بابا کی جھولی میں ہر درد کی دوا ہے؟

 


بابا کی جھولی میں ہر درد کی دوا ہے؟

کچھ مہینوں پہلے کی بات ہے، ایک چاہنے والے نے مجھے دعوت پر مدعو کیا، حسب وعدہ وقت مقررہ پر میزبان محترم کے گھر پہنچا تو وہاں الگ ہی رنگ دیکھا۔ ایک " بابا جی " آسن جمائے ،دیوار کے ساتھ دو عدد مَسندوں سے ٹیک لگائے بڑی شان سے تشریف فرما تھے، میں نے آداب محفل بجالیتے ہوئے سلام کیا، سلام کا جواب دینے کے لئے ایک لمحہ کو سب کی توجہ میری طرف ضرور ہوئی مگر پھر دوسرے ہی لمحے اُن کی ساری توجہ اُنھی جلوہ فرما " بابا " کی طرف متوجہ ہوچکی تھی، میں جہاں کھڑا تھا وہیں دو چار لوگوں نے تھوڑا کِھسک کر جگہ بنادی گویا اشارے ہی اشارے میں اُنھوں نے مجھے بھی باادب بیٹھ جانے کی تلقین کی ہو۔

کوئی کچھ کہتا اس سے پہلے میں خالی جگہ کو غنیمت تصور کرتے ہوئے خاموشی سے بیٹھ گیا، ابھی کچھ ہی لمحے گزرے تھے کہ ایک صاحب جِن کا چہرہ میرے لئے ناآشنا تھا، "بابا "کے پاس سے اُٹھ کر میرے قریب آئے اور بڑی گرم جوشی سے ہاتھ مِلاتے ہوئے میرے قریب جگہ بناکر بیٹھ گئے، میں نے بھی اُن کا خیال کیا اور تھوڑا سمٹ کر بیٹھ گیا کہ آرام سے بیٹھ جائیں، موصوف کوئی وقت گنوائے بغیر مجھ سے حال چال دریافت کرنے کے بعد فوراً اپنے اصل موضوع پر آگئے، اُن کا پہلا سوال تھا :حضرت سے آپ نے پہلے کبھی ملاقات کی ہے؟ میرا جواب نفی میں پاکر موصوف نے کرامات کا پِٹارا کھولا اور باباجی کہ ایسی ایسی تعریفیں کیں کہ بس سُنتے جائیں، چوں کہ مجھے اُن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ تھا اس لیے خاموشی سے سُنتا رہا، پھر جب اُنھیں لگا کہ اُن کی بات مکمل ہوگئی ہے یا یہ کہ مجھ پر اُن کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہورہا تو وہ اُٹھے اور اپنی پُرانی جگہ(یعنی بابا جی کے قریب) جاکر بیٹھ گئے، اب میری پوری توجہ بابا جی کی طرف تھی جِن کو تین جانب سے لوگوں نے گھیر رکھا تھا، کمرہ مکمل فُل تھا ،اب اگر کوئی مزید آتا تو بڑی مشکل سے اُس کے بیٹھنے کی جگہ نکل پاتی، سامنے ایک ڈسک رکھا تھا اور اس پر زعفران کی(گُھلی ہوئی) ڈِبیہ تھی، ہاتھ میں لکڑی کا ایک قلم تھا جو کاغذ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں پر لگاتار چل رہا تھا ،کان چاہنے والوں کی طرف متوجہ تھے اور زبان بھی اپنا کام کررہی تھی یعنی :سُننا لکھنا، جواب دینا، استعمال کا طریقہ بتانا، سب کچھ ایک ساتھ چل رہا تھا ۔

وہاں موجود لوگوں کی پریشانیاں الگ الگ تھیں، کسی کا لڑکا ناکارہ تھا، کسی کی بیوی تابع دار نہیں تھی، کوئی آسیب زدہ تھا، کسی کی کمر میں درد تھا تو کسی کے گُھٹنوں میں تکلیف تھی،کوئی شوگر زدہ تھا تو کوئی دائمی مریض تھا،کوئی یوں ہی پریشان حال تھا، کوئی بے روزگار تھا، کسی کے گھر میں سکون نہیں تھا، کسی کی کمائی تھی مگر برکت نہ ہونے کی شکایت تھی، الغرض جتنے لوگ اُتنی پریشانیاں اور بابا جی کے پاس سب کا حل موجود تھا، قلم اُٹھاتے، کاغذ کے ایک ٹکڑے پر کچھ لکھ کر دےدیتے، یوں محسوس ہوتا کہ ایک لمحے میں جادُو کی چھڑی گُھمائی اور سارا مسئلہ حل کردیا ۔لوگ خوشی سے تعویذ لیتے، سلام کرتے،بابا کے قریب بیٹھا اُن کا ایک حواری آہستہ سے تعویذ لینے والوں کے کانوں میں کچھ کہتا جس کے بعد وہ جیب میں اپنا ہاتھ داخل کرتے پھر باباجی سے ہاتھ مِلاکر کچھ نذر پیش کرتے اور اُن کی طرف پیٹھ کیے بغیر کمرے سے باہر آجاتے۔

مجھے بیٹھے ہوئے تقریباً ایک گھنٹے گزر چکے تھے ،عشاء کا وقت ہورہا تھا اور شاید کھانا بھی تیار تھا اور کھلانے کی تیاری چل رہی تھی اس لیے اب دھیرے دھیرے بھیڑ ختم ہوچکی تھی ۔اب بابا جی تھے، اور میرے علاوہ دو افراد مزید، اب بابا جی نے تھوڑا سکون محسوس کیا اور انھوں نے اپنے دونوں پیر پھیلاتے ہوئے کہا :مولانا صاحب میں گھٹنوں کے درد سے بہت پریشان ہوں، کئی ڈاکٹروں کو دِکھایا مگر کوئی فائدہ محسوس نہیں ہوا۔ میں کیا کہتا جب کہ ابھی ابھی میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ جناب نے ایک صاحب کو نہ صرف گھٹنوں کے درد کی تعویذ دی تھی بل کہ اُنھیں کوئی تیل بھی لکھ کر دِیا تھا۔ اسی بیچ صاحبِ خانہ چائے لے کر آگئے، سب کو چائے پیش کی گئی مگر بابا جی کی چائے الگ تھی بغیر شَکر والی ، معلوم ہوا کہ جناب والا شوگر کے مریض ہیں، سچ مانیے میرا مَتّھا چکرا گیا کیوں کہ موصوف نے ابھی کچھ ہی دیر قبل شُوگر کی بھی تعویذ بناکر دی تھی، خیر ابھی میں دِل ہی دِل میں کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ موصوف کے موبائل کی گھنٹی بجنے لگی، کال رسیوکیا گیا تو مجھے اندازاً محسوس ہوا کہ بابا جی کی شریک حیات نے فون کیا تھا، خیر یہ ایک اندازہ تھا جو کال ختم ہونے کے بعد باباجی کے ازخود بتانے کے بعد یقین میں بدل گیا، بابا جی نے ہماری طرف مخاطب ہوکر بتایا کہ اُن کے گھر سے فون تھا اور اُن کی اہلیہ اُن کے لڑکے کی شکایت کررہی تھیں جو بقول اُن کے کرتا دھرتا کچھ نہیں صرف گھر پر پڑا، بوجھ بَنا اِن سے اُن سے جھگڑے کرتا رہتا ہے، آج بھی اُس نے کوئی بڑی شرارت کر رکھی تھی ۔اب باباجی کا چہرہ تھوڑا مُرجھا سا گیا تھا انھوں نے بتایا کہ :میں تو دوچار دِن رُکنے کا ارادہ کرکے آیا تھا لیکن اب کل ہی جانا پڑے گا، کیوں کہ اُن کے لڑکے کا معاملہ پولیس تک پہنچ چکا تھا، جناب کا موڈ بِگڑ جانے کے سبب اب محفل کا جما جمایا رنگ بدرنگ ہوچکا تھا۔

میں مناسب موقع دیکھ کر کمرے سے باہر آگیا اِدھر عشاء کی اذان ہونے لگی، مسجد گھر سے بالکل قریب تھی، میں نے سوچا کہ اب نماز ادا کرلیں کھانا بعد میں کھا لیں گے، کچھ گِنے چُنے نمازیوں کے ساتھ میں مسجد چلاگیا اور جب تک وآپس آیا تب تک باباجی کی محفل دوبارہ جم چکی تھی اور کمرہ تعویذ کے خواست گاروں سے بھر چکا تھاپر اُن میں سے کسی کی پیشانی پر اذان اور نماز کی فکر نہیں دِکھ رہی تھی ۔

 اب بہت تاخیر ہوچکی تھی، رات میں زیادہ دیر رُکنا نامناسب تھا سو میں نے جلدی سے دعوت کھاکر گَھر بھاگ لینے میں عافیت تصور کی۔۔۔۔۔اب میں گھر وآپس آگیا لیکن وآپس آنے کے بعد بھی بہت دیر تک اسی اَدھیڑ بُن میں رہا کہ آخر یہ قوم کِس راستے پر جارہی ہے ؟ یہ کِن کے چکر میں پڑ کر اپنے لیے ہر بَلا سے نجات چاہتی ہے؟ جہاں جانا چاہئے وہاں جاتی نہیں، اپنی پیشانیوں کو سجدوں سے سنوارنے کا خیال کبھی آتا نہیں، پَر باباؤں سے برکتوں کی تعویذیں بنوانے کی دِن رات ہوڑ سی لگی ہے۔ بہت سے تو ایسے اوبا(بابا) ہیں جن کی نہ شکلیں مسلمانوں سے ملتی ہیں نہ کِردار اہل ایمان سے میل کھاتے ہیں پَر عوام میں ہیں بڑے پہنچے ہوئے۔ نماز،روزے اور دِین کے دیگر معمولات سے کوئی مطلب نہیں مگر دیوانوں کی ایک لمبی قطار رکھتے ہیں۔ سو ہم مجرم کِسے گردانیں اُن کو جو بےوقوف بناتے ہیں یا اُن کو جو بے وقوف بنتے ہیں؟

میں نے اپنے ایک دوست سے اس واقعے کا ذکر کیا تو اُلٹا مجھ پر برس پڑے اور کہنے لگے کہ جب آدمی پریشان ہوتا ہے تو اُسے نہیں سوجھتا کہ کہاں جائے اور کس کے پاس اپنے دُکھ کی دوا تلاش کرے؟  بس وہ جہاں چاہتا ہے جائے ۔آپ کو کیا لینا دینا ہے؟  میں نے بڑی نرمی سے کہا: محترم!  پریشان حال ہونے کا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ کسی گڈھے میں جا کُودے، آدمی بیمار ہے تو اُسے ڈاکٹر کے پاس جانا ہی چاہیے، اس میں کوئی برائی نہیں مگر ڈاکٹر کے پاس نہ جاکر کپڑے کے تاجر کے پاس بخار کی دوا تلاش کرے تو ضرور بُرا ہے ۔۔۔بس یہی حال یہاں بھی ہے اگر واقعی تعویذات کی ضرورت آن پڑی ہے تو اُن عاملین کے پاس جائیں جو روحانی عامل ہیں، جو خود بھی باشرع ہیں اور اپنے قریب آنے والوں کو بھی باشرع بنانے کی کوشش کرتے ہیں، جو پریشان حال لوگوں سے ہزاروں روپیے اینٹھ کر مزید پریشان حال نہیں بناتے بلکہ فی سبیل اللہ کام کرتے ہیں ،کسی نے کچھ دے دیا تب بھی خوش، نہیں دیا تب بھی خوش ۔۔۔ اللہ ورسول والوں سے ہی رابطہ رکھیں اور جو اللہ ورسول کے احکامات سے دور ہیں ان سے کوسوں دور رہیں خواہ وہ کیسے ہی شعبدے دِکھاتے ہوں ۔۔۔ اسی میں عافیت اور خیر ہے۔

 

تحریر :

غیاث الدین احمد عارف مصباحی نظامی

خادم التدریس :مدرسہ عربیہ سعید العلوم یکماڈپو لکشمی پور، مہراج گنج (یوپی)


ایک تبصرہ شائع کریں

3 تبصرے

Emoji
(y)
:)
:(
hihi
:-)
:D
=D
:-d
;(
;-(
@-)
:P
:o
:>)
(o)
:p
(p)
:-s
(m)
8-)
:-t
:-b
b-(
:-#
=p~
x-)
(k)