طلاق کا مطالبہ کرنا کیسا ہے اور خلع کس کو کہتے ہیں؟



طلاق کا مطالبہ کرنا کیسا ہے اور خلع کس کو کہتے ہیں؟
کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان عظام مسئلہ ذیل میں کہ
زید نے ہندہ سے شادی کی اور شادی کو نو مہینے ہو چکے ہیں۔ ہندہ زید سے طلاق کا مطالبہ کرتی رہی، لیکن زید طلاق دینے کے لیے تیار نہیں ہوا اور ہندہ زید سے بار بار مطالبہ کرتی رہی تو کیا زید ہندہ کو اب طلاق دے سکتا ہے اور ہندہ زید کی شادی کا خرچ دے سکتی ہے؟ زید نے شادی میں دین مہر کی رقم ادا کر دیا تھا تو اب زید دین مہر کی رقم دے سکتا ہے؟
مولانا سرفراز حشمتی، نیپال

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ:
کسی عورت کا بلا وجہ طلاق کا مطالبہ کرنا حرام ہے۔ سنن ابو داؤد میں ہے: عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « أَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلاَقًا فِى غَيْرِ مَا بَأْسٍ فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّةِ » (سنن ابو داؤد، کتاب الطلاق، باب فی الخلع، ح: ۲۲۲۸)
یعنی حضرت ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے،حضور اقدس ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’ جو عورت اپنے شوہر سے بلا وجہ طلاق کا مطالبہ کرے تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔
اگر میاں بیوی میں نا اتفاقی رہتی ہو تو سب سے پہلے میاں بیوی کے گھروالے ان میں صلح صفائی کی کوشش کریں جیسا کہ سورہ نساء آیت 35میں ہے:وَ اِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوْا حَكَمًا مِّنْ اَهْلِهٖ وَ حَكَمًا مِّنْ اَهْلِهَا١ۚ یعنی مردو عورت دونوں کی طرف سے پنچ مقرر کیا جائے جو ان کے درمیان صلح صفائی دے لیکن اگر اس کے باوجود آپس میں نہ بنے اور یہ اندیشہ ہو کہ احکام شرعیہ کی پابندی نہ کرسکیں گےاور شوہر رضاکارانہ طور پر طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو تو لڑکی اپنا حق خلع استعمال کر سکتی ہے، خلع میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ مال کے بدلے میں نکاح زائل کرنے کو خلع کہتے ہیں۔ اور جب خلع کر لیں تو طلاق بائن واقع ہو جائے گی اور جو مال طے کیا ہو عورت پر اُس کی ادائیگی لازم ہو جاتی ہے۔ قرآن پاک میں ہے: فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِۙ-فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖ.( سورۃ البقرۃ، آیت: ۲۲۹)
ترجمہ: پھر اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں ٹھیک انہیں حدوں پر نہ رہیں گے تو ان پر کچھ گناہ نہیں اس میں جو بدلہ دے کر عورت چھٹی لے۔
حدیث مبارکہ میں ہے: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ امْرَأَةَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ، مَا أَعْتِبُ عَلَيْهِ فِي خُلُقٍ وَلاَ دِينٍ، وَلَكِنِّي أَكْرَهُ الكُفْرَ فِي الإِسْلاَمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ؟» قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اقْبَلِ الحَدِيقَةَ وَطَلِّقْهَا تَطْلِيقَةً» (صحيح البخاري، كتاب الطلاق، باب الخلع و كيف الطلاق فيه، ح: ۵۲۷۳)
یعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالی عنہ کی بیوی نبی اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں آ کر کہنے لگی یا رسول اﷲمیں نہ ثابت بن قیس کے اخلاق سے ناراض ہوں اور نہ ان کے دین پر عیب لگاتی ہوں، مگر میں اسلام میں آ کر کفرانِ نعمت پسند نہیں کرتی۔ حضور ﷺ نے فرمایا: ان کا باغ (جو حق مہر میں تم نے لیا تھا) واپس کرو گی؟ وہ بولیں جی ہاں۔ رسول اﷲ ﷺنے فرمایا: باغ لو اور اسے ایک طلاق دے دو۔
اگر شوہر کی طرف سے زیادتی ہو تو خلع پر مطلقا عوض لینا مکروہ ہےلیکن اگر لے گا تو لینا جائز ہوگا اور اگر زیادتی عورت کی طرف سے ہو تو جتنا مہر میں دیا ہے اس سے زیادہ لینا مکروہ پھر بھی اگر زیادہ لے گا تو قضاءً جائز ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے: إذَا تَشَاقَّ الزَّوْجَانِ وَخَافَا أَنْ لَا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا بَأْسَ بِأَنْ تَفْتَدِيَ نَفْسَهَا مِنْهُ بِمَالٍ يَخْلَعُهَا بِهِ فَإِذَا فَعَلَا ذَلِكَ وَقَعَتْ تَطْلِيقَةٌ بَائِنَةٌ وَلَزِمَهَا الْمَالُ كَذَا فِي الْهِدَايَةِ.
إنْ كَانَ النُّشُوزُ مِنْ قِبَلِ الزَّوْجِ فَلَا يَحِلُّ لَهُ أَخْذُ شَيْءٍ مِنْ الْعِوَضِ عَلَى الْخُلْعِ وَهَذَا حُكْمُ الدِّيَانَةِ فَإِنْ أَخَذَ جَازَ ذَلِكَ فِي الْحُكْمُ وَلَزِمَ حَتَّى لَا تَمْلِكَ اسْتِرْدَادَهُ كَذَا فِي الْبَدَائِعِ.
وَإِنْ كَانَ النُّشُوزُ مِنْ قِبَلِهَا كَرِهْنَا لَهُ أَنْ يَأْخُذَ أَكْثَرَ مِمَّا أَعْطَاهَا مِنْ الْمَهْرِ وَلَكِنْ مَعَ هَذَا يَجُوزُ أَخْذُ الزِّيَادَةِ فِي الْقَضَاءِ كَذَا فِي غَايَةِ الْبَيَانِ. (الفتاوی الهندية، كتاب الطلاق، الْبَابُ الثَّامِنُ، الْفَصْلُ الْأَوَّلُ فِي شَرَائِطِ الْخُلْعِ وَحُكْمِهِ وَمَا يَتَعَلَّقُ بِهِ، ج: ۱، ص: ۴۸۸)

جیساکہ سوال میں ذکر ہے کہ ہندہ مسلسل طلاق کا مطالبہ کر رہی ہے اور شوہر طلاق نہیں دیتا تو ہندہ حق خلع کا استعمال کرے اور کچھ لین دین کر کے شوہر کو طلاق دینے پر راضی کرے۔ اور جب شوہر مال کے بدلے خلع دے دے تو ایک طلاق بائنہ واقع ہوگی اور عورت پر مال دینا لازم ہوجائے گا۔ ہدایہ اولین میں ہے: فإذا فعلا ذلك وقع بالخلع تطليقة بائنة ولزمها المال " لقوله عليه الصلاة والسلام: " الخلع تطليقة بائنة نفسها ".( ہدایہ، باب الخلع، ص: ۲۶۱)
اور جب زید مہر کی رقم شادی کے موقع پر ادا کر چکا ہے تو اب اس پر کچھ لازم نہیں۔ زید سے رقم کا مطالبہ شریعت کی نظر میں زید پر زیادتی کہلائے گی۔ واللہ تعالی اعلم


محمد اظہارالنبی حسینی
خادم مرکزی ادارہ شرعیہ نیپال، جنک پور دھام


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے