تعویذ کی شرعی حیثیت

تعویذ کی شرعی حیثیت

مفتی محمد محبوب رضا قادری مصباحی

رضا دار الافتا بھیونڈی


 اہل سنت و جماعت اس پر متفق ہیں کہ قرآن مقدس کی آیات اور احادیث میں وارد دعاؤں پر مشتمل تعویذگلے میں ڈالنا جائز و درست ہے۔ ممانعت صرف ان تعویذات کے متعلق ہے جو شرکیہ کلمات پر مشتمل ہوں ۔ مگر افسوس ہے غیر مقلدین نام نہاد اہل حدیث پر کہ یہ لوگ تعویذ لکھنے اور گلے میں لٹکانے کومطلقا شرک کہتے ہیں اگرچہ قرآن مقدس کی آیات اوراسماے باری تعالی سے ہو ، نیزصحابی رسول حضرت عبداللہ بن عمرو کو بھی مجرم قرار دیتےہیں اور تعویذ لکھنے اور گلے میں لٹکانے کو شرک قرار دیتے ہوئے اپنے موقف کی تائید میں ایسی حدیث پیش کرتے ہیں جس کا تعلق شرکیہ کلمات پر مشتمل تعویذ کے نا جائزہونے سے ہے ، حدیث کا خود ساختہ مفہوم بیان کرکے امت مسلمہ کوگمراہ کرنا اس جماعت کا بنیادی مقصد ہے اگر ایسا نہیں تو آج بھی پوری جماعت اہل حدیث کو چیلنج ہے کہ کوئی ایسی حدیث پیش کردے جس میں یہ وضاحت ہو کہ قرآنی آیات و ماثور دعاؤں پر مشتمل تعویذبھی شرک ہے؟

میں اپنی اس تحریر میں اپنے موقف پر احادیث سے استدلال کرتے ہوئے شارحین کے چند اقوال پیش کروں گا پھر اس تعلق سے ان کے اعتراضات کے جواب انہیں کے ہم مذہب علما کی کتابوں سے پیش کرنے کی کو شش کروں گا ۔

اہل سنت کی مستدل حدیث : عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ ان رسول اللّٰہ قال اذا فزِعَ احد کم فی النوم فلیقل اعوذ بکلمات اللّٰہ التامات من غضبہ و عقابہ و من شر عبادہ و من ھمزات الشیٰطین و ان یحضرون فانھالن تضرہ فکان عبداللّٰہ بن عمرویعلمھا من بلغ من ولدہ و من لم یبلغ منھم کتبھا فی صک ثم علقھافی عنقہ ۔

(ترمذی، ابواب الدعوات، حدیث نمبر ۳۵۲۸)

ترجمہ: حضرت عمر وبن شعیب عن ابیہ عن جدہ (وہ اپنے والد سے اور ان کے والد ان کے دادا سے) روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی نیند میں ڈر جائے تو یہ کہے (اعوذ بکلمات اللہ، الخ )میں اللہ عزوجل کے مکمل و تمام کلمات کے ذریعہ اس کے عذاب اور اس کے بندوں کے شر اور شیطانی وسوسوں اور شیطانوں کی حاضری سے پناہ چاہتا ہوں تو پھر اس شخص کو کوئی نقصان نہیں پہونچے گا، حضرت عبداللہ بن عمر و اپنی بالغ اولاد کو یہ کلمات سکھادیتے اور نابالغ اولاد کے گلے میں اس دعا ء کو لکھ کر ڈال دیتے تھے ۔

یہ حدیث سنن ابو داؤد میں ان الفاظ میں ہے ’’وکان عبداللّہ بن عمرویعلمھن من عقل من بنیہ ومن لم یعقل کتبہ فاعلقہ علیہ‘‘۔(کتاب الطب ،باب کیف الرقی ، حدیث نمبر: ۳۸۹۳)

مذکورہ حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ تعویذ لکھ کر گلے میں ڈالنا صحابی رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا عمل ہے، اور اسی عمل پر اہل سنت وجماعت قائم ہیں لیکن آج کل کے نام نہاد اہل حدیث کے نزدیک تعویذ مطلق﷓اشرک ہے جب کہ اکابر اہل حدیث بھی مذکورہ حدیث کی بنیاد پر قرآن مقدس کی آیات اور اسماے باری تعالی سے تعویذ کو جائز کہتے ہیں، اکابر اہل حدیث کے اقوال سے قبل سنن ترمذی اور ابو داؤد کی حدیث کی صحت اور اس کی حجیت کے متعلق شارحین حدیث کی وضاحت ملاحظہ فرمائیں ۔

ابو داؤد اور ترمذی میں درج حدیث کی محدثانہ تشریح:ہم اہل سنت تعویذلکھنے اور گلے میں لٹکانے پر جس حدیث کو پیش کرتے ہیں اس حدیث کے متعلق امام ترمذی فرماتے ہیں:


( ۱ ) ’’ھذا حدیث حسن غریب‘‘ ۔

(۲ ) ملاعلی قاری ارشاد فرماتے ہیں ’’ قابل حجت ہونا صحیح ہونے پر موقوف نہیں بلکہ حسن ہونا کافی ہے“۔ (مرقات)

(۳) محقق علی الاطلاق شیخ عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں: ’’غرابت صحت کے منافی نہیں ‘‘(اشعۃ المعات ، مقدمہ )

مذکورہ تصریحات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ سنن ترمذی کی حدیث قابل حجت ہے کیوں کہ وہ حدیث اگر غریب ہے تو بھی قابل حجت ہے اور حسن ہے تو بھی قابل احتجاج ہے۔

( ۴ )جماعت اہل حدیث کے محدث عبد الرحمن مبارکپوری تحفۃ الاحوذی شرح سنن ترمذی میں اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

’’اخرجہ ابو داؤد والنسائی والحاکم وقال صحیح الاسناد ‘‘ (تحفۃ الاحوذی ، علمیہ بیروت)

یعنی یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح ہے۔

( ۵ ) شرح سنن ابو داؤد میں ابوداؤد کی مذکورہ حدیث کے رجال کو ثقہ اور صدوق قرار دیا ہے۔ (عون المعبود)

مدعی لاکھ پے بھاری ہے گواہی تیری

تعویذ کے تعلق سے اکابر اہل حدیث کے اقوال :

حدیث مذکور کی صحت اور اس کے رواۃ کے ثقہ ہونے کے تعلق سے شارحین کی تصریحات کے بعد اب خود نام نہاد اہل حدیث کے اکابرین کے اقوال تعویذ کے حوالے سے پیش کیے جاتے ہیں ۔

( ۱ ) وہابیوں کے شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب نجدی اپنی تالیف ’’ مختصر زاد المعاد‘‘ میں جامع تر مذی کی مذکورہ حدیث نقل کرنے کے بعد لکھتا ہے ’’ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو اپنے باشعور بچوں کو یہ دعا سکھایا کرتے تھے اور جو چھوٹے تھے اسے لکھ کر ان کے گلے میں لٹکا دیا کرتے تھے‘‘۔(مختصر زادالمعاد،ص ۳۶۶ ، فصل۸۷، مترجم سعید احمد قمر الزمان الندوی ،مکتبہ الملک فھد ، ریاض)

محمد بن عبدالوہاب نجدی نے بلاتبصرہ لکھ کر اہل سنت کی تائید کردی ہے، محمد بن عبدالوہاب نجدی کی اس وضاحت کے بعد کسی اہل حدیث مولوی کو تعویذکے خلاف نہ کچھ لکھنے کی ضرورت ہے اور نہ کچھ کہنے کی، ہاں اگر کوئی کہے یا لکھے تو پہلے وہ یہ بتائے کہ محمد بن عبدالوہاب پر کیا حکم لگے گا؟ ۔

( ۲ ) جماعت اہل حدیث کے حکیم محمد صادق سیالکوٹی اپنی مشہور کتاب ’’صلوۃ الرسول ‘‘ میں لکھتا ہے :’’درج ذیل تعویذ لکھ کر بخار والے مریض کے سر کے نیچے رکھنے سے اسکا بخار فوراََ اتر جاتا ہے‘ تو یہ تعویذ اس کے نزدیک اکسیر سے بڑھ کر ہے تعویذ یہ ہے ( تعویذ کا نقشہ کتاب میں موجود ہے ) شیخ محمد عبدالسلام مصری نے یہ اوربخار کے بعض دیگر تعویذات جو نہایت عجیب و غریب قسم کے ہیں ذکر کرنے کے بعد آخر میں جن الفاظ سے ان کی تردید کی ہے ان کا ترجمہ یہ ہے ’’جس شخص نے ان میں سے کسی ایک پر یہ عقیدہ رکھتے ہوئے عمل کیا کہ اس میں شفا ہے تو اللہ تعالی اسے ہلاک کرے کیوں کہ اس نے یہ اعتقاد کیا ہے کہ شفا ،اللہ تعالی پر جھوٹ باندھنے اور دعا و دوا جس کا کرنا اس پر ضروری ہے کے ترک کرنے میں ہے۔(السنن والمبتدعات ،ص۳۲۷)

مگر ہمارے نزدیک یہ بھی قرآنی تعویذہے اس سے روکنے والے سے ہم کہیں گے کہ تم قرآن مجید سے شفا حاصل کرنے سے روکتے ہو‘‘۔ ( صلوۃ الرسول ،ص ۵۱۵)

تعویذ لٹکانے کا حکم محدثین کے اقوال سے:


( ۱ ) مذکورہ حدیث کو نقل کرنے کے بعد تشریح کرتے ہوئے ملا علی قاری تحریر فرماتے ہیں:’’ وھذا اصل فی تعلیق التعویذات التی فیھا اسماء اللّٰہ تعالی ‘‘۔(مرقات ،کتاب الدعوات، باب الاستعاذہ ،جلد اول ،حدیث: ۲۴۷۷)

یعنی جو تعویذات اسماء باری تعالی پر مشتمل ہیں ان کے لٹکانے کے سلسلہ میں یہ حدیث اصل ہے۔

( ۲ ) حاشیہ ترمذی میں لمعات کے حوالے سے ہے:

’’ھوالسند فی اعناق الصبیان من التعویذات و اما تعلیق الحرز والتمائم مماکان من رسوم الجاھلیہ فحرام بلا خلاف‘‘۔(ج ۲ ، ص ۱۹۱ مجلس برکات)

عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو تعویذات شرکیہ کلمات اور رسوم جاہلیہ پر مشتمل ہوں وہ بالاتفاق حرام ہیں اور جو تعویذ ماثور دعاؤں پر مشتمل ہو اسے گلے میں لٹکانے کے لیے مذکورہ حدیث سند کی حیثیت رکھتی ہے۔

( ۳ ) جماعت اہل حدیث کا محدث مذکورہ حدیث کی شرح کرتے ہو ئے لکھتاہے :’’ وفیہ د لیل علی جواز تعلیق التعویذات“۔ (مرعات، شرح مشکوۃ، از ابوالحسن مبارک پوری مکتبہ جامعہ سلفیہ بنارس)

یعنی اس حدیث میں تعویذ لٹکانے کے جواز پر دلیل موجود ہے۔

( ۴ ) عبدالرحمن مبارک پوری اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: ’’ فی عنقہ أي فی رقبۃ ولدہ الذی لم یبلغ قال الشیخ عبدالحق الدھلوی فی اللمعات ھذاھوالسند فی مایعلق فی اعناق الصبیان من التعویذات وفیہ کلام واماتعلیق الحرز والتمائم مماکان من رسوم الجاھلیہ فحرام بلاخلاف“۔ (تحفۃالاحوذی ،شرح سنن ترمذی ،علمیہ بیروت)

یعنی نا بالغ اولاد کے گلے میں تعویذ لٹکادیتے ، شیخ عبد الحق محدث دہلوی لمعات میں فرماتے ہیں بچوں کے گلے میں تعویذ لٹکانے کے بارے میں یہ حدیث سند کی حیثیت رکھتی ہے،لیکن وہ تعویذجو رسوم جاہلیہ پر مشتمل ہو اس کا لٹکانا بالاتفاق حرام ہے۔

اہل حدیث کی مستد ل حدیث کا مسکت جواب:

تحفۃ الاحوذی شرح ترمذی میں حدیث ابن مسعود: ’’ قال سمعت رسول اللّٰہﷺ یقول ان الرقی والتمائم والتولہ شرک‘‘۔ (رواہ احمد و ابن ماجہ و ابن حبان والحاکم)۔ ’’ اقوہ الذھبی علی التمائم التی فیھا شرک‘‘۔

اسی میں ہے:’’ولھذ ا وردفی الحدیث فی حق السبعین الفاید خلون الجنہ بغیر حساب انھم ھم الذین لایرقون ولا یسترقون مع ان الرقی جائزۃ ور دت بھاالاخبار والاثار، واللّٰہ علم بالصواب “ ۔(کتاب الطب، باب ماجاء فی کراہیۃ التعلیق)

یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود کی حدیث جس میں یہ ذکر ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے جھاڑ پھونک، تعویذ اور شوہروں کو مائل کرنے والے عمل کو شرک فرمایا ہے، اس کے متعلق امام ذھبی نے یہ وضاحت کی ہے کہ اس سے مراد وہ تعویذ اور مائل کرنے والا عمل ہے جو شرکیہ کلمات پر مشتمل ہو ۔ اسی میں ہے اور حدیث میں جو وارد ہے کہ ستّر ہزار بغیر حساب جنت میں داخل ہو گے یہ وہ لوگ ہیں جو جھاڑ پھونک نہیں کرتے اور نہ ہی کسی سے جھاڑپھونک طلب کرتے ہیں اس حدیث کے باوجود جھاڑپھونک اور تعویذ جائز و درست ہے کیوں کہ اس کے متعلق احادیث موجود ہیں ۔

اہل حدیث کی تحریر میں کہیں کہیں اس بات کی وضاحت بھی ملتی ہے کہ جھاڑ پھونک مطلقاََ منع نہیں، منع صرف وہی جھاڑ پھونک ہے جو شرکیہ ہو کیوں کہ دوسری حدیث سے تخصیص پیدا ہو گئی مگر تعویذ مطلقاََ شرک ہے خواہ قرآنی آیات سے ہو یا شرکیہ کلمات سے ۔ یعنی یہ لوگ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس بارے میں کوئی تخصیص نہیں ۔ لیکن درج بالا پیش کردہ احادیث اور شارحین کی عبارات سےقارئین اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گے کہ ایسی باتیں کرنے والے اور خود کو اہل حدیث کہنے والے علم حدیث سے تو جا ہل ہیں ہی ساتھ ہی وہ اپنے گھر سے بھی بے خبر ہیں ۔ ٭ ٭ ٭

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

Emoji
(y)
:)
:(
hihi
:-)
:D
=D
:-d
;(
;-(
@-)
:P
:o
:>)
(o)
:p
(p)
:-s
(m)
8-)
:-t
:-b
b-(
:-#
=p~
x-)
(k)