اقبال اور اتحادِ امت ”کیا یہ اک خواب ہے دیوانے کا؟“ از: مہتاب پیامی



اقبال اور اتحادِ امت
”کیا یہ اک خواب ہے دیوانے کا؟“
از: مہتاب پیامی

آج پوری دنیا مسلمانوں سے بھری ہوئی ہے ۔اسلام مسیحیت کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے۔ 2010 کے ایک جائزہ کے مطابق دنیا بھر میں مسلم آبادی 1.92 بلین افراد پر مشتمل ہے، اس لحاظ سے دنیا کی 29 فیصد آبادی صرف مسلمانوں پر مشتمل ہے۔مشرق وسطی، شمالی افریقہ اور ایشیا کے بعض علاقوں میں غالب اکثریت کا دین ”اسلام“ ہے، چین، بلقان، مشرقی یورپ اور روس میں بھی بڑی مسلم آبادی موجود ہے نیز مسلم مہاجرین کی کثیر تعداد دنیا کے دیگر حصوں مثلاً مغربی یورپ اور دوسرے ممالک میں آباد ہے، جہاں مسیحیت کے بعد اسلام دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے ۔دنیا بھر میں مسلم اکثریت والے ممالک کی تعداد 57 ہے، جن میں عالمی اعتبار سے کل مسلمانوں کی 62 فیصد آبادی یعنی تقریباً ایک بلین آبادی رہائش پزیر ہے۔ بہ لحاظِ آبادی سب بڑا مسلم ملک انڈونیشیا ہے جہاں تقریباً 13 فیصد مسلمان آباد میں ، پاکستان میں 11 فیصد اور بھارت میں 10.9 فیصد مسلمانوں کی آبادی ہے،تقریباً 20 فیصد مسلمان عرب ممالک میں بستے ہیں۔ مشرق وسطی میں غیر عرب ممالک ترکی اور ازبکستان سب سے بڑے مسلم اکثریت والے ممالک ہیں۔ افریقہ میں مصر اور نائجیریا میں کثیر مسلم آبادی موجود ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر کے مطابق دنیا بھر کے تمام مسلمان اسلامی رشتے سے آپس میں بھائی بہن ہیں، تمام مسلمانوں کی ایک معین راہِ عمل ہے جو سنتِ رسول ﷺ سے ظاہر ہے اور سب کا ایک مقصد ہے جو خالقِ کائنات کا وضع کردہ ہے۔اللہ اور اس کے رسول پر ایمان اسلام کا بنیادی اصول ہے۔ اس ایمان کے بعد ہی اسلام کے تمام قواعد و قوانین کسی انسان پر نافذ ہوتے ہیں۔قرآن اور سنتِ رسولِ اکرم ﷺ کا تقاضا ہے کہ مسلمان اللہ کی وحدانیت، رسول کی محبت اور قرآنی ہدایت کی بنیاد پر اتحاد کے سانچے میں ڈھل جائیں، ایک دوسرے پر رحم کریں، کچھ اس طرح ایک جسم ہو جائیں کہ اگر کسی عضو کو تکلیف پہنچے تو سارا بدن درد محسوس کرے ، لیکن کیا مسلمان اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود قرآن اور سنت کے اس حکم پر عمل کر رہے ہیں؟
حالاں کہ آج بھی اتحادِ امت کے لیے مختلف اسلامی تنظیمیں سخت محنت و مشقت کر رہی ہیں لیکن نتیجہ مایوس کن ہی نظر آتا ہے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قوم اپنے اہداف سے بہت دور کہیں اور بھٹک رہی ہے۔ بجاے اس کے کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحمدل ہو جائیں، وہ مجموعی طور پر آپس میں ایک دوسرے سے بہت دور ہیں۔ ہم آج اپنے دوسرے مسلم بھائیوں کے دکھ درد کو محسوس کرنے کے بجاے اپنی زندگی کی مادی آسائشوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔کیا صحیح معنوں میں ہم مسلمان ہیں؟؟؟کیا مسلم اتحاد صرف ایک خواب ہے جو پورا نہیں ہو سکتا؟؟؟
بیش تر مفکرین کا کہنا ہے کہ اب دنیا میں مسلم اتحاد ناممکن ہے، کبھی رہا ہوگا، اب نہیں ہو سکتا، اسلام بھلے ہی کبھی مسلمانوں کو متحد کر چکا ہو لیکن موجودہ سیاسی ، قومی، لسانی، اور جغرافیائی حالات میں یہ ناممکن ہے ۔ ان کاکہنا ہے کہ اتحادِ امت کا یہ کام اچھا ہے لیکن صرف سماعت کی حد تک ورنہ سچ تو یہ ہے کہ یہ تمام تنظیمیں ایک غیر حقیقی مقصد کی طرف دوڑ رہی ہیں جو کبھی حاصل نہیں کیا جا سکتا اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے بجاے کام کرنے کےآج کا مسلمان اپنا بہت سا وقت اور توانائی صرف مباحثوں میں ضائع کر رہا ہے جس کا حاصل کچھ بھی نہیں۔
ہم اپنے اس بنیادی سوال کی طرف واپس آتے ہیں کہ کیا مسلم اتحاد ممکن ہے، اور اگر ہے تو اسے کیسے حاصل کیا جائے؟ لیکن پہلے ہم مسلمانوں کی موجودہ حالت کا جائزہ لیتے ہوئے اقبال کی بصیرت اور تشخیص سے ان کا موازنہ کریں گے۔
مسلمانوں کے مصائب و آلام آج بھی اتنے ہی عام ہیں جتنے اقبالؔ کے زمانے میں تھے۔کل کی طرح آج بھی ہر دن جو گزرتا ہے مسلمانوں کے لیے مزید ہلاکتوں اور تباہیوں کے پیغامات لاتا ہے ۔ یہ انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ مسلم حکومتیں غیر مسلموں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو نقصان پہنچاتی ہیں ۔ مسلم دنیا کے کئی خطّے مسلسل خانہ جنگیوں کا شکار ہیں ، علاقائی تنظیمیں جہاد کے نام پر ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں اور بعض ممالک جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں ان کی حالت اس سے بھی بدتر ہے۔ بطور اقلیت انہیں منظم طریقے سے امتیازی سلوک، تذلیل، ایذا رسانی، تشدد اور عصمت دری کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔یہ سب دیکھ کر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سلسلہ کبھی ختم بھی ہوگا یا نہیں؟
1923 میں جب یونانیوں نے انگریزوں کی ایما پر ترکی پر حملہ کیا تواقبالؔ کا دل رونے لگا۔ وہ جانتے تھے کہ یہ صرف ترکی پر حملہ نہیں تھا بلکہ پورے عالمِ اسلام پر حملہ ہے۔ انھوں نے عمومی مسلم ذہنیت کو مروجہ استعماری ذہنیت اور مسلمانوں کے اپنے تنگ مفادات سے آزاد کرانے کی کوشش کی۔ ”طلوع اسلام“ کے عنوان سے انھوں نے ایک طویل نظم کہی جو کلاسک کے درجے میں شامل ہے، یہ نظم شائع ہوئی، اس کی کاپیوں کی فروخت نے ایک ریکارڈ قائم کیا۔ اس کی فروخت سے جو بھی رقم حاصل ہوئی اقبال نے ترکی بھیج دی۔اقبال اس نظم میں فرماتے ہیں؂

ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے نوعِ انساں کو
اخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زباں ہو جا

یہ ہندی وہ خراسانی، یہ افغانی وہ تورانی
تو اے شرمندۂ ساحل اچھل کر بے کراں ہو جا

آج مسلمانوں کے ساتھ جو صورت حال ہےاس کا مشاہدہ کرتے ہوئے اقبالؔ کی روح انتہائی مضطرب ہوگی۔ کاش آج بھی کوئی اقبالؔ ہوتا جو امتِ مسلمہ کو تباہی کی طرف دھکیلنے والی قوتوں کے خلاف رہنمائی کر سکتا۔ افسوس صد افسوس کہ آج یہ امت اپنے داخلی فساد کے سبب منتشر اور پارہ پارہ ہو چکی ہے۔
دنیا میں کوئی ایسی قوم نہیں جس کے اتنے ٹکڑے ہوئے ہوں جتنے امتِ مسلمہ کے ہوئے ۔ یہ قوم عقائد کی بنیاد پر بھی منقسم ہے اور سیاست کی بنیاد پر بھی۔ آج دنیا بھر کے مسلمان نسلی، ثقافتی، لسانی اور فرقہ وارانہ خطوط پر کچھ اس طرح تقسیم ہیں کہ شاید ہی کبھی ان کو آپس میں جوڑا جا سکے۔ یہ تقسیم بس یہیں تک نہیں ہے، بلکہ مزید ذیلی تقسیمیں بھی ہیں۔ رتبہ،منصب، دولت اور شہرت نے بھی مسلمانوں میں سماجی اختلافات پیدا کیے ہیں۔
دیکھا جائے تو مسلمان بنیادی طور پر صرف دو خانوں میں بنٹے ہوئے ہیں، سنی اور شیعہ ۔لیکن نہیں... سنی مزید حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی میں تقسیم ہیں۔ شیعہ بھی کیسانیہ، زیدیہ، امامیہ اثنا عشری، اسماعیلیہ وغیرہ میں بنٹے ہوئے ہیں، پھر سنی مزید اہل حدیث اور اہل فقہ میں تقسیم ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں اہل فقہ مزید دیوبندیوں اور بریلویوں میں تقسیم ہیں۔ اسی طرح کے اختلافات دیگر مقامات پر بھی موجود ہیں۔ کیا یہ تمام تفریق اور اختلافات صرف مکاتب فکر کے ہیں جیسا کہ بہت سے مسلمان دعویٰ کرتے ہیں؟ ہم تسلیم کریں یا نہ کریں، یہ اختلافات اور تقسیم ہمارے درمیان جسمانی، جذباتی اور نفسیاتی رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔ بقول اقبالؔ یہ اختلافات انسانوں میں تعصب پیدا کرتے ہیں:

شجر ہے فرقہ آرائی تعصب ہے ثمر اس کا
یہ وہ پھل ہے جو جنت سے نکلواتا ہے آدم کو

شمالی امریکہ میں دیکھا جائے تو مسلمان مذہبی اختلافات کے باوجود مہذب طریقے سےمل جل کر کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن دوسرے مقامات پر بسنے والے ہمارے بھائی بہن اتنے خوش قسمت نہیں وہاں تو آپسی اختلافات میں جانیں چلی جاتی ہیں، ایک کلمہ گو ہی مسجدوں کو آگ لگا دیتا ہے، مزارات کو تہہ و بالا کر دیتا ہے، اور اتنے ہی پر بس نہیں کرتا بعض اوقات تو اس حد تک چلا جاتا ہے کہ اسلامی رشتے سے جو بہن ہے اس کے ساتھ زنا بالجبر بھی کر ڈالتا ہے ۔ قرآن اور حدیث میں اتحاد امت کے لیے واضح تنبیہات موجود ہیں مگر مسلمان اس کی خلاف ورزی کیوں کرتا ہے؟ اور ان خلاف ورزیوں کا حقیقی ذمہ دار کون ہے؟اس نکتے پر ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے ۔کیا یہ سب ان تعصبات کی وجہ سے ہے جو ہماری تقسیم کے ناگزیر نتائج ہیں، جیسا کہ اقبال نے مذکورہ بالا شعرمیں ذکر کیا ہے؟کیا ہم مذکورہ تمام تقسیموں اور اختلافات کے ساتھ دنیا میں ترقی کر سکتے ہیں؟ نہیں... بالکل نہیں۔ اقبالؔ کہتے ہیں:

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

اقبالؔ مزید فرماتے ہیں:
تم تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ کہ مسلمان بھی ہو؟

اس شعر میں اقبالؔ نے ذات پات کے نظام کی نمائندگی کے لیے لفظ ”سید“، حکمران اشرافیہ کی نمائندگی کے لیے لفظ ”مرزا“ اور خطے، زبان اور نسل کی بنیاد پر مسلمانوں میں اختلافات کی نمائندگی کے لیے لفظ ”افغان“ استعمال کیا ہے۔
یہ تمام اختلافات قرآن کے خلاف ہیں۔ جب اقبالؔ نے سوال کیا کہ ’’بتاؤ کیا تم مسلمان بھی ہو؟‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اپنے ناموں کے ساتھ ان نشانوں کی وجہ سے دوسرے مسلمانوں کے مقابلے میں فخر اور برتری محسوس کرتے ہیں (تقویٰ کی وجہ سے نہیں) وہ سچے مسلمان کہلانے کے حق دار نہیں ہیں۔
قرآن کریم کا فرمانِ عالی شان تو یہ ہے کہ جو لوگ دین (اسلام) میں اختلاف پیدا کرتے ہیں وہ مشرکوں میں سے ہیں:
إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّـهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ۔
یعنی رہے وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہوں میں بٹ گئے، ان میں تمہارا کوئی حصہ نہیں، ان کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے۔ وہ آخر میں ان کو ان کی سب حقیقت بتائے گا جو انہوں نے کیا تھا۔
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ; مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا ۖ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ
اور تم مشرکوں میں سے نہ ہو جاؤ، یعنی وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور فرقے بن گئے، ہر ایک جماعت اپنے ساتھ جو کچھ ہے اس پر خوش ہے۔
حدیث شریف میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جو امت سے ایک بالشت بھی دور ہو گیا اس نے اپنی گردن سے اسلامی جوا اتار لیا، خواہ وہ نماز پڑھے اور روزہ رکھے۔‘‘ [رواہ احمد و حاکم]
یہی وجہ ہے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں تمام مسلمانوں کو متحد ہونے اور اللہ کی رسی (یعنی قرآن) کو مضبوطی سے تھامے رہنے کی دعوت دیتا ہے اور انہیں سخت تنبیہ کرتا ہے کہ آپس میں تفرقہ پیدا نہ کریں ۔
اگر ہم مجموعی طور پر عالمی منظر نامے پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آج مسلمانوں کی تعداد بڑھتے بڑھتے تقریباً 2 بلین ہو چکی ہے۔ مسلمانوں کے پاس دنیا کے عمدہ ترین وسائل اور زمین کے سب سے زیادہ زرخیز خطے موجو ہیں ، 57 ممالک پر حکومت ہے ، بے شمار فوج ہے، اس کے باوجود یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ روئے زمین پر سب سے زیادہ کمزور اور سب سے زیادہ محتاج آج مسلمان ہیں۔
مذہبی سطح پر دیکھا جائے تو ہر جگہ مساجد کی تعداد بڑھ رہی ہے، مساجد میں جانے والے مسلمانوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے، سالانہ حج کرنے والے مسلمانوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہوتا ہے ،مسلم تنظیموں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہےمگر مقامِ افسوس یہ ہے کہ مسلم تنظیموں میں جب فکری اختلافات رو نما ہوتے ہیں تو بجاے اتحاد کے مزید ایک نئی تنظیم ، مزید ایک نیا مدرسہ ، مزید ایک نئی مسجد بنا دی جاتی ہے ، افسوس کہ سجدہ گاہیں بدل دی جاتی ہیں دل نہیں بدلے جاتے۔ کیا صرف سجدہ گاہ بدلنے سے یہ قوم ترقی کر لے گی؟؟؟ آج اس طرح کے کاموں کو مذہبی جوش اور ایمانی حرارت کا نام دیا جاتا ہے۔ ایسے ہی مذہبی جوش اور ایمانی حرارت کو دیکھ کر اقبالؔ نے کہا تھا؂

مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا

اب آتے ہیں ہم اصل سوال کی طرف۔ خطیبوں کے خطبات اور مقررین کی تقاریر کے باوجود اس قوم میں اتحاد کا فقدان کیوں ہے ؟ تمام تر کوششوں کا نتیجہ مایوس کن کیوں ہے؟اس مسئلے کی تشخیص کا واحد طریقہ اقبالؔ کے مطابق اس کی اصل وجہ تلاش کرنا ہے۔ہمیں اپنے مسائل کی جڑ جاننے کے لیے اپنے دل کی گہرائیوں میں جانا پڑے گا۔ اگر ہم صرف باہر کی طرف دیکھیں تو درخت کی طرح ہمیں اس کا تنا، شاخیں اور پتے نظر آئیں گے جڑیں نہیں نظر آئیں گی، اور اگر جڑیں کسی بیماری سے متاثر ہو چکی ہیں تو باقی درخت خواہ کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو جلد یا بدیر مر جائے گا۔ درحقیقت، اس کی موت ایک معتدل ہوا سے بھی جلدی ہو سکتی ہے۔ شاخوں اور پتوں کو دی جانے والی خوراک کی کوئی مقدار اس کی موت کو نہیں ٹال سکتی۔
مسئلہ کی اصل وجہ جاننے کے لیے جس ذریعہ کی طرف ہمیں رجوع کرنا چاہیے وہ ذریعہ ہے قرآن مجید ۔ اقبال کے نزدیک صرف ہماری ہی نہیں بلکہ تمام انسانیت کی بیماریوں کی تشخیص کے لیے ضروری رہنمائی قرآن مجید میں موجود ہے۔ کہتے ہیں؂

وہی دیرینہ بیماری وہی نامحکمی دل کی
علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی

قرآن مجید میں اللہ عز و جل کا فرمان عالی شان ہے؂
يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ
"اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت اور تمہارے دلوں کی بیماریوں کے لیے شفا اور ایمان والوں کے لیے ہدایت اور رحمت آچکی ہے۔ (یعنی قرآن مجید)
اقبالؔ کے مطابق ہمارے تمام مسائل کی شروعات ہمارے دل سے ہوتی ہے اور ہماری تمام بیماریوں کی جڑ بھی ہمارا دل ہی ہے، اس لیے علاج بھی وہیں سے شروع ہونا چاہیے۔ اقبال ؔکہتے ہیں:

زباں سے کہہ بھی دیا لا الٰہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

صرف زبان سے کلمے کا اقرار کر لینا ہی کافی نہیں بلکہ ایمان کا دل کی گہرائیوں میں داخل ہونا لازمی ہے ۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ
یعنی لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔ لیکن وہ (حقیقت میں) ایمان نہیں لاتے۔
یعنی جو مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے وہ صرف اس بنیاد پر مومن ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتے، مومن ہونے کے لیے ایمان کا دل میں داخل ہونا ضروری ہے۔ نیز، ایمان ...اندھا ایمان نہیں ہے۔ قرآن واضح طور پر اعلان کرتا ہے کہ ایمان صرف علم سے مضبوط ہوتا ہے،اس لیے دل کو عاجز اور کشادہ رکھنا چاہیے تاکہ دماغ سے حاصل کیا گیا ایمان دل میں داخل ہو جائے۔ ایمان ان دلوں میں داخل نہیں ہو سکتا جن میں بیماری ہے، یا جن لوگوں نے اپنے دلوں پر مہر لگا رکھی ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ مومن دوسروں پر وقار اور طاقت رکھتے ہیں اور کافر کبھی بھی مومنوں کو مغلوب نہیں کر سکتے۔ پھر آج ہم مغلوب کیوں ہیں؟ یہ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ضرورت ہے کہ ہم اپنے دل کی بیماری کا علاج کریں، دل کو اس لائق بنائیں کہ اس میں حقیقی ایمان گھر کر سکے۔
آج اگر ہم بحیثیت مسلمان قرآن کی ان واضح آیات کو سامنے رکھ کر اپنا تجزیہ کریں تو ہمیں صرف اسی نتیجہ پر پہنچیں گے کہ ہم ان مومنین میں سے نہیں ہیں جو قرآن کو مطلوب ہیں، ہماری اکثریت کے دلوں میں عاجزی اور کشادگی نہیں ہے۔ اس قسم کے مسلمانوں کے تعلق سے اقبالؔ کہتے ہیں؂

زباں سے گر کیا توحید کا دعویٰ تو کیا حاصل
بنایا ہے بتِ پندار کو اپنا خدا تونے

یعنی اگر تم اپنی زبان سے خدا کی وحدانیت کا دعویٰ کرو تو کیا فائدہ؟ تم نے تواپنے جذبات کے بت کو ہی اپنا خدا بنا لیا ہے۔
ہم میں سے کم ہی ایسے ہوں گے جو خلوص اور للہیت کے ساتھ اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوں گے، سچ تو یہ ہے کہ ہم اللہ، کتاب اللہ اور رسول اللہ کی پیروی کے بجاے اپنے جذبات کی پیروی کرتے ہیں؟ ورنہ ہم سے تو مکمل طور پر سرنڈر کرنے کا مطالبہ ہے۔
آج ہم بحیثیت مسلمان جن مسائل سے دوچار ہیں، ان کی اصل وجہ یہی ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات سے کوسوں دور ہیں،ہمارے دل جذبات و انانیت کی رگڑ سے بوسیدہ ہو چکے ہیں، ہمارے دل کی بیماری اتنی بڑھ چکی ہے کہ لا علاج ہونے کے اسٹیج پر ہے۔ہمارا دل حق و باطل کے درمیان کشمکش میں مبتلا رہتا ہے کیوں کہ ہم نے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے نہیں تھاما ہے۔ہمارے دل کی اسی اندرونی کشمکش کو قرآن نے دل کی بیماری کہا ہے۔ اقبال بھی قرآن کے اسی موضوع کی بازگشت سنا رہے ہیں:

باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے
شرکت میانِ حقّ و باطل نہ کر قبول

موجودہ حالات کی زمینی حقیقت پر نگاہ کی جائے تو یہ کہنابے جا نہ ہوگا کہ ، ہماری اجتماعی ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی بیماریوں کے علاج کی مستقبل قریب میں کوئی امید نہیں ہے۔ نہ جانے کتنے نفسیاتی، جذباتی اور ذہنی بت ہمہ وقت ہم اپنے دل و دماغ میں لیے پھرتے ہیں۔ قرآن ہم سے ہمارے دلوں کو ہر قسم کی آلودگی سے پاک اور صاف کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ شرک کی مذکورہ لطیف شکلیں انتہائی نشہ آور ہیں وہ ایک سست زہر کی طرح ہمارے دل و دماغ پر مہلک اثر ڈالتی ہیں۔ اقبالؔ اپنے منفرد انداز میں فرماتے ہیں:

دلِ مردہ دل نہیں ہے، اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے امتوں کے مرضِ کہن کا چارہ

اور مردہ دلوں کو صرف قرآن کے ذریعہ ہی زندہ کیا جاسکتا ہے؛ اقبال کہتے ہیں کہ یہ صرف قرآن سے ہی ممکن ہے:

گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جُز بہ قرآں زیستن

یعنی اگر تم بحیثیت مسلمان زندگی گزارنا چاہتے ہو تو قرآن کا راستہ اختیار کرو، قرآن کے بغیر ایسا کسی بھی حال میں ممکن نہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے پھرتے قرآن تھے۔ چنانچہ سنت یہ ہے کہ قرآن کے مطابق زندگی بسر کی جائے نہ کہ صرف آخرت کا ثواب کمانے کے لیے اسے پڑھا جائے۔

اقبالؔ صحابۂ کرام کے بارے میں کہتے ہیں:

وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

یہ وہ لوگ تھے جنھیں اسلام کی وجہ سے دنیا میں عزت ،طاقت اور شہرت حاصل تھی اور ایک تم ہو کہ تم نے قرآن کو چھوڑ دیا اور ذلت و شکست کے لامتناہی سلسلے سے دو چار ہو گئے۔قرآن کریم سے ناتا توڑنے والو! یاد رکھو میدانِ محشر میں رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ سے یہ شکایت ضرور کریں گے کہ میری قوم نے قرآن کا پیغام چھوڑ دیا ۔

کچھ ایسے بھی ہیں جو قرآن کو اپنے مطلب میں ڈھالنے کے لیے تاویلات کا سہارا لیتے ہیں۔ اقبالؔ کہتے ہیں؂

خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق

اس ایک زندہ مثال ہمارے دور کے ایک نام ور مفتی صاحب ہیں جنھوں نے اپنے ہم خیال ایک فرد کو زد میں آنے سے بچانے کے لیے اپنے ایک فتوے میں ایسی لا یعنی تاویلات پیش کیں جن کو مجھ جیسا طالب علم بھی ادھیڑ کر رکھ سکتا ہےاور اس طرح کی بے سر و پا باتیں، من گڑھت تاویلات آج سوشل میڈیا پر جس طرح گردش کر رہی ہیں اس نے عصرِ حاضر کے فقیہوں پر ایک سرخ رنگ کا بڑا سا سوالیہ نشان لگا دیا ہے؟
اقبالؔ مزید فرماتے ہیں:

احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسر
تاویل سے قرآں کو بنا سکتے ہیں پاژند

”پاژند “زرتشتی مذہب کے پیروکاروں کی مرتب کردہ کتاب ہے جو ان کے مطابق اویستاں کی تشریح ہے، اور اس میں انھوں نے اپنے ذاتی خیالات کی بھر مار کر رکھی ہے۔

مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قرآن مجید کی اس آیت کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں، جس میں تبدیلی کے قانون کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی ذات میں تبدیلی نہ لائیں ۔قرآن کے اس پیغام کو اقبالؔ اپنے الفاظ میں اس طرح بیان کرتے ہیں؂

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

ہم اقبال ؔکے درج ذیل اشعار پر اپنی گفتگو ختم کرنا چاہیں گے؂

منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک

حرمِ پاک بھی، اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

آئیے ہم اپنے رب سے دعا کریں کہ وہ ہمارے دلوں کو اسلام کی راہ میں جوڑ دے۔ یہ اس کا وعدہ ہے کہ اگر ہم ایسا کریں گے تو ایک بار پھر عزت، طاقت اور شان و شوکت حاصل کر لیں گے اور اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے