جنت میں عورتوں کو کیا ملے گا؟




سوال : کیا فرماتے ہیں علماء دین کہ جنت میں عورتوں کو کیا ملے گا مثلا مردوں کو حوریں تو عورتوں کو کیا ؟
مدلل جواب مطلوب ہے
غلام سرور دمکا جھارکھنڈ


الجواب بعون الملک الوہاب :
جنتی مردوں کو جنت میں حوریں ملیں گی اور عورتوں کو جنت میںان کے شوہر ملیں گے ۔ المعجم الصغیر میں ہے :
عَنْ عَطِيَّةَ بْنِ قَيْسٍ الْكِلَابِيِّ قَالَ: خَطَبَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ أُمَّ الدَّرْدَاءِ بَعْدَ وَفَاةِ أَبِي الدَّرْدَاءِ، فَقَالَتْ أُمُّ الدَّرْدَاءِ: إِنِّي سَمِعْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «أَيُّمَا امْرَأَةٍ تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا، فَتَزَوَّجَتْ بَعْدَهُ فَهِيَ لِآخِرِ أَزْوَاجِهَا» وَمَا كُنْتُ لِأَخْتَارَكَ عَلَى أَبِي الدَّرْدَاءِ ۔ ( المعجم الصغیر ، ح : 3130 )
یعنی حضرت عطیہ بن قیس کلابی فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ ابن ابو سفیان نے حضرت ابو الدرداء کی وفات کے بعد حضرت ام درداء سے نکاح کا پیغام بھیجا تو حضرت ام درداء نے فرمایا : میں نے حضرت ابو الدرداء کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں ( حضرت ابو الدرداء ) نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جس عورت کا شوہر وفات پا گیا پھر اس عورت نے اس کے بعد نکاح کر لیا تو ( آخرت میں ) یہ عورت اپنے آخری شوہر کی ہوگی اور میں آپ حضرت ابو الدراء پر ترجیح نہیں دوں گی ۔
درج بالا حدیث پاک سے واضح ہے کہ عورت کو جنت میں اس کا شوہر ملے گا اب اگر چند شوہر ہوں تو عورت کس شوہر کے پاس رہے گی اس بارے میں مختلف اقوال ہیں : ( 1 ) اپنے آخری شوہر کے پاس جیسا کہ حدیث بالا سے ثابت ہے ۔
( 2 ) عورت کو اختیار دیا جائے گا ۔ اور عورت سب سے اچھے اخلاق والے کو اختیار کرے گی ۔ حدیث پاک میں ہے :
قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الْمَرْأَةُ مِنَّا تَتَزَوَّجُ زَّوْجَيْنِ وَالثَّلاثَةَ وَالأَرْبَعَةَ، ثُمَّ تَمُوتُ فَتَدْخُلُ الْجَنَّةَ وَيَدْخُلُونَ مَعَهَا، مَنْ يَكُونُ زَوْجُهَا؟، قَالَ: يَا أُمَّ سَلَمَةَ،إِنَّهَا تُخَيَّرُ فَتَخْتَارُ أَحْسَنَهُمْ خُلُقًا، فَتَقُولُ: أَيْ رَبِّ إِنَّ هَذَا كَانَ أَحْسَنَهُمْ مَعِي خُلُقًا فِي دَارِ الدُّنْيَا، فَزَوِّجْنِيهِ، يَا أُمَّ سَلَمَةَذَهَبَ حُسْنُ الْخُلُقِ بِخَيْرِ الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ. ( المعجم الکبیر ، ح : 19314 )
یعنی حضرت ام سلمہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! ہم میں سے کچھ عورت دو یا تین یا چار شادیاں کرتی ہیں پھر وہ وفات پا کر جنت میں داخل ہو جائیں گی اور ان کا شوہر بھی ان کے ساتھ جنت میں داخل ہو جائیں گے تو عورت کا شوہر کون ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اے ام سلمہ ! عورت کو اختیار دیا جائے گا تو وہ سب سے اچھے اخلاق والے کو اختیار کرے گی ۔ پھر عرض کرے گی : اے میرے رب ! بلا شبہ یہ شخص دنیا میں میرے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آتا تھا اس لیے تو میری اس سے شادی کر دے ۔ اے ام سلمہ ! حسن اخلاق دنیا و آخرت کی بھلائی ساتھ لے جائے گا ۔
علامہ شامی نے دوسرے قول کو ترجیح دی ہے ۔ رد المحتار میں ہے :
إنَّ نِسَاءَ الْجَنَّةِ مِنْ نِسَاءِ الدُّنْيَا أَفْضَلُ مِنْ الْحُورِ الْعِينِ " وَفِيمَنْ لَا زَوْجَةَ لَهُ عَلَى تَقْدِيرِهَا لَهُ أَنْ لَوْ كَانَتْ وَلِأَنَّهُ صَحَّ الْخَبَرُ بِأَنَّ الْمَرْأَةَ لِآخِرِ أَزْوَاجِهَا: أَيْ إذَا مَاتَ وَهِيَ فِي عِصْمَتِهِ وَفِي حَدِيثٍ رَوَاهُ جَمْعٌ لَكِنَّهُ ضَعِيفٌ «الْمَرْأَةُ مِنَّا رُبَّمَا يَكُونُ لَهَا زَوْجَانِ فِي الدُّنْيَا فَتَمُوتُ وَيَمُوتَانِ وَيَدْخُلَانِ الْجَنَّةَ لِأَيِّهِمَا هِيَ؟ قَالَ: لِأَحْسَنِهِمَا خُلُقًا كَانَ عِنْدَهَا فِي الدُّنْيَا ۔ ( در مختار مع رد المحتار ، ج : 2 ، ص: 213)
یعنی بےشک دنیا کی عورتیں بڑی آنکھوں والی جنَّتی حوروں سے افضل ہیں۔ اور اس شخص کے بارے میں جس کی بیوی نہ ہو تو اس کے لیے بیوی ماننے کی صورت میں کہ اگر وہ ہوتی۔ اور اس لیے کہ حدیث پاک سے ثابت ہے کہ عورت اپنے آخری شوہر کے لیے ہوگی یعنی جب شوہر کا انتقال ہوا تو وہ اس کی حفاظت میں تھی۔ اور اس حدیث میں جسے ایک جماعت نے روایت کی لیکن وہ ضعیف ہے، یہ ہے کہ ہماری بہت سی عورتیں ایسی ہوں گی کہ دنیا میں ان کے دو شوہر ہوں گے۔ پھر اس کا اور اس کے دونوں شوہرون کا انتقال ہوگا اور وہ دونوں جنت میں داخل ہون گے تو یہ عورت کس شوہر کے لیے ہوگی؟ حضور نے فرمایا: دنیا میں اس عورت کے نزدیک جو زیادہ حسن اخلاق والا ہوگا۔
البتہ ایک حدیث پاک میں آخری شوہر اور دوسری حدیث پاک میں سب سے اچھے اخلاق والا شوہر کا ذکر ہے جس سے بظاہر تعارض سمجھ میں آتا ہے لیکن ہمارے علماے کرام نے ان کے مابین تطبیق پیش کی ہے ۔ فتاویٰ حدیثیہ میں ہے :
قلت: لَا مُخَالفَة لِإِمْكَان الْجمع بَينهمَا بِأَن يحمل الأول على من مَاتَت فِي عصمَة زوج وَقد كَانَت تزوجت قبله بِأَزْوَاج فَهَذِهِ لآخرهم، وَكَذَا لَو مَاتَ واستمرت بِلَا زوج إِلَى أَن مَاتَت فَتكون لآخرهم لِأَن علقته بهَا لم يقطعهَا شَيْء، وَحمل الثَّانِي على من تزوجت بِأَزْوَاج ثمَّ طلقوها كلهم فحينئذٍ تخير بَينهم يَوْم الْقِيَامَة فتختار أحْسنهم خلقا والتخيير هُنَا وَاضح لانْقِطَاع عصمَة كل مِنْهُم، فَلم يكن لأحد مِنْهُم مُرَجّح لاستوائهم فِي وُقُوع علقَة لكل مِنْهُم بهَا مَعَ انقطاعها فاتجه التَّخْيِير حينئذٍ لعدم الْمُرَجح ۔ ( الفتاویٰ الحدیثیہ ، ص : 36 )
یعنی میں کہوں گا ان میں کوئی اختلاف نہیں کیوں کہ ان کے درمیان تطبیق ممکن ہے کہ حضرت ابو درداء سے مروی حدیث کو اس خاتون پر محمول کیا جائے جو کسی خاوند کی زوجیت میں انتقال کر چکی ہے اور وہ عورت اس سے پہلے کئی شوہروں سے نکاح بھی کر چکی ہو ۔ تو یہ عورت ان میں سے آخری شوہر کو ملے گی اور ایسے ہی اگر اس کا شوہر اس سے پہلے مر جائے اور یہ عورت کسی دوسرے شوہر سے نکاح کیے بغیر مر جائے تو وہ ان میں سے آخری شوہر کو مل جائے گی کیوں کہ اس کا آخری شوہر سے تعلق برقرار ہے اور اسے کسی چیز نے منقطع نہیں کیا اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا مروی حدیث اس عورت پر محمول کی جائے گی جس نے کئی شوہروں سے یکے بعد دیگرے نکاح کیا تھا لیکن ان سب نے اسے طلاق دے دی تھی تو اس صورت میں اس عورت کو ان کے مابین اختیار دیا جائے گا تو وہ ان میں سے سب سے اچھے اخلاق والے کو ترجیح دے گی ۔ یہاں اختیار دیا جانا واضح ہے کہ ان مٰں سے ہر کسی کی عصمتِ نکاح منقطع ہو چکی ہے ۔ اس میں سے کسی ایک کے لیے بھی مرجح نہیں پایا جاتا ۔ کیوں کہ وہ سب یکساں ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ اس کا تعلق پیدا ہوا تھا اور پھر ہر ایک سے منقطع بھی ہو گیا ااس صورت میں عدم مرجح کی بنا پر عورت کو اختیار دیا جانا زیادہ مناسب ہے ۔
اور اگر عورت غیر شادی شدہ یا کافر کی مسلمان بیوی دنیا سے رخصت ہوئی تو ان کا نکاح اللہ تعالیٰ اپنی مشیت سے جنتی مردوں سے فرمائے گا۔ تفسیر روح المعانی میں ہے :
ويعطى الرجل هناك ما كان له في الدنيا من الزوجات ، وقد يضم إلى ذلك ما شاء اللّه تعالى من نساء متن ولم يتزوجن ۔۔۔۔۔۔ وتعطى زوجة كافر دخلت الجنة لمن شاء اللّه تعالى. وقد ورد أن آسية امرأة فرعون تكون زوجة نبينا صلّى اللّه عليه وسلّم ۔( تفسیر روح المعانی، ج : 13 ، ص : 134 ، دار الکتب العلمیہ)
یعنی جنت میں آدمی کو اس کی دنیا والی بیوی عطا کی جائے گی۔ اور اس کے ساتھ مشیت ایزدی کے مطابق غیر شادی شدہ جنتی عورتیں عطا کی جائیں گی۔۔۔۔۔۔ کافر کی جنتی بیوی کو اللہ تعالی اپنی مشیت کے مرد عطا فرمائے گا جیسا کہ حدیث میں ہے کہ فرعون کی بیوی حضرت آسیہ ہمارے نبی کریم ﷺ کی زوجہ ہوں گی۔
اور اگر نابالغ بچہ بچی دنیا سے رخصت ہوئی تو اس کا حشر تو دنیا والی عمر میں ہوگا لیکن دخول جنت کے وقت اس کی عمر بڑھا دی جائے گی اور بالغ کی طرح جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی شادی کر دی جائے گی۔ فتاویٰ حدیثیہ میں ہے :
وَسُئِلَ رَضِي الله عَنهُ: هَل يحْشر الطِّفْل على صورته؟ وَهل يتَزَوَّج من الْحور الْعين؟ وَهل الْولدَان من جنس الْحور؟ فَأجَاب بقوله: الطِّفْل يكون فِي الْحَشْر على خلقته، ثمَّ عِنْد دُخُوله الْجنَّة يزْدَاد فِيهَا حَتَّى يكون كَالْبَالِغِ ثمَّ يتزوّج من نسَاء الدُّنْيَا وَمن الْحور وهنّ والولدان جنس وَاحِد ۔ (الفتاوى الحديثية، ص: 429)
یعنی اور امام ابن حجر ہیتمی شافعی سے سوال ہوا کہ کیا بچہ اپنی صورت پر اٹھایا جائے گا؟ کیا حور عین سے اس کی شادی ہو گی؟ اور کیا بچے حور کی جنس سے ہوں گے؟ تو آپ نے جواب دیا : کم سن بچہ حشر میں دنیاوی عمر اورجَسامت پراٹھایا جائے گا پھرجنّت میں داخلے کے وَقت اس کی جَسامت بڑھا دی جائے گی اور وہ بالِغ کی طرح داخلِ جنّت ہو گا اور دنیاوی عورَتوں اورحُوروں کے ساتھ اُس کا نکاح کر دیا جائے گا۔
خلاصہ یہ کہ جنت میں مردوں اور عورتوں میں بہت سی نعمتیں ملیں گی ۔ سب سے بڑی نعمت تو اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا ۔ اور مردوں کو ایک نعمت حور کی ملے گی تو عورت کو خود اس کا شوہر ملے گا اور غیر شادی شدہ خواہ نابالغی کی وجہ سے یا نکاح نہ کرنے کی وجہ سے یا کافر کی مسلمان بیوی کا نکاح جنتی مردوں کے ساتھ کر دیا جائے گا اس طرح عورتوں کو جنت میں شوہر کی نعمت ملے گی۔ و اللہ تعالیٰ اعلم ۔

کتبہ
محمد عطاء النبی حسینی مصباحی
22 / جمادی الاولی 1442ھ مطابق 07/ جنوری 2021ء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے