مدارس اسلامیہ میں حقوقِ انسان اور عالمی بھائی چارہ کی تعلیم: ایک تحقیقی جائزہ



مدارس اسلامیہ میں حقوقِ انسان اور عالمی بھائی چارہ کی تعلیم: ایک تحقیقی جائزہ
محمد مبشر حسن
اسکالر جواہر لال نہرو یونیورسٹی دھلی

مدارس اسلامیہ کو بدنام کرنے کے لیے اسلام مخالف عناصر میڈیا کے ذریعہ آئے دن پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے یہاں دہشت گرد کی تعلیم دی جاتی ہے۔ یا اسلام میں انتہا پسندی ہے۔اگر واقعی یہاں دہشت گردی کی تعلیم ہوتی یا اسلام انتہا پسنددین ہوتا تو ہرگز اسلام دنیا کا دوسرا بڑا عالمی مذہب نہیں بنا ہوتا ۔حقوق انسان اور عالمی بھائی چارہ کے علم بردار بننے والے مسلمانوں کے مذہبی حقوق سلب کرنے کی ایڑی چوٹی کی زور لاگائے ہوئے ہیں۔ دینی مدارس بند کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے اختیار کرتے ہیں ۔ کبھی کہتے اسکول کی طرح یہاں نصاب نہیں ہے ۔کبھی بکتے انتہا پسندی کی تعلیم ہوتی ہے ۔ یہاں سائنس اور کمرس داخل نصاب نہیں ہے، اسکول کی طرح اخلاقیات کی کتابیں شامل نہیں ہیں۔ یہ ساری باتیں معلومات کی کمی یا منظم سازش کا نتیجہ ہے۔ اخلاقیات کی اعلی اور جامع تعلیم جو اسلام کے پاس ہے وہ کسی مذہب اور ملک میں نہیں ہے۔ اور دیگر مضامین : سائنس میتھ تاریخ وغیرہ بھی باضابطہ پڑھائے جاتے ہیں۔البتہ قدیم سائنس کی کتابیں عربی زبان میں لکھی گئ ہیں وہ شامل درس ہیں ،اب اکثر وبیشتر مدارس میں قدیم سائنس کے ساتھ جدید سائنس بھی داخل مطالعہ ہے۔ اور عالمی انگریزی زبان اور دیگر عصری علوم وفنون بھی زمانے کے تقاضے کے مطابق شامل نصاب ہیں۔لیکن پوری دنیا میں مدارس اسلامیہ دینی تعلیم کے لیے مشہور ہیں ۔اسلام کا بنیادی ماخذ قراّن واحادیث ہیں اور یہ عربی زبان مین ہے اسلیے ہرجگہ مدارس میں ابتدائی تین چار جماعتوں میں نحو وصرف عربی کے قوائد پر خاص ترکیز ہوتی ہے۔ بلفظ دیگر یہ کہاجائے تو بھی بجا ہے کہ مدارس اسلامیہ میں قرآن واحادیث کی ہی تعلیم جوہر اصلی ہے۔ آئے یہاں ہم مدارس اسلامیہ میں قرآن واحادیث سے حقوق انسان اور عالمی بھائی چارہ کے چند اسباق کا اجمالی جائزہ پیش کرتے ہیں۔
حقوق انسانی کا مفہوم: انسان اس دنیا میں تنہا نہیں رہ سکتا، وہ دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنے پر مجبور ہے، اپنی ضروریاتِ زندگی کی تکمیل اور آفات ومصائب کے ازالہ کے سلسلہ میں دوسرے انسانوں کے تعاون کا محتاج ہے، اس قضیہ کے پیش نظر ہر انسان کا یہ عقلی و طبعی حق بنتا ہے کہ دوسرااس کی مدد کرے،اس کے حقوق و فرائض کا لحاظ رکھے۔
حقوق انسانی اوراسلامی بھائی چارہ :
قرآن کریم نے ایمان والوں کو بھائی سے تعبیر فرمایا ہے، ارشادِ ربانی ہے : "إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ۔‘‘ (الحجرات:۱۰ ) ترجمہ:’’مسلمان آپس میں ایک دُوسرے کے بھائی ہیں‘‘۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اخوتِ اسلامی اور اُس کے حقوق کے بارے میں ارشاد فرمایا: "الْمُسْلِمُ أَخُوْ الْمُسلِمِ، لَا یَظْلِمُہٗ وَلَا یَخْذُلُہٗ، وَلَا یَحْقِرُہٗ۔ اَلتَّقْوٰی ھَاہُنَا وَیُشِیْرُ إِلٰی صَدْرِہِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ یَّحْقِرَ أَخَاہُ الْمُسلِمَ، کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ، دَمُہٗ، وَمَالُہٗ، وَعِرْضُہٗ۔‘‘ (صحیح مسلم،ج:۲،ص: ۳۱۷، باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ واحتقارہ)
ترجمہ: ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، اُس پر نہ ظلم کرتا ہے اور نہ اُسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے اور نہ اُسے حقیر جانتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قلب مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین بار یہ الفاظ فرمائے: تقویٰ کی جگہ یہ ہے۔ کسی شخص کے برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے۔ ہر مسلمان پر دُوسرے مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہے۔‘‘
گویا کہ اُخوت و محبت کی بنیاد ایمان اور اسلام ہے، یعنی سب کا ایک رب، ایک رسول، ایک کتاب، ایک قبلہ اور ایک دین ہے جو کہ دینِ اسلام ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی ایمان و تقویٰ کو فضیلت کی بنیاد بھی قرار دیا ہے اور یہ بتلادیا کہ انسان رنگ و نسل اور قوم و قبیلہ کے اعتبار سے نہیں، بلکہ ایمان اور تقویٰ جیسی اعلیٰ صفات سے دوسروں پر فوقیت حاصل کرتا ہے اور قوم و قبیلے صرف تعارف اور جان پہچان کے لیے ہیں، ارشادِ خداوندی ہے:
" یٰٓأَیُّھَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّأُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ أَتْقٰکُمْ إِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۔‘‘ (الحجرات: ۱۳)
ترجمہ: ’’اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں مختلف شاخیں اور مختلف قبیلے بنایا، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو، اُس کے نزدیک تو تم میں سب سے بڑا عزت والا وہ ہے جو تم سب میں بڑا پرہیزگار ہے، بے شک اللہ سب کو جانتا ہے اور سب کے حال سے باخبر ہے۔‘‘
مندرجہ بالا آیات و احادیث سے واضح ہے کہ اللہ اور اُس کے رسول a نے اُخوت کی بنیاد اسلام اور ایمان کو قرار دیا، کیوں کہ ایمان کی بنیاد مضبوط اور دائمی ہے، لہٰذا اس بنیاد پر قائم ہونے والی اُخوت کی عمارت بھی مضبوط اور دائمی ہوگی۔
اسلام ایک عالمی دین ہے اور اُس کے ماننے والے عرب ہوں یا عجم، گورے ہوں یا کالے، کسی قوم یا قبیلے سے تعلق رکھتے ہوں، مختلف زبانیں بولنے والے ہوں، سب بھائی بھائی ہیں اور اُن کی اس اُخوت کی بنیاد ہی ایمانی رشتہ ہے اور اس کے بالمقابل دُوسری جتنی اُخوت کی بنیادیں ہیں، سب کمزور ہیں اور اُن کا دائرہ نہایت محدود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی اور سنہری دور میں جب بھی ان بنیادوں کا آپس میں تقابل و تصادم ہوا تو اُخوتِ اسلامیہ کی بنیاد ہمیشہ غالب رہی۔
آج بھی مشرق و مغرب اور دُنیا کے گوشے گوشے سے آئے ہوئے مسلمان جب موسم حج میں سرزمین مقدس حرمین شریفین میں جمع ہوتے ہیں تو ایک دُوسرے سے اس گرم جوشی سے ملتے ہیں جیسے برسوں سے ایک دُوسرے کو جانتے ہوں، بلکہ بعضوں کو اس مسرت سے روتے ہوئے دیکھا جاتا ہے کہ حیرانی ہوتی ہے،حالاں کہ اُن کی زبانیں، اُن کے رنگ اور اُن کی عادات مختلف ہوتی ہیں، لیکن اس سب کے باوجود جو چیز اُن کے دلوں کو مضبوطی سے جوڑے ہوئے ہے، وہ ایمان اور اسلام کی مضبوط رسی ہے۔
اُمت میں اُخوتِ اسلامی پیدا کرنے کے لیے محبت، اخلاص، وحدت اور خیر خواہی جیسی صفات لازمی ہیں، جو اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑی نعمت شمار ہوتی ہیں۔ قرآن کریم نے اس صفت کو بطور نعمت ذکر فرمایا ہے، ارشادِ خداوندی ہے: "وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ إِذْکُنْتُمْ أَعْدَائً فَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖ إِخْوَانًا۔‘‘ (آلِ عمران: ۱۰۳)
ترجمہ: ’’اور اس کے اس احسان کو یاد کرو جو اُس نے تم پر کیا ہے جب کہ تم آپس میں ایک دُوسرے کے سخت دُشمن تھے، پھر اُس نے تمہارے دلوں میں اُلفت پیدا کردی، تم اُس کے فضل سے آپس میں بھائی بھائی ہوگئے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان والوں کے آپس کے تعلقات اور اُخوت و محبت کو ایک جسم کے مختلف اعضاء سے تشبیہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:’مثل المؤمنین فی توادھم و تراحمہم و تعاطفہم کمثل الجسد إذا اشتکی عضوا تداعی لہٗ سائر جسدہٖ بالسہر والحمٰی۔‘‘ (صحیح البخاری،ج:۲،ص: ۸۸۸، حدیث: ۶۰۳۶،باب رحمۃ الناس والبہائم )
ترجمہ: ’’ایمان والوں کی آپس کی محبت، رحم دلی اور شفقت کی مثال ایک انسانی جسم جیسی ہے کہ اگر جسم کا کوئی حصہ تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے تو (وہ تکلیف صرف اُسی حصہ میں منحصر نہیں رہتی، بلکہ اُس سے) پورا جسم متأثر ہوتا ہے، پورا جسم جاگتا ہے اور بخار و بے خوابی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔‘‘
مسلمان دُنیا کے کسی خطۂ زمین میں آباد ہوں‘ وہ اُمتِ اسلامیہ کا ایک جزو ہیں۔ اگر وہ آرام و سکون کی زندگی بسر کررہے ہیں تو پوری اُمت پُرسکون ہوگی اور اگر وہ کسی مصیبت یا ظلم کا شکار ہیں تو اُن کی تکلیف سے پوری اُمت بے چین اور تکلیف میں ہوگی اور اس صورت میں لازماً وہ اس کے ازالہ کی فکر کرے گی اور اُس کے لیے ہر ممکن وسائل اختیار کرے گی۔
اُمت کا اتحاد اور اُخوت کا یہ رشتہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول a کو بہت عزیز ہے، اسی لیے قرآن کریم اور احادیثِ نبویہ میں جا بجا اُس پر بہت زور دیا گیا ہے اور اختلافات اور تفریق سے روکاگیا ہے۔ اسلام نے اس اُخوت کو قائم رکھنے اور اسے مضبوط سے مضبوط تر بنانے کا حکم دیا ہے اور ایسے تمام اسباب اور تصرفات سے روکا ہے جو اُسے نقصان پہنچا سکتے ہیں، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا۔‘‘ (آلِ عمران: ۱۰۳) ترجمہ: ’’اور مضبوط پکڑو اللہ کی رسی کو سب مل کر اور پھوٹ نہ ڈالو۔‘‘
اُمت کے اتحاد اور اُخوت کے رشتہ کو مضبوط رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اللہ کی رسی یعنی قرآن مجید اور اُس کی تعلیمات کو مضبوطی سے پکڑیں، وہ تعلیمات جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و عمل سے اُمت کے سامنے پیش فرمایا ہے، اُس پر ایمان لائیں اور اُس کی ہدایات پر چلیں اور نبی کریم a کی سنت اور سلف صالحین کے راستہ پر چلیں، یہی کامیابی کا راستہ ہے اور اسی سے اُمت میں اتحاد اور اُخوت کا رشتہ مضبوط ہوگا۔
یہ رسی ٹوٹ تو نہیں سکتی، ہاں! چھوٹ سکتی ہے، اگر سب مل کر اس کو پوری قوت سے پکڑے رہیں گے تو کوئی شیطان شر انگیزی میں کامیاب نہ ہوسکے گا اور انفرادی زندگی کی طرح مسلم قوم کی اجتماعی قوت بھی غیر متزلزل اور ناقابلِ اختلاف ہوجائے گی۔ قرآن کریم سے تمسک کرنا ہی وہ چیز ہے جس سے بکھری ہوئی قوتیں جمع ہوتی ہیں اور ایک مردہ قوم نئی زندگی حاصل کرتی ہے۔
اُخوتِ اسلامی کا تقاضا یہ ہے کہ ایک مسلمان دُوسرے مسلمان بھائی کا خیر خواہ ہو، جو بھلائی وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے، وہی اپنے بھائی کے لیے بھی پسند کرے اور جو اپنے لیے ناپسند کرتا ہے، وہ اپنے بھائی کے لیے بھی ناپسند کرے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’لایؤمن أحدُکم حتی یحب لأخیہ مایحب لنفسہٖ۔‘‘ (صحیح البخاری،ج:۱،ص: ۶، حدیث:۱۳)
ترجمہ: ’’تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک کامل ایمان والا نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘
اُخوتِ اسلامی کو مضبوط کرنے کے لیے ایک اہم وسیلہ آپس میں محبت کے ساتھ ملنا ملانا اور ایک دُوسرے کو دُعاء و سلام دینا بھی ہے، جس سے دل صاف ہوتے ہیں اور محبت بڑھ کر اُخوتِ اسلامی میں قوت کا ذریعہ بنتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
" لن تدخلوا الجنۃ حتی تؤمنوا ولن تؤمنوا حتی تحابوا أَوَ لا أدلکم علی شئی لو فعلتموہ تحاببتم ، أفشوا السلامَ بینکم۔‘‘ (صحیح مسلم،ج:۱،ص: ۵۴، باب بیان لایدخل الجنۃ الاالمؤمنون)
ترجمہ:’’تم ہرگز جنت میں نہیں جاسکتے جب تک کہ ایمان نہ لے آؤ۔ اور اُس وقت تک تم ایمان والے نہیں بن سکتے، جب تک کہ ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ اگر تم اُسے بجالاؤ تو آپس میں محبت کرنے لگو؟ (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا آپس میں کثرت سے سلام پھیلاؤ۔‘‘
اُخوتِ اسلامی کو نقصان پہنچانے والی چیزوں میں ایک دوسرے کو حقیر جاننا اور اس کا مذاق اُڑانا بھی ہے، اس لیے قرآن کریم نے اس سے بھی ایمان والوں کو روکا ہے، ارشادِ خداوندی ہے:
’’یٰأَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰی أَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْہُمْ وَلَا نِسَائٌ مِّنْ نِّسَائٍ عَسٰی أَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْھُنَّ وَلَا تَلْمِزُوْا أَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْإِیْمَانِ وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَأُولٰئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ۔‘‘ (الحجرات:۱۱)
ترجمہ:’’اے ایمان والو! نہ تو مردوں کی کوئی جماعت دُوسرے مردوں کی کسی جماعت کامذاق اُڑائے، کیا عجب ہے کہ جو لوگ مذاق اُڑارہے ہیں اُن سے وہ لوگ بہتر ہوں جن کا مذاق اُڑایا جارہا ہے۔ اور نہ عورتوں کو عورتوں پر ہنسنا چاہیے، یہ ممکن ہے کہ جو عورتیں ہنسی اُڑانے والی ہیں، اُن سے وہ عورتیں بہتر ہوں جن کی ہنسی اُڑائی جارہی ہے اور نہ آپس میں ایک دُوسرے کو طعنہ دیا کرو اور نہ ایک دُوسرے کو برے لقب سے پکارا کرو۔ ایمان لانے کے بعد فسق کا نام بہت برا ہے اور جو توبہ نہ کریں گے تو وہی لوگ ظلم کرنے والے ہوں گے۔‘‘
اگر دو مسلمان بھائیوں یا دو مسلمان جماعتوں میں اختلاف اور جھگڑے کی صورت پیدا ہوجائے تو مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ ان دونوں میں صلح کرانے کی کوشش کریں۔ ارشادِ خداوندی ہے:’إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ فَأَصْلِحُوْا بَیْنَ أَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوْا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ۔‘‘ (الحجرات:۱۰)ترجمہ:’’ ایمان والے آپس میں بھائی بھائی ہیں، تم اپنے بھائیوں میں صلح کرادیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘
عام انسانی حقوق:
انسانی تکریم:
اللہ کے نذدیک سبھی انسان مکرم ہیں تعظیم وتکریم کا انحصار صرف مسلمانوں پر نہیں ہے۔سب کو زندگی اور موت دینے والا ایک ہی خدا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے : يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ فِي أَيِّ صُورَةٍ مَا شَاءَ رَكَّبك، (الانفطار:6-8) اے انسان تجھے اپنے رب کریم سے کس چیز نے بہکایا، جس نے تجھے پیدا کیا پھر درست اور برابر بنایا، جس صورت میں چاہا جوڑ دیا۔ دوسری آیت کریمہ ہے :َ لقَدْ خَلَقْنَا ٱلإِنسَان فِى أَحْسَنِ تَقْوِيم۔ ہم نے انسان کو اچھے ڈھانچہ میں ڈھالا۔
تحفظ آزادی:
اسلامی معاشرہ میں چونکہ ہر فرد کو مساوی حقوق حاصل ہیں کسی کا کسی پر بیجا دباؤ نہیں، ہر ایک آزاد اور خود مختار ہے اس لیے اسلام نے انسان کی شخصی آزادی کی بقاء کے لیے انسان کی نجی اور پرائیویٹ زندگی میں مداخلت سے دوسروں کو روکا ہے اور خواہ مخواہ کی دخل اندازی ٹوہ بازی اور بلا اجازت کسی کے گھر میں دخول سے منع کیا ہے۔ ارشاد حق ہے: مومنو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے (لوگوں) کے گھروں میں گھروالوں سے اجازت لیے اور ان کو سلام کیے بغیر داخل نہ ہواکرو۔اسلام نے عام انسان مسلم و غیر مسلم سبھی کوشخصی دینی شہری غیر شہری سماجی سیاسی ہر طرح کے آزاپانہ مساویانہ حقوق فراہم کیا ہے۔ اسلام سے پہلے انسان کی دو صنفیں تھیں آزاد اور غلام ۔غلام جانوروں اور چیزوں کی طرح بازاروں میں فروخت کیے جاتے۔ اسلام نے انسان کو غلامی سے آزادکیا۔جو جس دین پر ہے اس پر کوئی زور زبردستی نہیں کہ اسلام قبول کرے۔ لا اکراہ فی الدین ۔اسی طرح قرآن میں ہے لکم دینکم ولی دین۔
جان کی حفاظت:
یہ انسانی حقوق میں سب سے پہلا اور بنیادی حق ہے اس لیے کہ جان سب سے قیمتی اثاثہ ہے، اس کے اردگرد زندگی کی سرگرمیاں گھومتی ہیں، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہ تھی، سب سے پہلے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان وحشی درندوں کو انسانی جان کا احترام سکھایا، اور ایک جان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیا۔ قرآن پاک میں بھی اس کی تائید کی گئی چنانچہ ارشاد باری ہے:" مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا" ( سورہ مائدہ ۳۲) جو شخص کسی کو (ناحق) قتل کرے گا (یعنی) بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے، یا ملک میں خرابی کرنے کی سزا دی جائے اس نے گویا تمام لوگوں کا قتل کیا، اور جو اس کی زندگی کا موجب ہوا تو گویا تمام لوگوں کی زندگانی کا موجب ہوا۔ اسی طرح ارشاد نبوی ہے: رحم کرنے والوں پر اللہ رحم کرتا ہے، تم زمین والوں پر رحم کرو تم پر آسمان والا رحم کرے گا۔ دوسری حدیث میں ارشاد ہے: اللہ اس شخص پر رحم نہیں کرتا جو انسانوں پر رحم نہ کرے۔ اور مال کے تحفظ کو یوں موکد کیاگیا ہے، ارشاد ربانی: اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ، واضح رہے کہ انسانی زندگی کی بقاء کے لیے مال بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
مال کی حفاظت:
مالوں کی حفاظت کرنا فرض ہے چاہے مسلمانوں کا مال ہو یا غیر مسلموں کا، اگر کسی نے کسی کا مال چوری کیا اب چاہے مسلم ہو یا غیر مسلم چوری کی سزا کا حقدار ہوگا۔ قرآن میں ہے : ﴿ وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴾ [المائدة: 38].
عزت کی حفاظت:
جس طرح حق زندگی اور تحفظ مال، انسان کے بنیادی حقوق ہیں، اسی طرح عزت وآبرو کا تحفظ بھی انسان کا بنیادی حق ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے، ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے۔ اورعزت کا حق برارہے چاہے مسلمانوں کی عزت ہو یا غیر مسلموں کی ۔جس نے بھی زنا کیا سزا کا برابر مستحق ہوگا ،مسلم اور غیر مسلم مین کچھ فرق نہ کیا جائے گا۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْكُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴾.
انسانی اخوت ومساوات:
محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے رنگ ونسل، قومیت ووطنیت، اور اونچ نیچ کے سارے امتیازات کا یکسر خاتمہ کرکے ایک عالمگیر مساوات کا آفاقی تصور پیش کیا، اور ببانگ دُہل یہ اعلان کردیا کہ سب انسان آدم کی اولاد ہیں، لہٰذا سب کا درجہ مساوی ہے، حجة الوداع کے موقع پر سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تاریخی خطبہ میں جن بنیادی انسانی حقوق سے وصیت وہدایت فرمائی ان میں انسانی وحدت ومساوات کامسئلہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے، ارشاد نبوی ہے:
اے لوگو! یقینا تمہارا پروردگار ایک ہے، تمہارے باپ بھی ایک ہیں، تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے، یقینا تم میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہ شخص ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی اورپاک باز ہو، کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی برتری نہیں مگر تقویٰ کی بنا پر، اور فتح مکہ کے موقع پر ایک اہم خطبہ میں اسی طرح کا حکم ارشاد فرمایا۔ اسی طرح ارشاد ربانی ہے: لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا (یعنی اوّل) اور اس سے اس کا جوڑا بنایا، پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد وعورت (پیدا کرکے روئے زمین پر) پھیلادئیے، دوسری جگہ ارشاد ہے: لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قوم اور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو، اور خدا کے نزدیک تم میں سے قابل اکرام اور عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو۔
عورتوں، بچوں، غلاموں، یتیموں اور حاجتمندوں کے حقوق:
اعلان نبوت سے قبل عورتوں کی حالت بڑی ناگفتہ بہ تھی، معاشرہ میں اس کی حیثیت سامان لذت سے کچھ زیادہ نہ تھی، معاشی، سماجی ہرلحاظ سے بے بس تھی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سسکتی، بلکتی عورت کی فریاد رسی کی اس کے حقیقی مقام کومتعین فرمایا: چنانچہ حجة الوداع کے موقع پر ان کے حقوق کو بھی تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا۔ اسی طرح قبل از اسلام اسقاط حمل اور دختر کشی کی رسم عروج پر تھی، اسلام نے سختی کے ساتھ اس گھناؤنے فعل سے منع کیا۔ ارشاد ہے: اپنی اولاد کو فقر وفاقہ کے خوف سے نہ قتل کرو، ان کو اور تم کو روزی ہم ہی دیتے ہیں۔ یقینا یہ بڑا گناہ ہے۔ زمانہ جاہلیت میں غلاموں اور غریبوں کے حقوق بھی روندے، پامال کیے جاتے انہیں حقارت وذلت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، اسلام نے انہیں بھی اتنے حقوق دئیے کہ ان کی سطح زندگی بلند کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔
اسی طرح قرآن واحدیث میں بندوں کے عائلی سماجی حقوق کے بارے بے شمار جگہوں پر تعلیمات وارد ہوئی ہیں ۔والدین کے حقوق، اولاد کے حقوق، میاں بیوی کے حقوق، رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے حقوق۔ ان ساری اخلاقیات کی تعلیم مدارس اسلامیہ میں خصوصی کے ساتھ دی جاتی ہے۔
حقوق انسانی کی ارتقائی تاریخ کا مختصر جائزہ: حقوق انسانی پر کتاب وسنت کی روشنی میں اجمالی بحث کرنے کے بعد ان حقوق کی ارتقائی تاریخ کا مختصر جائزہ لینا بے محل نہ ہوگا تاکہ حقیقت کھل کر سامنے آجائے، اور آج ترقی یافتہ ممالک یورپ و امریکہ جو انسانی حقوق کی رٹ لگاتے نہیں تھکتے، یہ جان جائے کہ انسانی حقوق کے جس کھوکھلے تصور تک وہ اب پہنچا ہے اس سے کہیں زیادہ جامع اور واضح تصور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سوسال قبل پیش کردیا تھا۔ خطبہٴ حجة الوداع کے اندر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی شدومد اور تاکید کے ساتھ حقوق انسانی ہی کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔
”صنعتی انقلاب کے آغاز سے مغرب میں حقوق انسانی کا شعور پیدا ہوا کہ انسان کے بھی بحیثیت انسان ہونے کے چند فطری حقوق ہوتے ہیں جن سے کسی بھی فرد کو محروم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ انسانی حقوق کا شعور بیسویں صدی کے شروع میں نمودار ہوا اور انقلابِ فرانس کا اہم جزو قرار پایا، اس میں قوم کی حاکمیت، آزادی، مساوات اور ملکیت جیسی فطری حقوق وغیرہ کا اثبات کیاگیا تھا، تدریجاً حقوق انسانی کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا، اور اخیر میں حقوقِ انسانی کا عالمی منشور سامنے آیا، دسمبر ۱۹۴۶/ میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک ریزرویشن پاس کیا جس میں انسانوں کی نسل کشی کو ایک بین الاقوامی جرم قرار دیاگیا۔ ۱۹۴۸/ میں نسل کشی کے انسداد کیلئے ایک قرار داد پاس کی گئی اور ۱۲/جنوری ۱۹۸۱/ میں نفاذ ہوا۔
سطور بالا میں دور حاضر کے انسانی حقوق کے ارتقاء کا جو سرسری جائزہ لیاگیا ہے اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مغرب میں حقوق انسانی کے تصور کی دو تین صدیوں قبل کوئی تاریخ نہیں ہے۔ جبکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال پہلے ہی حقوق انسانی کا ایک جامع تصور انسانیت کے سامنے پیش کرکے بذاتِ خود اسے عملی جامہ پہناکر ایک صالح معاشرہ کی تشکیل کی۔
مدارس اسلامیہ کے نصابوں میں نحو وصرف فقہ حساب تاریخ سائنس عربی انگریزی وغیرہ کے علاوہ قرآن واحادیث کے مندرج بالا چیپٹر جن کا میں نے اجمالا ذکر کیا ہے خوب شدومد کے ساتھ پڑھائے جاتے ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مدارس اسلامیہ کے درسگاہوں میں حقوق انسان اور بھائی چارہ کے جو مضامین پڑھائے جاتے ہیں وہ دنیا کے کسی کالج یا یونیورسٹی کے نصاب میں نہیں ہیں۔ اخیر میں دعا گو ہوں اللہ مدارس اسلامیہ کو دن دونی رات ترقی عطا فرمائے اور تاقیامت علم وہنر کا یہ گہوارہ جہاں بھی قائم ہے آباد رہے۔آمین بجاہ سید المرسلین ﷺَ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے