتاب "عذاب قبر "  ابھی زیر طبع ہے۔ ان کے علاوہ مسلسل 25 سالوں سے فتاوی نویسی کاکام انجام دے رہے ہیں ۔

گوشہ فروغ رضویات:     آپ نے تحریر و قلم ، درس و تدریس ، دعوت و تبلیغ اور فقہ و افتا کے ذریعہ مسلک اعلی حضرت کی ترویج اور فروغ رضویات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ 2008ء میں شہر کانپور میں مسلک اعلی حضرت کے استعمال کے جواز اور عدم جواز کو لے کر کافی ہنگامہ ہوا تھا کہ حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی مسالک تو چار ہی ہیں یہ پانچواں مسلک کہاں سے آیا ؟ لہذا مسلک اعلی حضرت کا استعمال درست نہیں۔  آپ نے اس کا بڑی تفصیل سے شاندار مسکت جواب عطا فرمایا اور تذبذب کے شکار لوگوں کو بتایا کہ مسلک اعلی حضرت کوئی نیا مسلک نہیں ہے بلکہ زمانہ رسالت مآب سے لے کر تبع تابعین تک جو تعلیمات ہیں اسی کا ترجمان "مسلک اعلی حضرت "ہے،  اور مسلک سواد اعظم اور مسلک امام ابو حنیفہ ہی کا دوسرا نام" مسلک اعلی حضرت" ہے۔  دور حاضر میں مابہ الامتیاز کے طور پر مسلک اعلی حضرت کا  استعمال کیا جاتا ہے اور کرنا بھی چاہیے تاکہ اپنے آپ کو حنفی کہلانے والے اکابر علماے دیوبند اور ان جیسے  بد عقیدے جو اپنے عقائد کفریہ قطعیہ اور اقوال خبیثہ ملعونہ کی وجہ سے کافر و مرتد ہوچکے ہیں خارج ہوجائیں۔

اسی طرح جب آپ سے سوال ہوا کہ ضرورت و حاجت کے نام پر بد مذہبوں سے میل جول اور ان کی مجلسوں میں شریک ہونا کیسا ہے؟ تو اولا آپ نے مسلک اعلی حضرت  کی روشنی میں چھ کڑی شرطیں رکھیں اور آخر میں فرمایا کہ اتحاد ملت کا نعرہ نہایت خطرناک اور ایمان کا مہلک  ہے  اور شریعت مطہرہ کے خلاف وقت کی مصلحت سمجھنا شیطانی فریب ہے، حالاں کہ شریعت مطہرہ عین مصلحت ہے ۔

شہزادہ حضور حنیف ملت  اپنے والد ماجد سرکار حنیف ملت ﷫کے سچے جانشیں اور مسلک اعلی حضرت کے پاسبان ہیں۔شہزادہ اعلی حضرت حضور مفتی اعظم ہند ﷫ کے مرید  اور نبیرہ اعلی حضرت سرکار تاج الشریعہ  علامہ اختر رضا خاں ازہری ﷫ کے خلیفہ ہونے کے ناطے خلوص و لگن اور پوری ذمہ داری کے ساتھ مسلک اعلی حضرت کی خدمات اور فروغ رضویات میں مصروف عمل ہیں۔

حضرت مولانا الحاج غلام یسین صاحب قبلہ مہدیا

تنویر حیات:       حضرت مولانا الحاج غلام یسین صاحب رضوی نوری ضلع مہوتری کی مردم خیز بستی مہدیا میں 1948ء  میں  ایک شریف متمول خاندان میں پیداہوئے۔اپنے گاؤں کے مدرسہ قادریہ غریب نواز میں استاذالحفاظ حضرت مولانا حافظ عبدالحمیدالقادری رضوی کے زیر سایہ ناظرہ اور ابتدائی اردو فارسی گلستاں بوستاں وغیرہ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد درس نظامیہ کے لئے ملک نیپال کا عظیم وقدیم ادارہ مدرسہ قادریہ مصباح المسلمین علی پٹی شریف  استاذ الکل قطب نیپال حضور زاھدملت حضرت علامہ حافظ محمد زاھد حسین قادری مجیبی علیہ الرحمہ کے حلقہ درس میں شامل ہوئے اور پوری محنت ولگن کےساتھ متوسطات تک تعلیم حاصل کئے ۔ اعلی تعلیم کے لئے 1387ھ میں اہل سنت کا عظیم ادارہ ازہر ہند الجامعۃ  الاشرفیہ مبارکپور گئے جہاں حضور حافظ ملت،  علامہ عبدالرؤف،  بحرالعلوم ، حضرت قاری یحی،  مولانا سرداراور مولانا شفیع وغیرہ ماہر اساتذہ کرام سے  1390ھ تک مسلسل تین سالوں تک اکتساب فیض فرماتے رہے۔1391ھ درس حدیث وتفسیر کے لئے دارالعلوم مظہر اسلام بریلی شریف چلے گیے  جہاں حضرت علامہ تحسین رضا خاں اور حضرت مفتی محمد اعظم وغیرہ اکابر اساتذہ سے علم تفسیر وحدیث حاصل کرنے کے بعد 1393ھ میں فارغ التحصیل ہوئے۔

آپ کو شہزادہ سرکار اعلی حضرت حضور مفتی اعظم ہندعلامہ  مصطفی رضا خان کے دست حق پرست پر بیعت و ارادت کا شرف حاصل ہے۔

نقوش خدمات:  درسیات سے آپ کو غایت درجہ لگاؤ اور دلچسپی ہے ۔ فراغت کے فورا بعد 1394ھ میں دارالعلوم نورالاسلام کوئٹہ راجستھان درس وتدریس کے لئے تشریف لے گئے اور مکمل ایک سال محنت و لگن اور پوری ذمہ داری کے ساتھ درس و تدریس کی خدمات انجام دیتے رہے ۔

1396ھ میں اپنے وطن واپس آنے کے بعد الجامعۃ  الرضویہ اصلاح المسلمین بھمرپورہ ضلع مہوتری میں بحیثیت مدرس بحال ہوئے ۔ تب سے لے کر  آج تک  تقریبا 44سالوں  سے درس وتدریس کی ذمہ ذمہ داری  سنبھالے  ہوئے ہیں اور دین و سنیت کی خدمات انجام دینے میں مصروف ہیں۔

گوشہ فروغ رضویات:     درس و تدریس  اور تقریر و خطابت کے ذریعہ افکار رضا کی ترویج و اشاعت میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ سرکار اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی کی ذات بابرکات  سے غایت درجہ محبت فرماتے ہیں اسی لیے مسلک اعلی حضرت کی ترویج و اشاعت کی خاطر کبھی بھی جان و مال کی پرواہ نہیں کرتے۔ آپ ایک عمدہ خطیب بھی ہیں۔ آپ کی خطابت کا انداز نرالا ہے۔ اکثر اپنی تقریر میں کلام رضا کا بر محل استعمال فرماتے ہیں اورہمیشہ  اپنی اصلاحی گفتگو کے ذریعہ عوام اہل سنت کو مسلک اعلی حضرت پر گامزن رہنے کی نصیحت فرماتے رہتے ہیں۔

شہزادہ حضور فخر نیپال حضرت مولانا  محمد فضل یزدانی امجدی دام ظلہ العالی بھمر پورہ

تنویر حیات:      شہزداہ امین شریعت حضرت علامہ محمد فضل یزدانی امجدی کی ولادت ۳۰ شعبان المعظم ۱۴۰۲ھ مطابق ۲۳ جون ۱۹۸۲ء ۹ گتے اساڑھ ۲۰۳۹ بکرمی بروز جمعرات محلہ برکت نگر  بھمرپورہ میں ہوئی۔ والد ماجد قبلہ نے آپ کا نام "محمد فضل یزدانی" رکھا لیکن  پیار سے "بابو یزدانی میاں" سے پکارتے ہیں جبکہ گھر کے دیگر افراد آپ کو صرف "مولانا بھیا "سے یاد فرماتے ہیں۔

            چوں کہ آپ کے گھر کا علمی و روحانی ماحول تھا اس لیے چار سال کی عمر میں والد صاحب قبلہ نے رسم بسم اللہ خوانی کرائی اور بغدادی قاعدہ کا پہلا درس دیا۔  چند ماہ بعد ہی والد گرامی اپنے ساتھ اہل سنت کی عظیم درسگاہ دار العلوم قادریہ مصباح المسلمین علی پٹی لے گیے جہاں والد ماجد کے زیر تربیت  ناظرہ کی تکمیل کے بعد باضابطہ آپ کی تعلیم درس نظامی کا آغاز ہوا۔دار العلوم قادریہ میں رہ کروالد گرامی  اور قابل ذی استعداد اساتذہ سے آپ نے  فارسی اور نحومیر پنج گنج وغیرہ کی تعلیم مکمل کی، پھر والد گرامی کے حکم سے ہندوستان کے مشہور و معروف عظیم مرکزی دینی درسگاہ جامعہ امجدیہ گھوسی میں ۱۹۹۸ء میں داخلہ لیا۔ جامعہ امجدیہ میں مسلسل سات سالوں تک ماہر اساتذہ کرام سے اکتساب فیض فرمانے کے بعد ۲۰۰۵ء میں آپ نے درس نظامیہ کی تکمیل کی اور اکابر علماے کرام خصوصا محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفی قادری، والد گرامی حضور فخر نیپال، فقیہ النفس مفتی عثمان رضوی و دیگر مشائخ ہند کے مقدس ہاتھوں دستار فضیلت سے نوازے گیے۔

            آپ کو شیخ الاسلام سید المحققین حضرت علامہ سید مدنی میاں دامت برکاتہم القدسیہ کے دست حق پرست پر سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ میں بیعت و ارادت کا شرف حاصل ہے۔

          آپ خوش اخلاقی، صلہ رحمی، مہمان نوازی جیسی صفات سے متصف نفیس طبیعت والےمتواضع و منکسر المزاج ہیں۔ بڑوں کی عزت، چھوٹوں پر شفقت، علما و مشائخ عظام اور سادات کرام کی تعظیم و توقیر اور ادب و احترام آپ کی عادات کریمہ میں شامل ہیں۔اپنے اکابرین اور اساتذہ کرام بالخصوص شیخ الاسلام علامہ مدنی میاں اور والد ماجد حضور فخر نیپال سے بے پناہ عقیدت و محبت فرماتے ہیں۔ علم دوستی اور علما نوازی میں اپنی مثال آپ ہیں۔  گھر کے دینی و روحانی ماحول اور والد ماجد قبلہ کی تربیت کی بدولت آپ عمدہ اخلاق و کردار کے  پیکر اور اچھی عادات و اطوار کے مالک ہیں۔ مستقبل میں آپ کی ذات ستودہ صفات سے ہم اہل سنت و جماعت کی بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔

نقوش خدمات:  اگر دین متین اور مسلک و ملت کی خدمت کا جذبہ صادق اور قوم کا درد دل میں ہونے کے ساتھ عزم مصمم اور جہد مسلسل بھی ہو تو حدود و فاصلے اور ذاتی مصروفیات راہ کی روکاوٹیں نہیں بن سکتیں۔اس کا ثبوت ہمارے ممدوح شہزادہ حضور فخر نیپال کی ذات اور ان کی دینی، ملی ،مسلکی اور سماجی خدمات ہے۔ یوں تو آپ کسب معاش کے لیے قطر میں رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود اپنی علمی قابلیت اور فکری بصیرت کی بنیاد پر خلوص و للہیت کے ساتھ  دین و ملت اور مسلک کی نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔

شہزادہ حضور فخر نیپال کو بلند فکری اور دور اندیشی وراثت میں ملی ہے، ابتدا ہی سے آپ کے اندر تنظیمی سوچ پائی جاتی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آپ جب جامعہ امجدیہ میں زیر تعلیم تھے تو اس وقت گھوسی کے علاقے میں زیر تعلیم جملہ نیپالی بچوں کو یکجا کرکے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی تھی جس کا مقصد علاقے کے اختلاف کو پاٹ کر ملی، مسلکی اور سماجی و رفاہی کام کرنا تھا لیکن وسائل کی کمی اور اپنوں کا عدم تعاون نے اس کو زیادہ دنوں تک چلنے نہیں دیا۔ پھر بھی آپ حوصلہ شکن نہیں ہوئے اور اپنے عزم و ارادہ کو مضبوط بنائے رکھے۔آخر کار جب آپ کسب معاش کے لیے خلیجی ملک قطر تشریف لے گیے تو وہاں والد ماجد کے مریدین و معتقدین اور مخلص احباب کے ساتھ مل کر فخر ملت فاونڈیشن کی بنیاد رکھے اور اپنی تنظیمی سوچ کو عملی جامہ پہنائے۔ بحمدہ تعالی اب تک اس تنظیم کے توسط سے دینی، ملی، مسلکی اور فلاحی کام انجام دے رہے ہیں اور مسلک اعلی حضرت کی ترویج اور فروغ  رضویات میں مصروف عمل ہیں۔

            مذہب ومسلک  کی حفاظت وصیانت اور اس کی ترویج و اشاعت کے لیے یہ بھی ایک اہم اور عمدہ کام ہے کہ  علماے اہل سنت  کی کتابیں طبع کرائی جائیں تاکہ اہل سنت و جماعت  کے عقائد واعمال  دور دور تک پہنچ سکے اور کثیر افراد ان سے فائدہ حاصل کرسکے، اسی جذبہ کے تحت فاونڈیشن کے زیر انتظام نشر واشاعت کا شعبہ قائم فرمایا جس کے زیر اہتمام حیات زاہد ملت، حیات محدث اعظم نیپال، قصبہ پریہار کا فیصلہ کن مناظرہ، سالانہ اوقات سحر و افطار، دائمی اوقات الصلاۃ کی اشاعت اور سہ ماہی سنی پیغام کا اجرا عمل میں آیا جو تحریری اور صحافتی  میدان میں قابل قدر اضافہ ہے۔ عرس صد سالہ کے اس حسین اور سنہرا موقع سے سہ ماہی سنی پیغام کا یہ خصوصی شمارہ " فروغ رضویات میں علماے اہل سنت نیپال کا کردار" ایک تاریخی نمبر کا حامل ہے جس کی مثال ماضی میں کم سے کم فروغ رضویات میں موجود نہیں۔یہ آپ اور آپ کے معاونین احباب کے ساتھ خود اس رسالہ کا فروغ رضویات میں ایک تاریخی کارنامہ ہے۔

            شہزادہ حضور فخر نیپال اپنی علمی صلاحیت کی بنیاد پر ہر میدان کے  شہسوار ہیں ،تصنیف وتالیف کے لئے احباب کے اصرار پر آپ ہمیشہ فرماتے ہیں کہ پہلے ہم اپنے اکابرین کی کتابیں شائع کرکے فرصت پالیں پھر ان شاء اللہ اس کے لئے بقدر ضرورت کوشش کی جائے گی، ابھی تو ان حضرات کی کتابیں ہمارے لئے طبع کرانا ضروری ہے ۔

 ذریعہ معاش کے لئے دوحہ قطر آنے کے بعد آپ کا زیادہ وقت  مذہب ومسلک کی تبلیغ واشاعت  ، اور علماے اہل سنت کو تیار کرکے ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے میں صرف ہوتا ہے  اس لئے تصنیفی کام فی الوقت زیادہ نہ ہوسکا ،مگر اس کے لئے بھی کچھ وقت نکال کر اس باب میں جو کام کئے ان میں "قصبہ پریہار کا فیصلہ کن مناظرہ"  کی تحقیق و  تخریج اور تقدیم و تحشیہ قابل تحسین  ہے۔ مزید کچھ کتابیں زیر ترتیب ہیں جو ان شاء اللہ جلد طباعت کے مرحلے سے گذر کر منظر عام پر ہوں گی۔

گوشہ فروغ رضویات:     شہزادہ حضور فخر ملت حضرت علامہ مولانا محمد فضل یزدانی امجدی دام ظلہ العالی اپنی  علمی قابلیت اور حکمت و دانائی سے مسلک اعلی حضرت کی ترویج و اشاعت  اورفروغ رضویات کے لیے ہمہ وقت  کوشاں رہتے ہیں اور صرف تگ و دو ہی نہیں کرتے بلکہ بزرگوں کے فیضان کرم اور رب ذو المنن کے فضل سے آپ کو خاطر خواہ کامیابی بھی ملتی ہے۔  جہاں کہیں ضرورت پیش آئی بلا خوف لومۃ لائم اپنے مسلک کی خاطر حاضر ہوگئے۔

            ملک نیپال سے نکلنے والا رسالہ سواد اعظم مسلک اعلی حضرت کا بے باک ترجمان سہ ماہی سنی پیغام جس مقصد اصلی ہی مسلک اعلی حضرت کی ترویج اور فروغ رضویات ہے،اور جس کا یہ تاریخی نمبر "فروغ رضویات میں علماے نیپال کا کردار" آپ کے ہاتھوں میں ہے،یہ بھی آپ اور آپ کے مخلص احباب کی سوچ اور محنتوں کا نتیجہ ہے۔فخر ملت فاونڈیشن کی مالی امداد اور ہمارے مدیران و اہل قلم حضرات کے قلمی تعاون ہی کی بدولت یہ رسالہ پوری  آب و تاب کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔

حضرت مولانا نور محمد رضا جگر مصباحی خلیفہ اول حضور فخر نیپال سرسیا

تنویر حیات:      ابو الفیض   نور محمد رضا جگر مصباحی ابن محمد تسلیم احمد ابن محمد خورشید احمد ابن محمد بدری میاں سرسیاوی  ۲۴ ذی قعدہ ۱۴۰۵ھ مطابق 12 اگست 1985ء میں پیر کے دن  اپنے ننھیال موضع آگے پور میں پیدا ہوئے۔اپنے گاوں سرسیا کے مکتب سے آپ کی تعلیم کا آغازہوا۔ ناظرہ کی تکمیل کے بعد دار العلوم وارثیہ لکھنو میں داخل ہوئے اور 2000ء سے 2003ء تک  از اعدادیہ تا ثانیہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ازہر ہند الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پورآگیے اور مسلسل چھ سالوں تک ماہر اساتذہ کرام سے اکتساب فیض فرمانے کے بعد 28 جون 2006ء میں دستار قرات حفص و سند عالمیت اور ۶ جون 2008ء میں دستار و سند فضیلت و قرات سبعہ سے سرفراز ہوئے۔پھر جامعہ اکرم العلوم مرادآبادمیں  سند افتا و فقہ سے نوازے گیے۔

۴ جمادی الاخری ۱۴۲۹ھ مطابق 9 جون 2008ء بروز پیر دستار بندی کی خوشی میں  دولت خانہ پر منعقد پروگرام میں تشریف لائے ہوئے پیر طریقت رہبر راہ شریعت عطاے حضور حافظ ملت مفتی اعظم نیپال حضرت علامہ الشاہ مفتی محمد اسرائیل رضوی برکاتی  المعروف بہ حضور فخر نیپال دامت برکاتہم العالیہ کے  دست حق پرست پر سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ رضویہ میں بیعت و ارادت کا شرف حاصل کیے اور 17 اگست 2013ء بروز بدھ اپنے دولت خانہ پر پیر و مرشد نے  اپنی اجازت و خلافت عطا فرمائی جس کا  اعلان بذریعہ دستار بندی 25 فروری 2016ء بموقع عرس امین شریعت رحمن پور ، مہدیا میں  ہوا۔

نقوش خدمات:  مولانا جگر مصباحی صاحب  فرغت کے بعد درج ذیل  دینی درسگا ہوں میں  درس و تدریس کی  خدمات انجام دے چکے ہیں:

جامعہ اکرم العلوم مرادآباد                                            بحیثیت مدرس

دار العلوم رضویہ  مصطفویہ فیروزآباد                                 بحیثیت صدر المدرسین

دار العلوم فیضان اشفاق ناگور راجستھان                            بحیثیت شیخ التجوید

مدرسہ اسلامیہ معراج العلوم دیناری کرنیل گنج  گونڈہ                بحیثیت مدرس

مدرسہ غوثیہ طاہر العلوم کما، سیتامڑھی                               بحیثیت صدر المدرسین

2012ء سے تا دم تحریر مدرسہ اسلامی عربی اندرکوٹ گذری بازار میرٹھ، یوپی میں درجہ فضیلت تک کے طلبا کو  خلوص و لگن کے ساتھ درس و تدریس دینے میں مصروف ہیں ۔

درس و تدریس کے ساتھ تحریر و قلم  کا  بھی ذوق رکھتے ہیں ۔ شاعری سے آپ کو فطری لگاو ہے ۔ آپ کا مجموعہ کلام "پروانہ  بخشش" کے نام سے  2017ء میں شائع ہوا ہے۔اس کے علاوہ شجرہ طیبہ سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ فخریہ  بھی آپ کی ترتیب ہے۔  فی الحال اپنے پیر و مرشد مفتی اعظم نیپال حضور فخر نیپال دامت برکاتہم العالیہ کے فتاوی جات کی ترتیب و تخریج کا کام انجام دے رہے ہیں۔

گوشہ فروغ رضویات:     آپ نے اپنے گاوں کی مسجد اور مدرسہ دونوں کا نام علی الترتیب "مسجد سرکار اعلی حضرت" اور " مدرسہ سرکار اعلی حضرت" رکھا ہے۔ یہ مدرسہ  نیپال حکومت سے منظور شدہ اور بحسن و خوبی ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔

            مدرسہ اسلامیہ معراج العلوم دیناری کرنیل  گنج گونڈہ میں قیام کے دوران ایک دیوبندی مولوی ظاہر خان سے مسلک اعلی حضرت کی حقانیت پر آپ کی بحث بھی ہوئی ہے۔ جس میں آپ نے مسلک سواد اعظم مسلک اعلی حضرت کی حقانیت  کو ثابت اور اور عقائد وہابیہ و دیابنہ  ملعونہ کا زبردست  ابطال کیا۔ جس کی وجہ سے اہل سنت وجماعت کو بڑی خوشی ہوئی اور بدعقیدے ذلیل و رسوا ہوئے۔

سرکار اعلی حضرت امام احمد رضا خان  فاضل بریلوی کے  دس نکاتی پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے ایک تنظیم "الثقافۃ الفخریہ" کے نام سے چلا رہے ہیں ، جس کے ذریعہ تعلیمات رضا کو عام  کرکے مسلک اعلی حضرت کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔علاوہ ازیں درس و تدریس، تقریر و خطابت ، نقابت و نظامت اور شعرو شاعری کے ذیعہ بھی فروغ رضویات کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ آپ نے اپنی شاعری میں طرز رضا کو بھی اپنایا ہے اور اعلی حضرت و خانوادہ اعلی حضرت کی شان میں منقبت کے اشعار بھی کہے ہیں ۔ نمونہ کلام درج ذیل ہے:

طرز رضا کی پیروی:

پیارے آقا کی بعثت پہ لاکھوں  سلام                      آمد رب کی رحمت پہ لاکھوں سلام

بارہ کو رب نے دکھایا ایسا جلوہ نور کا                        چھنٹ گئیں تاریکیاں پھر دور آیا نور کا

منقبت :

اہل سنن کی جان ہیں اور شان اعلی حضرت              دنیا میں دین حق کی پہچان اعلی حضرت

پانچ پھولوں کا جو میرے سینے میں گلدان ہے            اعلی حضرت آپ کے مسلک کی یہ پہچان ہے

چل دیئے سوے جناں اختر رضا خاں ازہری             چھوڑ کر ویراں جہاں اختر رضا خاں ازہری

بخوف طوالت یہاں فقط مطلع مذکور ہے مکمل کلام آپ کے دیوان  میں موجود ہے۔

حضرت مولانا رحمت علی رضوی صاحب قبلہ برداہا

تنویر حیات:      حضرت مولانا رحمت علی رضوی بن محمد زاہد بن محمد عبد اللطیف مرحوم و مغفور 21 اگست 1980 ء کو مردم خیز اور مسلمانوں کی غالب اکثریت والی بستی برداہا وارڈ نمبر 9 ضلع مہوتری میں پیدا ہوئے۔ ناظرہ قرآن اور درس نظامی کی ابتدائی جماعت اعدادیہ کی تعلیم گاوں ہی کے مکتب میں حضرت مولانا عبد الغفور صاحب نورہ اللہ مرقدہ کےپاس ہوئی۔آگے کی تعلیم کے لیے گاوں سے  باہر  دار العلوم محمدیہ بچھار پور ضلع سیتامڑھی میں داخل ہوئے جہاں مولانا سلیم الدین  برکاتی برداہوی کے زیر سایہ تقریبا دو سالوں تک تعلیم میں مصروف رہے۔ پھر مدرسہ حنفیہ برکاتیہ جنک پور میں داخلہ لیے اور مجاہد دوراں حضرت علامہ محمد مستقیم برکاتی مصباحی اور حضرت علامہ اسلم القادری صاحب قبلہ اور دیگر ماہر اساتذہ سے اکتساب فیض فرمائے۔ بعدہ ملک نیپال ترائی کی مرکزی درسگاہ دار العلوم قادریہ مصباح المسلین علی پٹی شریف میں حضور فخر نیپال دامت برکاتہم العالیہ سے شرح جامی تک کی تعلیم حاصل کیے ۔

 اعلی تعلیم کے لیے حضور فخر نیپال دامت  برکاتہم العالیہ کی اجازت سے شہزادہ حضور فخر ملت کے ساتھ یو پی چلے گیے اور دار العلوم بحر العلوم کھیری باغ مئو سے ہوتے ہوئے مدرسہ عربیہ رضویہ ضیاء العلوم ادری میں  عالمیت کی تکمیل کیے۔2001ء  میں افضل المدارس الہ آباد سے دورہ حدیث کی تکمیل ہوئی اور علماے کرام و مشائخ عظام کے مقدس ہاتھوں سند و دستار فضیلت سے سرفراز ہوئے۔

دوران طالب علمی اچھی نعت خوانی کرتے تھے اور پورے علاقہ میں "نیر نیپالی" کے نام سے مشہور تھے۔کلام رضا بڑی سنجیدگی اور مد بھری آواز میں پڑھا کرتے جس کو علما و عوام سبھی پسند فرماتے تھے۔

دار العلوم قادریہ مصباح المسلمین ہی میں قیام کے دوران امین شریعت نیپال حضرت علامہ مفتی محمد اسرائیل رضوی المعروف بہ حضور فخر نیپال دامت برکاتہم العالیہ خلیفہ نبیرہ اعلی حضرت  علامہ توصیف رضا خان کے دست حق پرست پر سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ میں بیعت و ارادت کا شرف حاصل کیے۔

نقوش خدمات:  بعد فراغت  درس و تدریس کے لیے مرشد گرامی کے حکم سےدار العلوم سبحانیہ  قصبہ سارسر ضلع سرہا نیپال تشریف لے گیے جہاں دو سالوں تک  خلوص و لگن اور پوری ذمہ داری کے ساتھ خدمت دین  متین انجام دیتے رہے۔ پھر مولانا مناظر حسین ضیائی  پرڑیاوی کے پیہم اصرار پر مدرسہ گلشن رضا پرڑیا ضلع مہوتری آگیے اورتقریبا 2004ء تک امامت و خطابت اور درس و تدیس میں مصروف رہے۔پرڑیا سے مستعفی ہونے کے بعد 2004ء میں   کسب معاش کی خاطر خلیجی ملک دوحہ قطر تشریف لے گیے اور اب تک وہیں پر قیام پزیر ہیں۔

دین و مسلک  اور قوم و ملت کی خدمت کے جذبہ کے تحت 2012 ء میں اپنے احباب کے ساتھ مل کر  ایک تنظیم "صراط مستقیم" کی بنیاد ڈالے جو 2016 ء میں نہایت فعال اور متحرک تنظیم "فخر ملت فاونڈیشن" کے قیام کی وجہ بنی۔ فخر ملت فاونڈیشن کو ترقی کے اس بلند مقام پر لانے میں آپ کی  اور آپ کے احباب کی شب و روز کی محنت و لگن اور خلوص کا اہم رول  ہے۔  سب سے پہلے اس فاونڈیشن کی سوچ آپ ہی نے بنائی اور اپنے احباب کو دعوت دے کر اس کے قیام پر ابھارا۔

گوشہ فروغ رضویات:     یوں تو آپ کے بہت سے اوصاف و کمالات ہیں لیکن ان تمام میں آپ کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس عدیم الفرصتی کے دور میں بھی آپ متحرک و فعال علماے کرام خصوصا ذی ہوش نوجوان علماے کرام سے ہمیشہ رابطے میں رہتے ہیں اور اکابر سے فاونڈیشن کے منصوبہ جات پر مشورے اور ہم نوجوانوں کی حوصلہ افزائی فرماتے رہتے ہیں۔اشاعتی  اور رفاہی کاموں کے لیے جیب خاص سے بھی حصہ لیتے ہیں اور مخیرین حضرات سے بھی تعاون کرواتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ الحمد للہ سہ ماہی سنی پیغام کا کام  اب تک پابندی سے ہوتا رہا ہے اوردیگر بہت سی کتب کی اشاعت فاونڈیشن سے ممکن ہو سکی ہے۔سہ ماہی سنی پیغام کے اس خصوصی شمارہ "فروغ رضویات میں علماے مہوتری کا کردار" کی اشاعت کے لیے بھی کلیدی رول ادا کر رہے ہیں۔

ادیب لبیب حضرت علامہ محمد صفی اللہ  قادری  صاحب قبلہ  گلاب پور کٹیا

تنویر حیات:      حضرت مولانا محمد صفی اللہ قادری  ابن محمد عین الحق مرحوم کی ولادت 9 جون 1973ء کو  نیپال کی مردم خیز بستی گلاب پور سسوا کٹیا میں ہوئی۔ مدرسہ مظہر العلوم گلاب پور سسوا کٹیا سے تعلیمی سفر کا آغاز فرمایا اور مدرسہ اسلامیہ لعل گوپال گنج   ضلع الہ آباد، دار العلوم اہل سنت شمس العلوم گھوسی ضلع مئو، بحر العلوم لطیفیہ ضلع کٹیہار، دار العلوم اہل سنت خیریہ فیض عام گھوسی ضلع مئو  ہوتا ہوا آپ کی فضیلت تک کا سفر  دار العلوم غریب نواز الہ آباد پر منتہی ہوا۔ حضرت علامہ مشتاق احمد نظامی کے عرس چہلم کے موقع پر 1990ء میں دار العلوم غریب نواز کے خوشگوار چمن اور معطر ماحول میں ہندوستان کے جلیل القدر علماے کرام و مشائخ عظام کے ہاتھوں سند و دستار فضیلت  سے نوازے گیے۔

1985ء میں حضور تاج الشریعہ علامہ اختر رضا خان ازہری کے دست حق پرست پر شرف بیعت سے مشرف ہوئے اور 2016ء میں خلیفہ برہان  ملت حضرت علامہ مفتی محمد مصلح الدین قادری برہانی  نے اپنی اجازت و خلافت عطا فرمائی۔

نقوش خدمات:  آپ نے فراغت کے بعد مندرجہ ذیل درسگاہوں میں اپنی خدمات کے نقوش بکھیرے ہیں:

دار العلوم غوثیہ دیوا ، ایم پی                               بحیثیت صدر المدرسین

مدرسہ غوث اعظم دہلی                                   بحیثیت صدر المدرسین

دار العلوم باز اشہب برئی  ضلع پرتاپ گڑھ               بحیثیت نائب شیخ الحدیث

فی الحال  اپنے مادر علمی مدرسہ حبیبیہ اسلامیہ  لعل گوپال گنج   ضلع الہ آباد میں نائب شیخ الحدیث کے عہدہ پر فائز المرام ہیں۔

آپ کو قرطاس و قلم سے اچھی خاصی دلچسپی اور فطری لگاو ہے۔ اب تک آپ کے رشحات قلم سے درج ذیل کتابیں وجود میں آ چکی ہیں:

اصول نظامت، مطبوعہ۔                    سوانح حنیف ملت ، مطبوعہ۔                سوانح  مصلح ملت، غیر مطبوعہ

اورنگ ولایت، غیر مطبوعہ                   بہار نظامت، غیر مطبوعہ                     حالات انبیا، غیر مطبوعہ

تاریخ علماے کٹیا، غیر مطبوعہ                 شرح شرح جامی، غیر مطبوعہ                 آئینہ نیپال، غیر مطبوعہ

گوشہ فروغ رضویات:      ادیب لبیب حضرت مولانا صفی اللہ صاحب قادری کثیر الجہات شخصیت کے مالک ہیں۔ مسلک اعلی حضرت کی ترویج اور فروغ رضویات میں آپ نے درس و تدریس، دعوت وتبلیغ، تصنیف و تالیف اور رد و مناظرہ کے ذریعہ حصہ لیا ہے۔ تقریبا 28 سالوں پر محیط  تدریسی خدمات اور آپ کی مختلف تصانیف  فروغ رضویات اور مسلک اعلی حضرت کی تشہیر سے مملو ہیں۔

            مسلک اعلی حضرت اور احقاق حق و ابطال باطل کی خاطر بدعقیدوں سے آپ کا  مناظر ہ بھی ہوا ہے۔ 1991ء میں جب آپ دار العلوم غوثیہ دیوا، ایم پی میں تھے تو ایک فاضل دیوبند مولوی سے میلاد و قیام اور امکان کذب باری تعالی پر آپ کی بحث ہو گئی۔ مسلک اعلی حضرت کی روشنی میں دلائل و براہین  سے اس فاضل دیوبند کو ایسا مبہوت کیا کہ وہ خائب و خاسر ہوکر  راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوگیا۔پھر آپ نے میلاد و قیام اور امکان کذب باری تعالی پر علمی گفتگو فرما  کر اپنے بیگانے سب کو مطمئن فرمایا۔

حضرت مولانا محمد شفیق اللہ امجدی چترویدی  صاحب قبلہ برداہا

تنویر حیات:      حضرت مولانا محمد شفیق اللہ رضوی امجدی  ابن محمد الیاس  4 مئی 1981ء میں قصبہ برداہا ضلع مہوتری میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گاوں کے مکتب میں مولانا عبد الغفور صاحب نور اللہ مرقدہ سے حاصل کی۔ درس نظامی کے لیے مرکزی ادارہ دار العلوم قادریہ مصباح المسلمین علی پٹی شریف میں داخل ہوئے اور حضور فخر نیپال دامت برکاتہم العالیہ  ودیگر ماہر اساتذہ کرام سے اکتساب فیض فرمانے کے بعد  کچھ دنوں کے لیے محمدیہ برکاتیہ بچھار پور ضلع سیتامڑھی  گیے اس کے بعد مدرسہ حنفیہ برکاتیہ جنک پور آگیے ۔ یہاں سے مولویت کی تکمیل کے بعد اعلی تعلیم کے لیے یوپی گیے اور پہلے بحر العلوم مئو سے ہوتے ہوئے الجامعۃ الامجدیہ الرضویہ گھوسی میں داخلہ لیے اور مسلسل تین سالوں تک پوری دلجمعی اور محنت و لگن کے ساتھ حصول علم میں مصروف رہے۔ 6 جنوری 2003ء میں عرس امجدی کے پر بہار موقع پر مشاہیر علماے کرام و مشائخ عظام کے مقدس ہاتھوں سند و دستار فضیلت و قرات  سے سرفراز ہوئے۔

1999ءمیں دوران طالب علمی حضور سید امین میاں دامت برکاتہم العالیہ  کے دست اقدس پر بیعت و ارادت کا شرف حاصل ہوا اور 2016ء میں بھیونڈی میں تاج الشریعہ علامہ اختر رضا خاں ازہری نے اجازت و خلافت عطا فرمائی۔

نقوش خدمات:  فراغت کے بعد درس و تدریس کا آغاز مدرسہ انوار الہی سہوا ضلع مدھوبنی سے ہوا جہاں آپ بحیثیت صدر بحال ہوئے اور نہایت خلوص و لگن کے ساتھ خدمت مذہب و مسلک میں مصروف رہے۔ بعدہ مجاہد دوراں حضرت علامہ محمد مستقیم برکاتی مصباحی صاحب قبلہ صدر آل نیپال سنی جمیعۃ العلما نیپال کے اصرار پر  بحیثیت مدرس  مدرسہ حنفیہ برکاتیہ جانکی نگر جنک پور آگیے اور آٹھ سالوں تک نہایت خلوص اور پوری  ذمہ داری کے ساتھ درس و تدریس کی خدمات انجام دیتے رہے۔فی الوقت "آل نیپال سنی جمعیۃ العلما" کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے سرگرم عمل ہیں۔

گوشہ فروغ رضویات:     مدرسہ انوار الہی  سہوا ضلع مدھوبنی میں قیام  کے دوران آپ کو پتہ چلا کہ اس گاوں کے بہت سے سنی صحیح العقیدہ حضرات  وہابی دیوبندی کی اقتدا میں اپنی نمازیں  ادا کرتے ہیں  اور عدم علم کی بنا پر کبراے وہابیہ دیابنہ کی تکفیر بھی نہیں کرتے ساتھ ہی  میلاد و فاتحہ اور جلوس محمدی کو شرک و بدعت اور ناجائز و حرام سمجھتے ہیں۔ اس وقت آپ کمال تدبر اور دانشمندی کے ساتھ بھولے بھالے مسلمانوں کو گمرہی کے دلدل سے نکالنے میں  ہمہ تن مصروف ہو گیے۔ اپنی تقریرو خطابت اور انفرادی کوششوں سے لوگوں کو ان بدعقیدوں کے عقائد کفریہ اور اقوال ملعونہ سے مطلع کیے اور میلاد و فاتحہ اور جلوس محمدی  کے بارے میں قرآن و حدیث اور اقوال علما و ائمہ کی روشنی میں ان کے شکوک و شبہات کا ازالہ فرمائے۔ بحمدہ تعالی آپ کی پیہم  کوششوں کی بدولت  وہاں کے لوگ ان بدعقیدوں سے دور و نفور ہوئے اور معمولات اہل سنت پردلجمعی اور  سختی کے ساتھ عمل کرنے لگے ۔ آج بھی وہ سب کے سب سچے و پکے متبعین مسلک اعلی حضرت ہیں۔

آپ ایک عمدہ  اور کامیاب خطیب  بھی ہیں ۔ پورے نیپال اور ہندوستان کے اکثر صوبوں میں آپ کی خطابت ہوتی ہے۔ وید و پران کا بھی مطالعہ ہے اس وجہ سے اپنی تقریر میں کثرت سے شان رسالت مآب میں ہندوں کی کتابوں سے حوالہ کے ساتھ سنسکرت کا شلوک پڑھتے ہیں  اور اسی وجہ آپ کو چترویدی بھی کہا جاتا ہے۔ فروغ رضویات بذریعہ تقریر و خطابت میں آپ کا اہم رول ہے۔آج  تقریبا بارہ   سالوں سے آپ  اس میدان میں  فروغ رضویات اور مسلک اعلی حضرت کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اپنی خطابت میں  موقع و محل کے اعتبار سے کثرت کے ساتھ  کلام رضا  کا استعمال فرماتے ہیں۔چترویدی صاحب  عوام و خواص بالخصوص نوجوانوں کے چہیتے مقرر ہیں اور اپنی تقریر کے ذریعہ سامعین کے اندر مسلک اعلی حضرت کے تئیں بیداری اور نوجوانوں کے اندر جوش وجذبہ پیدا کرنے کی کامل مہارت رکھتے ہیں۔  درس و تدریس اور تحریر و قلم سے  بھی قلبی لگاو ہے لیکن تقریر و خطابت اور   دعوت و تبلیغ کے لیے کثرت اسفار کی بنا پر وقت نہیں نکال پاتے ہیں۔ہم امید کرتے ہیں کہ اس جانب بھی اپنی توجہ مبذول فرمائیں  گے۔

حضرت مولانا محمد مستقیم  رضوی صاحب قبلہ پرڑیا

تنویر حیات:       حضرت مولانا محمد مستقیم رضوی ابن محمد اسلام راعین مرحوم و مغفور پرڑیا حال بھنگہا نگر پالیکا 8 ضلع مہوتری میں 1978ء کو   ایک متمول خاندان میں پیدا ہوئے۔ گاوں کے مکتب مدرسہ گلشن رضا پرڑیا سے آپ کی تعلیم کی ابتدا ہوئی ۔ ناظرہ کی تکمیل کے بعد درس نظامی کے لیے دار العلوم قادریہ مصباح المسلمین علی پٹی شریف میں داخلہ لیے  اور حضور فخر نیپال دامت برکاتہم العالیہ اور دیگر ماہر اساتذہ سے تقریبا تین سالوں تک اکتساب فیض فرمانے کے بعد اعلی تعلیم کے لیے ہندوستان کا رخ کیے۔پہلے دار العلوم باز اشہب برئی کنڈہ پرتاپ گڑھ یو پی گیے پھر مغل پورہ پٹنہ سیٹی بہار کے عظیم دینی درس گاہ الجامعۃ الرضویہ میں داخل ہوئے اور یہیں سے1996 ء میں  علماے کرام و مشائخ عظام کے ہاتھوں سند و دستار سے نوازے گیے۔تعلیمی سلسلہ کو مزید آگے بڑھانے کی غرض سے منظر اسلام بریلی شریف میں بھی داخلہ لیے مگر کسی مجبوری کی وجہ سے وہاں نہیں رہ پائے اورآپ کو  تعلیمی سلسلہ روکنا پڑا۔

مرکز اہل سنت بریلی شریف  کی عظیم الشان درس گا ہ دار العلوم منظر اسلام میں بہت دنوں تک تعلیم حاصل کرنے کا موقع تو نہ مل سکا البتہ تاج الشریعہ علامہ اختر رضا خان ازہری کے دست اقدس میں ہاتھ دے کر بیعت و ارادت کا سنہرا موقع ضرور ملا اور جس کو غنیمت جانتے ہوئےسلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ میں داخل ہوگیے۔

نقوش خدمات:   فراغت کے بعد درس و تدریس اور امامت و خطابت کے ذریعہ مسلسل آٹھ سالوں تک  ہند و نیپال کے مختلف مکاتب و مدارس مثلا دھناری، ملاہی، کوٹھیا ڈومریاہی ، ادھیانپور ، لوہار پٹی،  کبیلاسہ ، پیراری وغیرہ میں پوری   لگن اور ذمہ داری کے ساتھ دین متین کی خدمات انجام دیتے رہے لیکن والد ماجد کے انتقال کے بعد گھر کے تنہا کفیل ہونے کے ناطے اس سلسلہ کو بھی ختم کرنا پڑااور گھر یلو ذمہ داریوں میں الجھ کر رہ گیے۔

ملکی سیاست میں بھی آپ نے حصہ لینے  کی  کوشش کی تاکہ قوم مسلم خصوصا اہل سنت و جماعت کی نمائندگی ہو سکے لیکن حالات سے مایوس ہوکر اسے بھی خیرآباد کہنا پڑا   مگر مسلک  وملت کی فلاح و بہبودگی کی خاطر اب دوبارہ کوشش جاری ہے۔

آپ ایک بہترین  تنظیمی ذہنیت کے مالک ہیں اور مذہب و ملت کا کام فکر رضا کی روشنی میں کرنے کا جذبہ صادق  بھی رکھتے ہیں۔ماضی میں کئی تنظیموں سے منسلک رہے۔ 2012ء میں مولانا امیر اللہ انصاری ضلع نول پراسی کی سیاسی  تحریک "آل نیپال سنی دعوت اسلامی سنگھ "کے قومی صدر بھی رہ چکے ہیں۔ فی الحال تین تنظیموں سے جڑ کر مسلک و ملت کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ان میں فخر ملت فاونڈیشن کے صدر تنظیم فلاح المسلمین نیپال کے جنرل سکریٹری اور تنظیم صراط مستقیم کے ممبر کی حیثیت سے سرگرم عمل ہیں۔

گوشہ فروغ رضویات:  زمانہ طالب علمی ہی سےآپ کو  نعت و تقریر سے کافی دلچسپی ہے جس کا وسعت بھر استعمال آپ مسلک اعلی حضرت  کی ترویج اور  فروغ رضویات  کی خاطر کرتے ہیں۔ وہابی کےعقائد و اعمال سے متاثر ایک صاحب سے مسلک اعلی حضرت اورترجمہ قرآن کنز الایمان کو لے کر بحث بھی ہوچکی ہے  جس میں آپ نے دلائل وبراہین کے ذریعہ سامنے والے کو ایسا چپ اور مطمئن کیا کہ الحمد للہ آج تک وہ خاموش ہے۔ جس کے بعد سے کافی دنوں تک آپ کی  تقریر کا موضوع اعلی حضرت اور مسلک اعلی حضرت  رہا تاکہ جن کو نہیں معلوم وہ صحیح طور پر مسلک اعلی حضرت کو جان لیں اور اپنے ایمان و عقیدہ کو محفوظ رکھے۔

حضرت مولانا محمد علاء الدین امن   رضوی صاحب قبلہ مہدیا

تنویر حیات:      مولانا محمد علاءالدین بن محمد دلشیر بن مولوی محمد قاسم قادری بن مولوی محمد جمدلی میاں جی کی پیدائش محلہ حویلی پٹی مہدیا ضلع مہوتری نیپال میں 22 ستمبر 1992 ء میں ہوئی۔ آپ کا نام حضور حمید ملت حضرت مولانا حافظ عبد الحمید قادری رضوی نے محمد علاء الدین تجویز فرمایا اور فرمایا کہ اس میں بزرگان دین کی برکات شامل ہے۔ رسم بسم اللہ خوانی حضور حمید ملت نے فرمائی ۔ آپ کے جد محترم اکثر فرمایا کرتے تھے کہ میرا پوتا بڑا عالم بنے گا۔ گاوں کے مکتب مدرسہ غریب نواز مہدیا  سے ابتدائی اردو اور ناظرہ قرآن کی تکمیل کے بعد  درس نظامی کی ابتدائی تعلیم  کے لیے مدرسہ ھدایت المسلمین ہنومان نگر اور دار العلوم حنفیہ برکاتیہ جانکی نگر جنک پورمیں  داخل ہوئے ۔ چند سالوں کے بعد  اعلی تعلیم کے لیے یو پی چلے گیے اور مدرسہ ضیاء العلوم ادری میں کچھ سال رہنے کے بعد مدرسہ خیریہ فیض عام سے عالمیت اور دار العلوم شمس العلوم گھوسی سے 2010 میں سند و دستار فضیلت سے سرفراز ہوئے۔

آپ کو نبیرہ سرکار اعلی حضرت شہزادہ حضور مفسر اعظم ہند حضرت علامہ شاہ ڈاکٹر محمد قمر رضا خان قادری رضوی بریلوی کے دست حق پرست پر شرف بیعت و ارادت حاصل ہے۔

نقوش خدمات:  فراغت کے بعد فانتشروا فی الارض وابتغوا من فضل اللہ کے تحت  کسب معاش کے لیے خلیجی ملک دوحہ قطر تشریف لے گیے جہاں ڈیوٹی سے  قیمتی وقت بچا کر مذہب و مسلک کی خدمات میں مصروف رہتے ہیں۔

آپ اہل سنت کی عظیم  متحرک و فعال تنظیم " فخر ملت فاونڈیشن" کے ایک اہم رکن ہیں۔ فاونڈیشن کے   جملہ دینی ، ملی ، مسلکی ، اشاعتی، سماجی  اور رفاہی کاموں میں دامے درمے قدمے سخنے بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں۔

آپ ایک بہترین نعت خواں ہیں خاص کر امام الکلام سرکار اعلی حضرت کا کلام بہت سنجیدہ اور بہترین طرز میں پڑھتے ہیں ، ہمیشہ کلام رضا ہی سے آغاز فرماتے ہیں۔ اسی کے ساتھ آپ ایک عمدہ خطیب بھی ہیں ، جب بھی موقع ملتا ہے مسلک اعلی حضرت کی روشنی میں اصلاحی گفتگو فرماتے ہیں۔تحریر و قلم سے بھی آپ کو دلچسپی ہے۔ مضامین و مقالات لکھنے کا اچھا  شوق و جذبہ رکھتے ہیں ۔ملک نیپال کی عبقری علمی شخصیت  امین شریعت محدث اعظم نیپال حضرت علامہ الشاہ مفتی محمد کلیم الدین قادری نوری براہیمی کی حیات و خدمات پر مستند اور دستاویزی کتاب "حیات محدث اعظم نیپال " کی تالیف اب تک کے آپ کا سب سے نمایاں کارنامہ ہے۔ کثرت مصروفیات سے وقت بچا کر لکھی گئی اس کتاب کی طباعت نے آپ کو کافی حوصلہ بخشا اور فی الوقت منفرد موضوع پر آپ کی ایک اور کتاب "احتیاط امام احمد رضا" زیر ترتیب ہے۔

گوشہ فروغ رضویات:     فروغ رضویات میں آپ نے تحریر و قلم سے بھی حصہ لیا ہے۔ ضیاء العلوم ادری میں قیام کے دوران عرس رضوی کے پر بہار موقع سے تحریری انعامی مقابلہ میں " امام احمد رضا  ایک ہمہ جہت شخصیت" کے عنوان پر مقالہ لکھ کر ممتاز پوزیشن سے کامیاب ہوئے اور بطور انعام بہار شریعت مکمل سیٹ و اعجازی سند سے نوازے گیے۔فی الحال فروغ رضویات بذریعہ تحریر و قلم کی ایک اور کڑی " احیتاط امام احمد رضا" پر زور و شور سے کام چل رہا ہے اور جلد مکمل ہونے کے بعد منظر عام پر آنے کی امید ہے۔

آپ کی شخصیت کو سنوارنے اور خدمت مذہب و مسلک کے تئیں حساس کرنے میں شہزادہ حضور فخر نیپال صاحب قبلہ کا اہم رول ہے۔ راقم السطور سے ایک نجی گفتگو میں آپ فرماتے ہیں کہ " ناچیز قطر آنے کے بعد علم سے دور ہو چلا تھا  لیکن شہزادہ حضور فخر نیپال ابو الاوصاف حضرت علامہ محمد فضل یزدانی دامت برکاتہم القدسیہ  ولی عہد خانقاہ قادریہ رضویہ فخریہ نے  اس ذرہ ناچیز کو بنا سنوار کر اور علم تصوف پڑھا کر اپنے محبان کے حلقہ میں شامل فرمایا اور مذہب و مسلک کی خدمات کی تاکید فرما کر عوام کے سامنے پیش فرمایا۔ حضرت کے اتنے احسانات مجھ فقیر پر ہے جن کو بیان نہیں کیا جاسکتا ، اللہ عز و جل حضرت کا سایہ ہم اہل سنت پر تادیر قائم و دائم فرمائے۔ آمین"۔

حضرت مولانا محمد عظمت علی مصباحی  صاحب قبلہ ادھیان پور

تنویر حیات:       مولانا محمد  عظمت علی مصباحی ابن محمد یونس کی ولادت یکم جون 1984ء کو ضلع مہوتری کی مشہور و معروف بستی سرزمین ادھیان پورغوث نگر  وارڈ نمبر 9 بلوا نگر پالیکا میں ہوئی۔ ابتدامیں والد ماجد نے آپ کا داخلہ اسکول میں کروادیا ۔ آٹھ کلاس تک اسکول کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد والد ماجد کا مزاج بدلا اور آپ کو  عالم دین بنانے کے لیے اپنے ہی دالان پر مولانا فرمان علی صاحب بیرہ والے کو رکھ کر دینی تعلیم دلوانے لگے۔ مولانا فرمان علی صاحب سے ناظرہ اور ابتدائی اردو کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد فارسی پہلی ، دوسری کی تعلیم  اپنے  بہنوئی مولانا رحمت اللہ بھگوتی پور خلیفہ حضور فخر نیپال صاحب سے حاصل کی ۔ کچھ دنوں بعد والد ماجد نے آپ کو الجامعۃ الرضویہ اصلاح المسلمین بھمرپورہ  میں داخل کردیا ۔ یہاں ایک سال رہ کر  حضرت علامہ داود حسین مصباحی  صاحب قبلہ قاضی ضلع مہوتری  و خلیفہ حضور فخر نیپال کے زیر نگرانی گلستاں ، بوستاں، اور میزان و منشعب وغیرہ کتابیں پڑھیں۔ 2001ء میں مولانا رحمت اللہ صاحب نے جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی میں جماعت ثانیہ میں داخلہ کروایا۔ جامعہ امجدیہ میں رہ کر مولویت کی تکمیل کے بعد عالمیت اور فضیلت کے لیے 2005ء میں ازہر ہند جامعہ اشرفیہ مبارک پور گیے اور تین سالوں تک ماہر اساتذہ کرام سے اکتساب فیض فرمانے کے بعد 2007ء میں عرس عزیزی کے پربہار موقع پر سند و دستار فضیلت سے سرفراز ہوئے۔

            آپ کی دلی تمنا تھی کہ  کسی سید کے ہاتھ پر شرف بیعت حاصل کروں چناں چہ 2000ء میں یہ موقع سعید ہاتھ آیا اور سید امین  برکاتی مارہروی کے دست اقدس پر بیعت  ہوکر سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ میں داخل ہوئے۔

نقوش خدمات:   فراغت کے بعد گاوں والوں کے اصرار پر اپنے ہی محلہ میں مدرسہ غوثیہ رضویہ میں درس و تدریس اور امامت و خطابت کے فرائض انجام دینے لگے۔تاحال یہیں سے درس و تدریس اور امامت و خطابت کے ذریعہ دین و سنیت کی خدمات انجام دے رہے ہیں اور ہر سال مکتب کے بچوں کو ابتدائی تعلیم دینے کے بعد اعلی تعلیم کے لیے کسی نہ کسی معیاری درس گاہ میں داخلہ کرواتے  ہیں۔

            آپ اعلی فکر کے مالک، متحرک  اور تنظیمی سوچ رکھنے والے قابل عالم دین ہیں۔ چند سال قبل گاوں کے نوجوانوں کے ساتھ مل کر ایک تنظیم "انصار المسلمین "کی بنیاد ڈالی جس کے ذریعہ اب تک کئی غریب بچیوں کی شادی کے اخراجات  میں حصہ لے چکے اور درجنوں نادار بچوں کی تعلیمی کفالت فرما رہے ہیں۔ساتھ ہی "آل نیپال سنی جمعیۃ العلما" کے نائب جنرل سکریٹری کے عہدہ کو بھی سنبھال رہے ہیں۔

گوشہ فروغ رضویات:      درس و تدریس ، امامت و خطابت  اور تنظیم و تحریک کے ذریعہ مسلک اعلی حضرت کی ترویج و اشاعت اور فروغ رضویات  میں آپ ہمہ تن مصروف عمل ہیں۔ آپ ہی کی کوششوں سے بارہویں شریف کے موقع سے آپ کے گاوں  ادھیان پور غوث نگر میں  جلوس   محمدی کا آغاز ہوا ۔ مسلک اعلی حضرت کی ترویج و اشاعت آپ کی تنظیم انصار المسلمین کا اولین مقصد ہے۔ غوثیہ رضویہ جامع مسجد غوث نگر ادھیان پور کی تعمیر آپ کے فروغ رضویات کی ایک اہم کڑی ہے۔ مدرسہ غوثیہ رضویہ  کے مین گیٹ کا بھی نام آپ نے "باب رضا" رکھا ہے۔

            باصلاحیت عالم دین ہونے کے ساتھ آپ ایک عمدہ  خطیب بھی ہیں۔ متانت و سنجیدگی کے ساتھ علمی و اصلاحی تقریر  فرماتے ہیں۔ اپنی تقریر و خطابت کے ذریعہ مسلک اعلی حضرت کی ترویج اور فروغ رضویات میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

حضرت مولانا محمد ہدایت اللہ   رضوی  عطاری صاحب قبلہ لوہار پٹی

تنویر حیات:       مولانا محمد ہدایت اللہ رضوی عطاری ابن مولوی حبیب الرحمن 12ستمبر 1986ء  کو جمعہ کے دن  لوہارپٹی ضلع مہوتری میں  ایک شریف متمول خاندان میں پیدا ہوئے۔ گاوں کے مکتب میں ناظرہ اور ابتدائی اردو فارسی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد درس نظامیہ کے لیے علاقہ کا معیاری  ادارہ الجامعۃ الرضویہ اصلاح المسلمین بھمرپورہ میں داخلہ لیے اور محنت و لگن اور دلچسپی کے ساتھ درجہ خامسہ تک ماہر اساتذہ کرام سے تعلیم حاصل کیے۔ بعدہ مدرسہ حنفیہ برکاتیہ جانکی نگر جنک پور آگیے اور یہیں سے  اپنی باقی ماندہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد 2009ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔

            امیر دعوت اسلامی ابو البلال علامہ الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ سے آپ کو شرف بیعت حاصل ہے۔

نقوش خدمات:   درسیات سے آپ کو غایت  درجہ دلچسپی ہے۔بایں وجہ  فراغت کے فورا  بعد اپنے مادر علمی مدرسہ حنفیہ برکاتیہ  جانکی نگر جنک پور میں درس و تدریس کی خدمات انجام  دینے لگے  لیکن گھریلو ذمہ داریوں کی بنا پر آپ کو وہاں سے مستعفی ہونا پڑا۔  مدرسہ حنفیہ برکاتیہ سے مستعفی  ہونے کے بعد کسب معاش کے لیے خلیجی ملک قطر چلے گیے۔  فی الحال دیار غیر میں ذاتی مصروفیات سے وقت بچا کر  دین و مذہب اور مسلک و ملت کی خدمات  کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔قائد اہل سنت امین شریعت نیپال حضرت علامہ الحاج الشاہ مفتی محمد اسرائیل رضوی مصباحی المعروف بہ حضور فخر نیپال دامت برکاتہم العالیہ کے زیر سرپرستی چلنے والی متحرک و فعال تنظیم "فخر ملت فاونڈیشن" سے بھی آپ منسلک ہیں اور جان  و مال سے دین و سنیت کی خدمات میں اہم رول ادا کر رہے ہیں۔

            آپ قطب نیپال حضور زاہد ملت کے بہت بڑے دیوانے ہیں۔  حضور زاہد ملت کے  حاسدین و مخالفین میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ بالمشافہ یا سوشل میڈیا پر آپ سےاس موضوع پر بحث کر سکے۔ اگر کسی سے انجانے میں ایسی بھول ہو جائے  تو انھیں خائب و خاسر ہونا پڑتا ہے۔اسی لیے احباب آپ کو شمشیر زاہدی  کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔

گوشہ فروغ رضویات:      اپنی تقریر و خطابت سے افکار رضا کی ترویج و اشاعت میں  ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ رضویات کے فروغ کی خاطر آپ نے اپنے گاوں کے مکتب کا نام " مدرسہ فیضان رضا" اور اپنی دادی کے ایصال ثواب کے لیے وقف عید گاہ  کا نام "رضوی عید گاہ" رکھا ہے۔فی الحال  اپنے محلہ کا نام سرکاری دفاتر میں " رضوی محلہ" رکھنے کی کوشش جاری ہے۔ یہ سب سرکار اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی کی ذات با برکات سے غایت درجہ عقیدت کی دلیل اور مسلک اعلی حضرت کی ترویج و اشاعت اور فروغ رضویات کے جذبہ صادق کا نتیجہ ہے۔

راقم عبد الرحیم ثمر مصباحی پرڑیا ضلع مہوتری

تعارف:                     فقیر کا نام: عبد الرحیم ، قلمی نام: ثمرؔ مصباحی ، تعلیمی نسبت : مصباحیؔ، والد ماجد کا نام: محمد امیر الدین راعین  ابن محمد  دل جان راعین  ہے۔ ناچیز کی  پیدائش ۵/جمادی الاول ١٤۰۹ھ؁ مطابق ۱۵/ دسمبر ١٩٨۸؁ءبروز جمعرات موضع پرڑیا ضلع مہوتری، نیپال میں ہوئی۔  تعلیمی سلسلہ گاؤں کے مکتب سے شروع ہوا  اورمدرسہ اسلامیہ  بیت العلوم خالص پور ادری مئو اورطیبۃ العلما جامعہ امجدیہ رضویہ، گھوسی ہوتے ہوئے الجامعۃ الاشرفیہ، مبارک پور، اعظم گڑھ، یوپی میں۲۰۰۹ ء میں  تکمیل فضیلت پر جا کر ختم ہوا ۔ الجامعۃ الاشرفیہ میں رہتے ہوئے قومی کونسل براے فروغ اردو زبان سے کمپیوٹر اور اردو میں ڈپلوما کا کورس مکمل کیا۔ پھر 2011ء  میں Shree Higher Secondary School سیتا پور بھنگہا مہوتری نیپال سے SLC پاس کیا۔

فراغت کے بعد دو سالوں تک  دار العلوم نوری برکاتی نزد ریلوے اسٹیشن جنک پور نیپال میں اور تقریبا چار سالوں تک جامعہ صوت الرضا پرڑیا میں درس و تدریس کا کام کرچکا ہے۔ فی الحال فقیر  مجاہد تحریک آزادی علامہ فضل حق خیرآبادی کے دیار جزائر انڈمان نیکوبار المعروف بہ کالا پانی میں حنفی دار الافتا و القضا اور مدرسہ عین الھدی کی ذمہ داریوں کو سنبھال رہا ہے۔

ناچیز تحریر و قلم سے بھی قدرے دلچسپی رکھتا ہے۔ اب تک درج ذیل کتابوں کا کام کر چکا ہے، جن میں چار مطبوعہ، دو غیر مطبوعہ اور چار زیر ترتیب ہیں:

1.    ضیاے اربعین، مطبوعہ 

2.    احقاق حق و ابطال باطل، مطبوعہ، ترتیب و تخریج

3.    ہندی ترجمہ ، استعانت اسلام اور سائنس کی نظر میں، مطبوعہ

4.    رضوی پریوار کا پریچے ہندی، مطبوعہ

5.    اسلام کا پریچے ہندی ، ۶۰۰ صفحات غیر مطبوعہ

6.    حیات حضور فخر نیپال ، زیر ترتیب

7.    مصباح المتعلمین، زیر طبع

8.    مفید الخطبا ، زیر ترتیب

9.    اسلامی تاریخ میں آج کا دن، زیر ترتیب

10.                       تذکرہ علماے اہل سنت نیپال، زیر ترتیب

گوشہ فروغ رضویات:      رضویات کی ترویج و اشاعت اور فروغ میں راقم نےدرج ذیل ذرائع سے  حصہ لینے کی سعادت پائی ہے۔

فروغ رضویات بذریعہ تقریر و خطابت:        یوں تو ناچیز کی اکثر و بیشتر تقریر کا محور سرکار رضا کی ذات ستودہ صفات ہوا کرتی ہے لیکن جب  سےانڈمان نیکوبار آنا ہوا ہے یہی کوشش رہتی ہے کہ کسی نہ کسی زاویہ سے سرکار اعلی حضرت کا تذکرہ ضرور کروں  کیوں کہ کالا پانی کی سزا کے لیے مشہور انگریزوں کی دریافت نو آباد خطہ  اَنڈَمان نیکوبارپانچ سو سے زائد جزائر پر مشتمل ہندوستان کی خشکی سے تقریبا بارہ سو کیلو میٹر دور واقع ایک ایسا صوبہ ہے جہاں زیادہ تر قیدیوں کی اولادیں آباد ہیں۔پانچ لاکھ کی کل آبادی میں مسلمانوں کا تناسب تقریبا ایک لاکھ کی آبادی کے ساتھ ۲۰ فیصد ہے اورسلطان العلما شیخ ابو بکر مسلیار کے معتقدین کی کوششوں سے یہاں زیادہ تر اہل سنت و جماعت سے منسلک مسلمان ہیں لیکن سرکار اعلی حضرت کی ذات با برکات سے بہت زیادہ متعارف نہیں ہیں جس کی اہم وجہ کسی بھی سنی حنفی عالم کی عدم موجودگی تھی مگر اب الحمد للہ مرکز الثقافۃ السنیہ کے زیر سرپرستی  ناچیز کی  کوششوں سے لوگ دھیرے دھیرے سرکار اعلی حضرت کی ذات سے متعارف ہو رہے ہیں۔اسی لیے فقیر اپنی  تقریر و خطابت میں زیادہ سے زیادہ سرکار اعلی حضرت کی ذات بابرکات، اوصاف و کمالات اور خدمات پر روشنی ڈالنے اور چھوٹی بڑی محفلوں میں موضع سخن بنانے کی کوشش کرتا ہے۔

فروغ رضویات بذریعہ عرس رضوی:       سال 2015ء سے پہلے انڈمان کی تاریخ میں کبھی بھی عرس رضوی یا سرکار رضا کے نام سے کسی بھی پروگرام کا انعقاد نہیں ہوا لیکن 2015ء میں ناچیز کی کوششوں سے  عرس رضوی کے موقع سے مرکز کے زیر اہتمام  مختلف جگہوں پر  عرس اعلی حضرت کا انعقاد ہوا  اور مجاہد تحریک آزادی علامہ فضل حق خیرآبادی کی آخری آرام گاہ تک اعلی حضرت کے نام سے ریلی نکالی گئی۔تب سے لے کر آج تک لوگ عرس رضوی  اور ولادت رضا کے موقع سے کچھ نہ کچھ پروگرام  ضرور منعقد کرتے ہیں اور الحمد للہ اس رضا صدی کو بڑے ہی دھوم دھام سے منانے کی تیاریاں چل رہی ہیں۔

  فروغ رضویات بذریعہ تقسیم کنز الایمان:      عام طور انڈمان کے اہل سنت غیروں کا ترجمہ قرآن پڑھا کرتے تھے فقیر نے  یہاں کے لوگوں کو بدعقیدوں کے ترجمہ قرآن پڑھنے کے نقصانات اور سرکار اعلی حضرت کے ترجمہ قرآن کنز الایمان کی خوبیاں بیان فرمائی اور پھر کنز الایمان ہندی اور اردو تقسیم کروائی ۔ اب تک درجنوں کنز الایمان ہندی ، اردو یہاں کی مسجدوں اور لوگوں کے گھروں تک پہونچ چکا ہے  اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔

فروغ رضویات بذریعہ رد و مباحثہ: 2015ء میں عرس رضوی منعقد ہونے کے بعد  جا بجا سر کار اعلی حضرت کا تذکرہ ہونے لگا،  محافل میں قیام اور سلام رضا " مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام"  کی صدا گونجنے لگی۔ یہ سب دیکھ بد عقیدہ مولویوں کو ناگوار گزرا کہ ہماری پچاس سالہ محنت برباد ہونے والی ہے اس لیے وہ ناچیز کو تنگ کرنے لگے لیکن سلطان العلما شیخ ابو بکر دامت برکاتہم العالیہ کے معتقدین نے قدم بقدم ساتھ نبھایا اور وہ لوگ خاموش ہوئے۔ اس بیچ ان مولویوں اور ان کے ہمنواوں سے بالمشافہ یا بذریعہ ٹیلوفون کئی مباحثے ہوئے جن میں فقیر  نے سرکار حافظ ملت اور سرکار اعلی حضرت  کے فیضان کرم سے دنداں  شکن جواب دے کر احقاق حق اور ابطال باطل کیا۔آج تک یہ رد و ابطال  کا سلسلہ جاری ہے اور ہمہ وقت فقیر  کو ان سے بحث و مباحثہ یا مذبذب قسم کے لوگوں کی افہام و تفہیم کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے۔

فروغ رضویات بذریعہ تحریر و قلم :   قیام جامعہ صوت الرضا پرڑیا ضلع مہوتری کے دوران 2012ء  میں راقم  نے ایک ہفت  روزہ جداریہ بنام "صوت الرضا ہندی اردو " کا اجرا کیا تھا جو مزارات اولیا روضہ شریف ضلع مہوتری پر لگایا جاتا تھا  جس کی تمام تر ذمہ داریاں فقیر  کے سرتھی ۔ اس میں مزارات سے متعلق سرکار اعلی حضرت علیہ الرحمہ کے ارشادات و فرمودات اور فتاوی جات کو شائع کیا جاتا تھا لیکن کسی وجہ سے چند ماہ سے زیادہ یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔

2016 ء میں انڈمان میں عرس رضوی کے موقع سے ایک پمفلٹ بنام "کون اعلی حضرت ؟"ہندی اردو  زبان میں مفت تقسیم ہوا جس میں سرکار اعلی حضرت کی حیات و خدمات  پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ یہ بھی ناچیز ہی کی محنت و کوشش تھی۔

اس رضا صدی میں عرس صد سالہ کے حسین موقع سے  لوگ اپنے اپنے انداز میں سرکار رضا کی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔ راقم اپنی ہندی کتاب "رضوی پریوار کا پریچے" کے ذریعہ سرکار اعلی حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی کی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔

گر قبول افتد زہے عز و شرف

 

ابو العارف عبد الرحیم ثمر مصباحی پرڑیاوی

خادم حنفی دار الافتا والقضا و صدر المدرسین مدرسہ عین الھدی

دِلانی پور ، پورٹ بلیئر ، جزائر اَنڈَمان نیکوبار )کالا پانی(

ایک تبصرہ شائع کریں

5 تبصرے

Emoji
(y)
:)
:(
hihi
:-)
:D
=D
:-d
;(
;-(
@-)
:P
:o
:>)
(o)
:p
(p)
:-s
(m)
8-)
:-t
:-b
b-(
:-#
=p~
x-)
(k)