دیہات میں نماز جمعہ اور مجلس شرعی کا فیصلہ



دیہات میں جمعہ سے متعلق مجلس شرعی مبارک پور کا فیصلہ
مجلس شرعی مبارک پور میں قصبات اور بڑی آبادیوں نماز جمعہ کی صحت و اجازت سے متعلق سیمینار میں فیصل بورڈ کا یہ فیصلہ ہے: ’’ اگر وہ پر گنہ ہے اس کے متعلق دیہات ہیں اور ایسی حالت میں ضرور جانب سلطنت سے کوئی حاکم وہاں فصل خصومات و فیصلہ مقدمات کے لئے ہوتا ہے مثلاً تحصیلدار وغیرہ جب تو وہ شہر ہے اور اس میں ادائے جمعہ وعیدین ضرور لازم ، اور ان کا تارک گنہگار وآثم۔ فقد صدق علیہا حد المصر الصحیح المروی فی ظاھر الروایۃ عن الامام الاعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ انھا بلدۃ فیھا سکک واسواق ورساتیق وفیھا وال ۔الخ

(۲) اور اگر وہ پر گنہ نہیں یا وہاں کوئی حاکم فصلِ مقدمات پر مقرر نہیں مگر زمانہ سلطنت اسلام ميں وہ ایسا تھا اور جب سے اس میں جمعہ ہوتا تھا تو اب بھی پڑھا جائے گا۔ صلٰوۃ مسعودی باب ۳۳ میں ہے : جائے راکہ حکم شہر د ادند بعد ازاں خرابی پذیرد آں حکم شہر باقی ماندتا اگر ایشا نائب سلطان باجمع درانجا نماز آدینہ گزارند روابود ۔

(۳) اور اگر یہ دونوں صورتیں نہیں تو مذہب حنفی میں وہاں جمعہ وعیدین نہیں پھر بھی جبکہ مدت سے قائم ہے اسے اکھاڑا نہ جائے گا، نہ لوگوں کوا س سے روکے گا مگر شہرت طلب،قال اﷲ تعالٰی: اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يَنْهٰىۙ۰۰۹ عَبْدًا اِذَا صَلّٰى ؕ۰۰۱۰

ایک روایت نادرہ امام ابویوسف رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ سے یہ آئی ہےکہ جس آبادی میں اتنے مسلمان مرد عاقل بالغ ایسے تندرست جن پر جمعہ فرض ہوسکے آباد ہوں کہ اگر وہ وہاں کی بڑی سے بڑی مسجد میں جمع ہوں تو نہ سما سکیں یہاں تک کہ انھیں جمعہ کے لئے مسجد جامع بنانی پڑے وہ صحتِ جمعہ کےلئے شہر سمجھی جائے گی،امام اکمل الدین بابرتی عنایہ شرح ہدایہ میں فرماتے ہیں:

(وَعَنْهُ) أَيْ عَنْ أَبِي يُوسُفَ (أَنَّهُمْ إذَا اجْتَمَعُوا) أَيْ اجْتَمَعَ مَنْ تَجِبُ عَلَيْهِمْ الْجُمُعَةُ لَا كُلُّ مَنْ يَسْكُنُ فِي ذَلِكَ الْمَوْضِعِ مِنْ الصِّبْيَانِ وَالنِّسَاءِ وَالْعَبِيدِ لِأَنَّ مَنْ تَجِبُ عَلَيْهِمْ مُجْتَمِعُونَ فِيهِ عَادَةً. قَالَ ابْنُ شُجَاعٍ: أَحْسَنُ مَا قِيلَ فِيهِ إذَا كَانَ أَهْلُهَا بِحَيْثُ لَوْ اجْتَمَعُوا فِي أَكْبَرِ مَسَاجِدِهِمْ لَمْ يَسَعْهُمْ ذَلِكَ حَتَّى احْتَاجُوا إلَى بِنَاءِ مَسْجِدٍ آخَرَ لِلْجُمُعَةِ.الخ

جس گاؤں میں یہ حالت پائی جائے اس میں اس روایت نوادر کی بنا پر جمعہ وعیدین ہو سکتے ہیں اگر چہ اصل مذہب کے خلاف ہے مگر اسے بھی ایک جماعتِ متاخرین نے اختیار فرمایا

(۴) اور جہاں یہ بھی نہیں وہاں ہر گز جمعہ خواہ عید مذہب حنفی میں جائز نہیں ہو سکتا بلکہ گناہ ہے،واﷲ یقول الحق وھو یھدی السبیل واﷲ سبحٰنه وتعالی أعلم.

ان عبارتوں کی روشنی میں یہ حکم دیا جاتا ہے کہ:

(۱) جو آبادی عبارت نمبر ا کے مطابق شہر ہے، وہاں جمعہ و عیدین کی اقامت و ادائیگی فرض ہے۔

(۲) اسی طرح عبارت نمبر: ۲ کے مطابق جو مقام پہلے شہر تھا جب سے اب تک وہاں جمعہ ہوتا آیا، لیکن اب وہاں حاکم یا امیر نہیں تو بھی وہاں جمعہ برقرار رکھا جائے گا۔

(۳) جو آبادی عبارت نمبر: ۳ اور روایت نادرہ کے تحت آتی ہےاور وہاں جمعہ ہوتا ہے تو وہاں منع نہ کیا جائے، خصوصا جب کہ عوام و خواص جمعہ میں شریک ہوتے ہیں اور کوئی ترک کرے تو مفسدہ اور فتنہ کا دروازہ کھلے۔

(۴) جو آبادی عبارت نمبر: ۴ کے تحت آتی ہے وہاں جمعہ و عیدین کی ادائیگی مذہب حنفی کی رو سے جائز نہیں مگر عوام پڑھتے ہوں تو روکا نہ جائے اور انھیں بہ نرمی اس کی تلقین کی جائے کہ آپ پر ظہر ہی فرض ہے اور اس کی جماعت واجب ہے۔ واللہ تعالی اعلم۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے