خانہ کعبہ کے اندر نماز پڑھنا کیسا ہے؟




سوال : کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام کہ خانہ کعبہ کے اندر نماز پڑھی جاسکتی ہے؟ اگر پڑھی جاسکتی ہے تو سمت قبلہ کا کیا مسئلہ ہے؟
نیازاحمد، جنک پور، نیپال

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ:
کعبہ شریف کے اندر نماز پڑھنا حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے مبارک عمل سے ثابت ہے اور فقہاے کرام نے بھی اس کے جائز ہونے کا فتوی دیا ہے، چناں چہ بخاری و مسلم کی متفق علیہ حدیث ہے وللفظ للبخاري: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ: " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الكَعْبَةَ وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، وَبِلاَلٌ، وَعُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ الحَجَبِيُّ فَأَغْلَقَهَا عَلَيْهِ، وَمَكَثَ فِيهَا، فَسَأَلْتُ بِلاَلًا حِينَ خَرَجَ: مَا صَنَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: جَعَلَ عَمُودًا عَنْ يَسَارِهِ، وَعَمُودًا عَنْ يَمِينِهِ، وَثَلاَثَةَ أَعْمِدَةٍ وَرَاءَهُ، وَكَانَ البَيْتُ يَوْمَئِذٍ عَلَى سِتَّةِ أَعْمِدَةٍ، ثُمَّ صَلَّى. ( صحیح البخاري، کتاب الصلاۃ، بَابُ الصَّلاَةِ بَيْنَ السَّوَارِي فِي غَيْرِ جَمَاعَةٍ، حدیث: 505)
یعنی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اور اسامہ بن زید، عثمان بن طلحہ اور بلال بن رباح رضی اللہ تعالی عنہم کعبۂ معظمہ میں داخل ہوئے اور دروازہ بند کر لیا گیا۔ کچھ دیر تک وہاں ٹھہرے جب باہر تشریف لائے، میں نے بلال رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا، حضور (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم) نے کیا کیا؟ کہا: ایک ستون بائیں طرف کیا اور دو داہنی طر ف اور تین پیچھے اور اس زمانہ میں بیت اللہ شریف کے چھ ستون تھے۔ پھر نماز پڑھی۔
بیت اللہ شریف کے اندر نماز پڑھے تو کسی بھی سمت رخ کرے، قبلہ کی طرف رخ ہوگا، در مختار مع تنویر الابصار میں ہے: (يَصِحُّ فَرْضٌ وَنَفْلٌ فِيهَا وَفَوْقَهَا... وَإِنْ كُرِهَ الثَّانِي ... مُنْفَرِدًا أَوْ جَمَاعَةً. ( رد المحتار، کتاب الصلاۃ، بَابُ الصَّلَاةِ فِي الْكَعْبَةِ، ج: 2، ص: 254)
یعنی کعبہ معظمہ کے اندر ہر نماز جائز ہے، فرض ہو یا نفل تنہا پڑھے یا باجماعت۔
اسی کے تحت رد المحتار میں ہے: أَنَّ الْوَاجِبَ اسْتِقْبَالُ جُزْءٍ مِنْهَا غَيْرُ عَيْنٍ، وَإِنَّمَا يَتَعَيَّنُ الْجُزْءُ قِبْلَةً لَهُ بِالشُّرُوعِ فِي الصَّلَاةِ وَالتَّوَجُّهِ إلَيْهِ، وَمَتَى صَارَ قِبْلَةً فَاسْتِدْبَارُ غَيْرِهِ لَا يَكُونُ مُفْسِدًا. ( أيضا)
یعنی واجب یہ ہے کہ بلا تعیین کعبہ کے کسی جز کی رخ کیا جائے۔ نماز شروع کرنے اور کعبہ کی طرف متوجہ ہونے سے جز کعبہ بطور قبلہ متعین ہو جائے گا۔ اور جب وہ قبلہ ہوگیا تو دوسرے اجزا کی طرف پیٹھ ہونا مفسد نماز نہ ہوگا۔
مراقي الفلاح میں ہے: صح فرض ونفل فيها" أي في داخلها إلى أي جزء منها توجه. ( نور الإيضاح مع مراقي الفلاح، بَابُ الصَّلَاةِ فِي الْكَعْبَةِ، ص: 218)
یعنی کعبہ شریف میں فرض و نفل سبھی نماز درست ہے یعنی کعبہ کے اندر کعبہ کے کسی بھی حصے (جز) کی طرف متوجہ ہو ( نماز درست ہے۔)
حاصل یہ کہ کعبہ کے اندر ہر نماز جائز ہے اور نماز پڑھتے وقت کعبہ کے کسی بھی حصے کی طرف رخ کیا جائے، قبلہ کی طرف رخ ہوگا۔ واللہ تعالی اعلم

کتبہ
محمد اظہارالنبی حسینی
مدرس دارالعلوم قادریہ مصباح المسلمین، علی پٹی شریف
22/ جمادی الاولی1442ھ مطابق 6/ جنوری 2021ء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے