نیپال کے علماے اہل سنت و جماعت کی بارگاہ میں ایک عریضہ

 


نیپال کے علماے اہل سنت و جماعت کی بارگاہ میں ایک عریضہ

مولانا غیاث الدین احمد عارف مصباحی نظامی

ہمالہ کے دامن میں بسا ہوا یہ ملک نیپال 56827/مربع میل پرپھیلا ہوا ہے اس کا شمالی سرحد چین اور باقی اطراف ہندوستان سےگِھرا ہوا ہے یہ اگرچہ چھوٹا ہے لیکن اپنی رنگ برنگی تہذیب اور

مخلوط تمدن کی وجہ سے دنیابھر میں مشہور ہے ، ایک زمانے تک یہ ملک " ہندو راشٹر" کی حیثیت سے جانا جاتا رہا لیکن گزشتہ دنوں(28/مئی 2008کو)اِسے جمہوری ملک قرار دے دیا گیا۔

 یوں تو پہلے بھی یہاں مسلمانوں کو تقریباً ہر طرح کی مذہبی آزادی حاصل تھی اور کچھ معمولی واقعات کو چھوڑ کر کبھی بھی اہل اسلام کو یہاں اپنے مذہب کے مطابق عمل کرنے میں کسی رخنہ اندازی کا سامنا نہیں کرنا پڑا البتہ ملکی پیمانہ پر انھیں کوئی اہم مقام حاصل نہ ہو

سکا ،کسی بھی سرکاری ملازمت یا سیاست میں ان کا حصہ صفر کے برابر رہا ،شاہی دور حکومت میں ایک دو مسلمانوں کو سیاسی نمائندگی دی

جاتی رہی لیکن انھوں نے اپنی قوم کے لیے کوئی خاطر خواہ کارنامہ انجام نہیں دیا،اب جب کہ ملک جمہوریت کی راہ پر چل پڑا ہے اور ہر قوم کے افراد اپنا حق مانگ رہے ہیں ایسے وقت میں بھی مسلمانوں نے کوئی خاص بیداری نہیں دکھائی اس لیے انھیں اس انقلاب کےموقع پر بھی امید کے مطابق فائدہ نہیں حاصل ہوا،جو ملا بھی اس کی حیثیت "ایک جانور کو روٹی کا ٹکڑا دیے جانے سے زیادہ نہیں ہے۔

سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اس ملک کی کل آبادی تقریباً28901790 ہے جس میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 4،فیصد ہے ان میں مسلمانوں کا تقریبا 90 فیصد حصہ ترائی علاقے میں اور بقیہ 10 فیصد مختلف پہاڑی علاقوں میں بسا ہوا ہے جب کہ پہاڑی علاقے کا 5/فیصد مسلمان صرف کٹھمنڈو میں بسا ہوا ہے ۔

یہاں مسلمانوں کی آمدنی کا عام ذریعہ زراعت اور کھیتی ہے۔اس کے علاوہ چھوٹی موٹی تجارت اور غیر ملکی ملازمت ان کی روزی روٹی کا ذریعہ ہے .عموی طور پور اقتصادی حالت بہت کمزور ہے۔

مسلمان یہاں کب اور کیسے آئے اس کا کوئی حتمی قول تو نہیں کیا جاسکتا ، البتہ ایک اندازے کے مطابق تقریبا چودہویں صدی میں یہاں اسلام کی آمد ہوچکی تھی اور کٹھمنڈو میں شاہی محل کے بالکل سامنے حضرت سید غياث الدين شاه کشمیری رحمة الله تعالی علیہ کے مزار کے وجود مسعود سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہاں پر اسلام کی اولین ترويج واشاعت میں صوفیہ کرام کا خاص رول رہا ہے۔

جغرافیائی اعتبار سےاگر مسلمانوں کے بسنے کے انداز پر قیاس لگایا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں

مسلمانوں کی آمد تين راستوں سے ہوئی۔ (1)جنوبی۔ شمال بند سے ۔

(2) غربی- یعنی کشمیر کے راستے سے۔

 (5)شمالی- تبت کی جانب سے۔

اس طرح اس ملک میں تین ثقافت کے مسلمان مِلتے ہیں ۔زبان و تہذیب اور رہن سہن کے اختلاف کے باوجود مذہبی معاملات تقریباً یکساں ہیں۔چونکہ یہاں کا اسلام بھی بر صغیر کے دیگر

ممالک کی طرح صوفیہ کرام کی کاوشوں کا نتیجہ ہے اس لیے ان کے ہر رنگ میں صوفیہ کرام کا جلوہ نظر آتا ہے ، مگر اِدهر گزشتہ کچھ 50 سالوں سے بد عقیدوں نے اپنی جال بچھانا شروع کر دیا ہے، بھولے بھالے سنی مسلمانوں کو گمراہ کرنے اور اہل سنت وجماعت سے برگشتہ کرنے پر جی جان سے لگ گئے ہیں ۔ چونکہ ان کے پاس ریال کی بے پناہ دولت ہے اس لیے صوفی افکار کے حاملین ان کے سامنے کمزور پڑجاتے ہیں،وہ غریب مسلمانوں کی آبادیوں میں مسجد،مدرسہ بنانے کےبہانے قبضہ کرتے ہیں ، ان کی بچیوں کی شادی کرانے اور ان کاتعاون کرنے کے سبز باغ دِکھا کر اُن کے دلوں کو اپنی طرف مائل کرتے ہیں اور پھر دھیرے دھیرے اُنهیں اپنے دام فریب میں پھنساکر اپنا ہمنوا بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

اس لیے یہ بات مُسلّم ہونے کے باوجود کہ اہل سنت وجماعت کے پاس وسائل کم ہیں انھیں اس خطرناک صورت حال کے تدارک کے لیے آگے آنا ہی ہوگا اور خارجیت اور بدمذہبیت(اور کچھ علاقوں میں قادیانیت) کے فتنے کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی، نئی نسل کو بتانا ہوگا کہ اہل سنت وجماعت اور بد عقیدوں کےعقائد میں فرق کیا ہے؟ اور ان سے اختلاف کا سبب کیا ہے ؟  اسلام کے سچے عقیدے کو ہر ہر گھر تک پہنچانا ہوگا اور اگر ایسا نہیں کرسکتے تو رب قدیر کے روبرو جواب دینے کے لیے تیار رہیں۔

کچھ مشورے

اس سلسلے میں ہم اپنے ناقص فہم کے مطابق آپ کے سامنےکُچھ مشورے پیش کرتے ہیں اگر یہ بہتر ہوں تو ان پر عمل درآمد کی تدبیر بتائیں اور اگر مناسب نہیں ہیں تو اپنے بہتر مشورے سےشرفیاب فرمائیں ۔

اہل سنت و جماعت کے افراد کے لیے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ مُلک نیپال میں ترائی سے لے پہاڑ کے تمام علاقوں میں پھیلے ہوئے مدارسِ اہل سنت وجماعت کو ایک لڑی میں پرونے کی کوشش کریں۔اُن کا نصاب تعلیم ایک ہو ۔اُن کا نظام یکساں ہو ۔ اس کے لیے ملکی پیمانے پر راجدھانی کٹھمنڈو میں ایک سیمینار کا انعقاد ہو جہاں ہرعلاقے کے علما ودانشوران اکٹھا ہو کر اس کے لیے کوئی بہتر لایحه عمل طے کریں ۔

آپ سب جانتے کہ ملک نیپال میں بسنے والے اکثر مسلمانوں کی اقتصادی حالت ناگفتہ بہ ہے أن میں خاص کر اہل سنت وجماعت سے تعلق رکھنے والے مسلمان اور بھی کمزور ہیں۔اسی کمزوری کاسبب  ہےکہ ان کے مدرسے اور ان کی مساجدکی اقتصادی حالت بھی قابل رحم ہے جب کہ وہیں دوسروں کے ادارے عرب ممالک کے ریال سے مالا مال ہیں ۔ اس لیے  اپنے اداروں کا دِل کھول کر تعاون کریں ، ان شاء اللہ ریالوں سے کہیں زیادہ غریب سنی مسلمانوں کے تعاون سے برکت پیدا ہوگی اور ترقی کے راستے ہموار ہونے کی غیب سے صورت نکل آئے گی ۔

گاؤں کے چھوٹے چھوٹے مکاتب کے ساتھ ساتھ علاقے میں ضلعی سطح پرکم از کم ایک ادارے کو اتنا مضبوط رکھیں کہ وہ باطل کا مقابلہ کرسکے اس کے لئے پورے ضلع کے افراد اتفاق رائے سے کسی ایسے ادارے کا انتخاب کریں جس کے پاس مناسب زمین ہو جہاں کم از کم درجہ دہم تک کی تعلیم دی جاسکتی ہو، وہاں ضلع بھر کے افراد مِل کر قابل علما اور بہترین عصری اساتذہ کا انتظام کریں اور اسے اپنا ضلعی مرکز تسلیم کریں۔

باطل عقائد کے حاملین کی طرف سے اہل سنت و جماعت پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ان کی جماعت ایک نئی جماعت ہے جس کا نام "بریلوی جماعت یافرقہ " ہے ۔ علمائے اہل سنت کی ذمہ داری ہے کہ عوام اہل سنت کے ساتھ ساتھ سبھی اسلام کے دعوے داروں پر اس کی حقیقت اور پس منظر وپیش منظر واضح کریں اورسمجھائیں کہ ہمِیں حقیقت میں اہل سنت وجماعت ہیں جس کے حق ہونے کی شہادت احادیث مبارکہ میں موجود ہے ۔

مسلک اعلیٰ حضرت یعنی مسلک امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ترویج و اشاعت کے لئے مندرجہ ذیل کام عمل میں لائیں :


اپنے اداروں کو مضبوط کریں

 اپنا عقیدَہِ حق لوگوں تک پہنچانے کے لئے ملکی زبان یا اپنی علاقائی زبان میں چهوٹے چهوٹے رسالے عوام میں مفت یا معمولی قیمت میں تقسیم کریں تاکہ انهیں پتہ چلے کہ ہمارا ہی عقیده قرآن وسنت کا عقیدہ ہے ۔

 حتی الامکان بڑے اور خرچیلے جلسوں سے احتراز کریں اور اپنے اپنے علاقوں میں چھوٹے چھوٹے پروگراموں کا انعقاد کریں جس میں اپنا صحیح عقیده قرآن وحدیث کی روشنی میں بتانے کی کوشش کریں ۔ آج بد عقیده جماعت کا حال یہ ہے کہ وہ کروڑوں روپیے صرف کرکے اپنا غیر اسلامی عقیده گهر گهر مفت پہنچا رہے ہیں اور آپ خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں ۔یاد رہے کہ ابھی تو عوامی سطح پر اہل سنت و جماعت کی یہاں اکثریت ہے لیکن اگرآپ سوتے رہے تو ایک دن اقليت میں آجائیں گے اورپھر اپنی بات کہتے ہوئے بھی خوف محسوس ہوگا۔

ملک نیپال میں ایک ملکی تنظیم وتحریک کی سخت ضرورت تھی جس خلاء کو "راسٹریہ علما کونسل آف نیپال "نے بھرنے کی کوشش شروع کی ہے جو اگرچہ ابھی اپنے ابتدائی مرحلے میں ہے لیکن اس سے اہل سنت وجماعت میں روشنی کی ایک امید جگی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ علمائے نیپال مِل جُل کر اسے کہاں تک کامیاب کرسکتے ہیں ۔

یہ چند مشورے تھے جسے ہم نے آپ کے گوش گزار کرنے کی جرآت کی ہے مگر یہ تمام تر فارمولے اسی وقت بروئے کار لائے جاسکتے ہیں جب اہل سنت وجماعت کے علما متحد ہوں اور مل جل کر کام کرنے کاجذبہ پیدا کریں ،کوئی بھی کام اپنے لیے نہیں قوم کے لیےکریں ، قوم ہوگی تو ہم ہوں گے ۔

ایک بات اور گانٹھ لیں کہ یہ وقت اشتہار سے کہیں زیادہ کام کا ہے جب آپ کام کریں گے تو اشتہار کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی اس لیے شہرت پسندی سے کنارہ کشی اختیار کرکے صرف اور صرف کام پسندی کا رجحان پیدا کریں۔

الله رب العزت اپنے حبیب پاک صاحب لولاک کے طفیل علمائے اہل سنت و جماعت کو متحد ہوکر کام کرنے کا جذبہِ صادق نصیب فرمائے ۔ آمین یارب العلمين بحرمۃ سیدالابرار والمرسلین ۔


ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

Emoji
(y)
:)
:(
hihi
:-)
:D
=D
:-d
;(
;-(
@-)
:P
:o
:>)
(o)
:p
(p)
:-s
(m)
8-)
:-t
:-b
b-(
:-#
=p~
x-)
(k)