غربت کی دردناک تصویریں

 


غُربت کی دردناک تصویریں 

آج فیس بُک پر کسی کے ذریعہ شیئر کی گئی دو تصویروں پر نظر پڑگئی جِس میں پہلی تصویر کی کیفیت یہ تھی کہ ایک شخص نالی پر پڑا کھانا کھا کر اپنے پیٹ کی آگ بُجھا رہا ہے تو دوسری تصویر میں ایک شخص کو کُدال میں کھانا پَرُوسا گیا ہے اور وہ اس سے اپنے شکم کی بھوک مٹا رہا ہے۔ شاید آپ نے بھی یہ دردناک منظر دیکھ کر میری طرح بے انتہا کَرْب کا احساس کیا ہو ۔
مگر کیا کریں غُربت ایسی آزمائش ہے ہی جو انسان سے تصور سے پَرے اعمال و افعال کرالیتی ہے اسی لئے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا :
كَادَ الفَقْرُ أَنْ يَكُونَ كُفْرَاً(أَخْرَجَہ أَبُو نُعَيْمِ في الحِلْيَةِ ) "قریب ہے کہ فَقر(غُربت)انسان کو کفر میں مبتلا کردے"۔
لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس مُلک میں اَناج کے بھنڈار رَکھے رَکھے سَڑ جاتے ہوں، جِسے "کِرسی پردھان " دیش کہا جاتا ہو،جہاں کھانے کی اشیاء وافَر مقدار میں کُوڑے دان اور نالیوں میں پڑی ملتی ہوں،اگر وہاں ہماری آنکھوں کو ایسی کربناک تصویریں دیکھنے کی نوبت آتی ہیں تو یہ چُلّو بھر پانی میں ڈوب مَرنے کا مقام ہے ۔

دونوں تصاویر کا تجزیہ 
پہلی تصویر:جِس میں بُھوک کا مارا شخص نالی پر پڑا کھانا کھا رہا ہے اُس کی اپنی مرضی ہے، بھوک غالب آجانے پر بُھوکا صرف کھانا دیکھتا ہے، کھانا کہاں رکھا گیا ہے اِس سے اُسے کوئی مطلب نہیں ہوتا،اُسے بس اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کی فکر لاحق ہوتی ہے۔ایک کہاوت بہت مشہور ہے :
پریت نہ جانے جات کُجات-
نیند نہ جانے ٹوٹی کھاٹ۔ 
بُھوک نہ جانے باسی بھات۔ 
پیاس نہ جانے دھوبی گھاٹ
اگرچہ یہ منظر بھی ایک مہذب سماج کے لئے بہت تکلیف دہ ہے،مگر اِس سے کہیں زیادہ رنجیدہ کردینے والی دوسری تصویر ہے جس میں ایک غُربت کا مارا کُدال پر پَروسا گیا کھانا کھا رہا ہے، کیوں کہ اسے دیکھ کر یہ بات واضح ہے کہ اُس بُھوکے شخص نے کسی سے کھانا مانگا ہوگا، بے غیرت نے کھانا تو دے دیا مگر اُس نے اپنی اوقات اور انسان کی عظمت کو بُھلا دیا، ایک انسان جسے اللہ رب العزت نے اشرف المخلوقات بنایا ہے اُس کی یہ ذلت ورسوائی دیکھ کر کلیجہ مُنھ کو آتا ہے ۔

آخر اِس کا حل کیا ہے؟ ۔
آج غُربت کسی ایک مُلک کا مسئلہ نہیں ہے بل کہ اس نے عالمگیر صورت اختیار کرلی ہے۔اور اس پر بَند باندھنے کا دستور صرف اور صرف اسلام میں موجود ہے اور وہ ہے "زکاۃ" جس کا وجود ہی غریبوں کی امداد و اعانت کے لئے ہے۔کیوں کہ اسلام دینِ فطرت ہے اور یہ کسی صورت میں بھی انسانیت کی تذلیل و تحقیر برداشت نہیں کرتا۔
 یہی وجہ ہے کہ قرآن و حدیث میں کثرت سے "انفاق فی سبیل اللہ " کا حکم دیا گیا ہے۔ مگر ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو کما حقہ اس پر عمل کرتے ہیں ۔ پانچ فیصد بھی کہوں تو شاید زیادہ ہوجائے ۔
اِس کے ساتھ ہی اسلام کا ایک حُسن یہ بھی ہے کہ اُس نے جہاں "راہ خدا میں خرچ کرنے" والوں کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے وہیں بلا ضرورت اور بغیر مجبوری مانگنے والوں کی حوصلہ شکنی بھی کی ہے،اسلام نے کبھی بھی گداگری کو پسند نہیں کیا ہے بل کہ کسبِ حلال پر زور دیا ہے۔
سنن ابن ماجہ شریف کی ایک طویل حدیث پاک کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں :
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک انصاری مرد نبی (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سوال کیا۔ آپﷺ نے فرمایا تمہارے گھر میں کچھ ہے ؟ عرض کیا ایک کمبل ہے ۔ کچھ بِچھالیتے ہیں اور کچھ اوڑھ لیتے ہیں اور پانی پینے کا پیالہ ہے ۔ فرمایا دونوں لے آؤ۔ وہ دونوں چیزیں لے آئے ۔ رسول اللہﷺ نے دونوں چیزیں اپنے ہاتھوں میں لیں اور فرمایا یہ دو چیزیں کون خریدے گا؟ ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ میں دونوں چیزیں ایک درہم میں لیتا ہوں۔ آپﷺ نے دو تین مرتبہ فرمایا کہ ایک درہم سے زائد کون لے گا؟ ایک مرد نے عرض کیا میں دو درہم میں لیتا ہوں تو آپﷺ نے دونوں درہم انصاری کو دئیے اور فرمایا ایک درہم سے کھاناخرید کر گھر دو اور دوسرے سے کلہاڑی خرید کر میرے پاس لے آؤ انھوں نے ایسا ہی کیا۔
رسول اللہ ﷺ نے کلہاڑی لیا اور اپنے دست مبارک سے اس میں دستہ لگایا اور فرمایا ،جاؤ ،لکڑیاں اکٹھی کرو اور پندرہ یوم تک کام کرنا ، وہ شخص لکڑیاں چیرتے اور بیچتے رہے پھر وہ حاضر ہوئے تو ان کے پاس دس درہم تھے ۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا کچھ کا کھانا خرید لو اور کچھ سے کپڑا۔ پھر فرمایا کہ خود کمانا تمہارے لئے بہتر ہے ، بہ نسبت اس کے کہ تم قیامت کے روز ایسی حالت میں حاضر ہو کہ مانگنے کا داغ تمہارے چہرے پر ہو۔ مانگنا درست نہیں سوائے اس کے کہ جو انتہائی محتاج ہو یا سخت مقروض ہو یا خون میں گرفتار ہو ۔ جب آپ ﷺ سے کسب کے بارے میں دریافت کیا گیا کہ کون سا کسب /کاروبار اچھا اور اعلیٰ ہے تو اس پر آپ ﷺ نے ہاتھ سے کام کرنے کو ہی افضل قرار دیا:(سنن ابن ماجہ2198)
یہاں تک کہ اللہ رب العزت نے حج جیسے اہم اور مقدس فریضے کی ادائیگی کے موقع پر بھی تجارت کی اجازت عطا فرمادی ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
لَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ اَنۡ تَبۡتَغُوۡا فَضۡلًا مِّنۡ رَّبِّکُمۡ۔
تم پر کچھ گناہ نہیں کہ(ایامِ حج میں) اپنے رب کا فضل(رزق)تلاش کرو.(سورة البقرة -198)
یہ دو مثالیں محض ایک نمونہ ہیں ورنہ احادیث کریمہ میں درجنوں ایسے مقامات ہیں جہاں کسی پریشان حال، مجبور و بے بس کی امداد و اعانت کرنے والے کی تعریف و توصیف کی گئی ہے تو وہیں گداگری اور سوال کرنے کو ناپسندیدگی کی نظر سےدیکھا گیا ہے ۔
 
کیا حکومتیں غُربت ختم کرسکتی ہیں؟ 

اس میں کوئی شک نہیں کہ غُربت آج ایک عالمگیر مسئلہ بن چکی ہے۔بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف ہندوستان میں ابھی بھی 31 کروڑ سےزائد لوگ خط افلاس سے نیچے کی زندگی گزاررہے ہیں۔ جب کہ ہر الیکشن میں سیاسی پارٹیاں اپنے منشور کے ذریعہ یہ باور کرانے کی کوشش کرتی ہیں کہ وہ غُربت کا خاتمہ کریں گی لیکن جب انھیں مسندِ اقتدار مِل جاتا ہے تو وہ اپنے کیے وعدے کو ٹھنڈے بستے میں ڈال کر غریبوں کو مزید غریب بنانے کے لئے کمربستہ ہوجاتی ہیں پَس یہ سوال کہ حکومتیں غُربت ختم کرسکتی ہیں یا نہیں تو اُس کا جواب بہت صاف ہے کہ اگر واقعی ایمان داری سے ختم کرنا چاہیں تو کرسکتی ہیں مگر ان سے ایمان داری کی امید کرنا "ہتھیلی پر سرسُوں جمانے"کے مترادف ہے ۔
حاصل یہ ہے کہ غُربت کے سیاہ دائرے سے باہر آنے کے لئے آپ کو خود کوشش کرنی ہوگی، اللہ رب العزت نے ہاتھ،پیر سلامت رکھے ہیں تو اُس کا شُکر ادا کریں اور کسب حلال کی کوشش کرتے رہیں۔ اس جہان میں ہر کوئی "اڈانی، امبانی" نہیں بن سکتا مگر محنت، مشقت کرکے دو وَقت کی روٹی کا انتظام تو کرسکتا ہے ۔فَاعْتَبِرُوا يَا أُوْلِي الأَبْصَارِ۔

تحریر :
غیاث الدین احمد عارف مصباحی نظامی 

خادم التدریس :
مدرسہ عربیہ سعید العلوم یکماڈپو لکشمی پور، مہراج گنج (یوپی)

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

Emoji
(y)
:)
:(
hihi
:-)
:D
=D
:-d
;(
;-(
@-)
:P
:o
:>)
(o)
:p
(p)
:-s
(m)
8-)
:-t
:-b
b-(
:-#
=p~
x-)
(k)