بینک کی زائد رقم پر قربانی واجب ہے؟



بینک کی زائد رقم پر قربانی واجب ہے؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ
کیا فرماتے ہیں علماےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید نے بینک میں ایف ڈی اے کروا رکھی ہے اور اس کی میعاد مکمل بھی ہو چکی ہے اور وہ رقم ملک نصاب تک پہنچ گئی ہے، لیکن ہاتھ میں ابھی پیسے نہیں آئے ہیں تو کیا زید پر قربانی واجب ہوگی یا نہیں؟ مع حوالہ جواب عنایت فرمائیں۔
محمد عمر رضا، کوٹا، راجستھان

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ:
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
(F.D.A) فکسڈ ڈپوزٹ اکاؤنٹ میں جمع شدہ رقم پر جو زائد رقم ملتی ہے، وہ ابھی ہاتھ نہیں آئی اور اس پر ابھی زید کا قبضہ نہیں ہوا ہے تو زید پر قربانی واجب نہیں اگر چہ وہ رقم ملک نصاب کو پہنچ رہی ہو ؛ اس لیے کہ بینک کی جانب سے ملنے والی زائد رقم قبضہ کے بغیر زید کی مملوک نہیں، اور صرف لیجر بک میں اندراج کی صورت میں قبضہ متحقق نہیں ہوتا۔ جدید مسائل پر علما کی رائیں اور فیصلے میں ہے: راس المال سے زائد جو نفع ملتا ہے وہ مال مباح ہے اور وہ مسلم کے قبضہ کے بغیر اس کا مملوک نہیں ہوتا، اور صرف لیجر بک میں لکھ دینے سے کھاتے دار کا اس پر قبضہ متحقق نہ ہوا، اس لیے کہ قبضہ کی جو حقیقی، حکمی، مجازی صورتیں کتب فقہ میں بیان ہوئی ہیں، یہ ان میں سے کسی صورت میں نہیں آتا۔ ہاں! لکھ دینے کی وجہ سے کھاتے دار کو یہ حق مل جاتا ہے کہ جب چاہے وہ اسے بینک سے نکال کر اپنے قبضہ میں لےلے۔ ( جدید مسائل پر علما کی رائیں اور فیصلے، ج: ۱، ص؛ ۲۴۶)
ہاں! فکسڈ ڈپوزٹ اکاؤنٹ میں کھاتے دار نے جو رقم جمع کی ہے، اگر وہ رقم ملک نصاب کو پہنچتی ہے اور غالب گمان ہو کہ ایام قربانی میں بینک سے رقم حاصل ہو جائے گی تو زید پر لازم ہے کہ بینک سے اتنی رقم حاصل کرے جس سے قربانی کا جانور خرید سکے۔ اور اگر قربانی کے دنوں میں ملنے کی امید نہ ہو اور نہ اس کے پاس اتنا مال ہو جس سے قربانی کا جانور خرید سکے تو اس پر قربانی واجب نہیں۔ اسی میں ہے: بینک میں جو مال جمع ہے تو وہ دین قوی ہے، اس پر زکات فی الحال واجب ہے، اگر چہ وجوب ادا خمس نصاب پر قبضہ کے بعد ہوگا۔ ( ایضا)
بدائع الصنائع میں ہے: وَكَذَا لَوْ كَانَ لَهُ مَالٌ غَائِبٌ لَا يَصِلُ إلَيْهِ فِي أَيَّامِ النَّحْرِ لِأَنَّهُ فَقِيرٌ وَقْتَ غَيْبَةِ الْمَالِ حَتَّى تَحِلَّ لَهُ الصَّدَقَةُ بِخِلَافِ الزَّكَاةِ فَإِنَّهَا تَجِبُ عَلَيْهِ؛ لِأَنَّ جَمِيعَ الْعُمُرِ وَقْتُ الزَّكَاةِ وَهَذِهِ قُرْبَةٌ مُوَقَّتَةٌ فَيُعْتَبَرُ الْغِنَى فِي وَقْتِهَا وَلَا يُشْتَرَطُ أَنْ يَكُونَ غَنِيًّا فِي جَمِيعِ الْوَقْتِ حَتَّى لَوْ كَانَ فَقِيرًا فِي أَوَّلِ الْوَقْتِ ثُمَّ أَيْسَرَ فِي آخِرِهِ يَجِبُ عَلَيْهِ لِمَا ذَكَرْنَا. ( بدائع الصنائع، فصل فی شرائظ وجوب فی الاضحیۃ، ج: ۵، ص: ۶۴)
یعنی اسی طرح اس شخص پر قربانی واجب نہیں جس کے پاس مال غائب تھا جو ایام نحر میں اس تک نہیں پہنچا؛ اس لیے کہ وہ مال غائب ہونے کے وقت فقیر ہے یہاں تک کہ اس کے لیے صدقہ حلال ہے، بر خلاف زکات کے ۔ زکات بلاشبہ واجب ہوگی؛ اس لیے کہ زکات کا وقت پوری زندگی ہے۔ اور اضحیہ یعنی قربانی ہے ایک وقت بندھی عبادت ہے تو اس کے وقت میں ہی مال داری کا اعتبار ہوگا۔ اور پورے وقت میں مال دار ہونا شرط نہیں ہے یہاں تک کہ اگر کوئی اول وقت میں فقیر تھا پھر آخر وقت میں مال دار ہوگیا تو اس پر قربانی واجب ہے۔
فتاوی بزازیہ میں ہے: له دین حال علی مقر ولیس عندہ مایشتریھا به لایلزمه الاستقراض ولا قیمة الأضحیة إذا وصل الدین إلیه ولکن یلزمه أن یسأل منه ثمن الأضحیة إذا غلب علی ظنه أنه یعطیه. ( الفتاوی البزازیہ، ج: ۲، ص: ۴۰۶)
ترجمہ: صاحب نصاب کا ایسے شخص پر فوری قرض ہے، جس کاوہ اقرار بھی کرتاہے اور صاحب نصاب کے پاس کوئی ایسی شے نہیں کہ جس سے وہ قربانی کا جانور خرید سکے، تو اس پر قرض لینالازم نہیں اور نہ ہی قرض واپس ملنے پر قربانی کے جانور کی قیمت صدقہ کرنالازم ہے ،لیکن اس کے لیے قربانی کی قیمت جتنی رقم کاسوال کرنا لازم ہے، جب کہ ظن غالب ہو کہ وہ دے دے گا۔
حاصل یہ کہ صورت مسئولہ میں جمع شدہ رقم پر ملنے والی زائد رقم کی وجہ سے زید پر قربانی واجب نہیں۔ واللہ تعالی اعلم
محمد اظہارالنبی حسینی
خادم مرکزی ادارہ شرعیہ نیپال، جنک پور دھام
۸؍ ذی الحجہ ۱۴۴۲ھ
۱۹؍ جولائی ۲۰۲۱ء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے