مدرسہ توڑ کر عیدگاہ بنانا کیسا ہے؟



مدرسہ توڑ کر عیدگاہ بنانا کیسا ہے؟
وقف میں تبدیلی کا حکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علم اے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید نے اپنی زمین مدرسہ میں وقف کر دیا اور اس میں تقریبا تیس سالوں سے ایک تاریخ ساز مدرسہ قائم ہے، لیکن ابھی مدرسہ کئی سالوں سے بند ہے۔ اب زید کے پوتا کا کہنا ہے کہ اس مدرسہ کی زمین کو عیدگاہ میں وقف کرتا ہوں اور وہ مدرسہ کو توڑ کر عیدگاہ بنانا چاہتا ہے۔ کیا اس زمین میں عیدگاہ بنانا جائز ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
المستفتی
(مولانا)محمد زہیر عالم
اٹھروا، ہرلاکھی، مدھوبنی، بہار

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ:
اگر کوئی زمین وقف کی گئی اور وقف تام ہوگئی ، تو اب وہ زمین قیامت تک کے لیے واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالی کی ملک ہو گئی۔ اس میں کسی قسم کی تبدیلی جائز نہیں، وقف کرنے والا بذات خود اس میں تبدیلی نہیں کر سکتا۔ جب شریعت نے خود وقف کرنے والے کو تبدیلی کی اجازت نہیں تو اس کے لڑکے کو کہاں سے اجازت ہوگی؟
وقف تام ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ موقوفہ چیز جس مقصد کے لیے وقف کی گئی ہو ، اس میں کم از کم ایک مرتبہ استعمال ہوجائے ، چناں چہ مدرسہ کے لیے وقف کی گئی زمین کا وقف اس وقت تام مانا جائے گا جب اس میں تعلیمی سلسلہ شروع ہوجائے۔
صورت مسئولہ میں جیساکہ بیان کیا گیا ہے کہ زید نے زمین مدرسہ میں وقف کیا اور اس زمین پر تیس سالوں سے ایک مدرسہ قائم ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وقف تام ہو چکا ہے؛ تو اب وہ زمین واقف کی ملک سے نکل کر خالص اللہ کی ملک ہے، اس زمین میں کسی قسم کی تبدیلی جائز نہیں؛ اس لیے زید کےپوتا کا یہ کہنا کہ میں اس مدرسہ کی زمین کو عیدگاہ میں وقف کرتا ہوں درست نہیں، اور نہ ہی ایسا کہنے سے وہ زمین عیدگاہ کے لیے وقف ہوگی نیز اس کا مدرسہ کو توڑ کر عیدگاہ بنانا بھی جائز نہیں اگر چہ مدرسہ کئی سالوں سے بند ہے۔ رد المحتار میں ہے: شرط الواقف كنص الشارع. ( رد المحتار، کتاب الوقف، ج: ۶، ص: ۶۴۹)
یعنی واقف کی شرط شارع کے ارشاد کی طرح اٹل ہے۔
دوسرے مقام پر ہے: مُرَاعَاةُ غَرَضِ الْوَاقِفِينَ وَاجِبَةٌ. (رد المحتار ، کتاب الوقف، ج:۶، ص: ۶۶۵)
یعنی وقف کرنے والوں کے مقصد کی رعایت واجب ہے۔
وقف کے بعد مال وقف کا واقف کی ملکیت سے نکلنے کے حوالے سے درمختار میں ہے: فَإِذَا تَمَّ وَلَزِمَ لَا يُمَلَّكُ وَلَا يُمْلَكُ وَلَا يُعَارُ وَلَا يُرْهَنُ. اس کے تحت ردالمحتار میں ہے: أَيْ لَا يَكُونُ مَمْلُوكًا لِصَاحِبِهِ وَلَا يُمَلَّكُ أَيْ لَا يَقْبَلُ التَّمْلِيكَ لِغَيْرِهِ بِالْبَيْعِ وَنَحْوِهِ لِاسْتِحَالَةِ تَمْلِيكِ الْخَارِجِ عَنْ مِلْكِهِ ، وَلَا يُعَارُ ، وَلَا يُرْهَنُ لِاقْتِضَائِهِمَا الْمِلْكَ. (در مختار مع رد المحتار، كتاب الوقف، ج: ۶، ص: ۵۳۹)
یعنی پس جب وقف مکمل اور لازم ہوجائے تو نہ خود اس کا مالک بنا جاسکتا ہے اور نہ کسی کو مالک بنایا جا سکتا ہے، نہ عاریتہ دیا جا سکتا ہے اور نہ بطور رہن رکھا جا سکتا ہے۔ یعنی وہ (وقف) اپنے مالک کا مملوک نہیں ہوگا، نہ وہ بیع وغیرہ کے ساتھ کسی غیر کی تملیک کو قبول کرتا ہے؛ کیوں کہ اس کا مالک بنانا محال ہے جو اس کی اپنی ملکیت سے خارج ہو۔
فتاوی ہندیہ میں ہے: وَإِنَّمَا يَزُولُ مِلْكُ الْوَاقِفِ عَنْ الْوَقْفِ عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى – بِالْقَضَاء. (الفتاوی الہندیۃ، کتاب الوقف، ج: ۲ ، ص: ۳۵۰)
یعنی امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے نزدیک وقف سے واقف کی ملکیت ختم ہو جاتی ہے۔
اسی میں ہے: وَلَا يَجُوزُ تَغْيِيرُ الْوَقْفِ عَنْ هَيْئَتِهِ. (الفتاوی الہندیۃ، الباب الرابع عشر فی المتفرقات، ج: ۲، ص: ۴۹۰)
یعنی وقف کو اس کی ہیئت سے بدلنا جائز نہیں ہے۔
جب وقف کی ہیئت کی تغییر و تبدیل جائز نہیں تو اصل مقصود کی تغییر کیوں کر جائز ہوگی اور وقف کا بطلان کیوں کر جائز ہوگا؟ فتاوی رضویہ میں ہے: وقف کی تبدیل جائز نہیں، جو چیز جس مقصد کے لیے وقف ہے، اسے بدل کر دوسرے مقصد کے لیے کر دینا روا نہیں، جس طرح مسجد یا مدرسہ کو قبرستان نہیں کر سکتے، یوں ہی قبرستان کو مسجد یا مدرسہ یا کتب خانہ کر دینا حلال نہیں۔ سراج وہاج پھر فتاوی ہندیہ میں ہے: وَلَا يَجُوزُ تَغْيِيرُ الْوَقْفِ عَنْ هَيْئَتِهِ فَلَا يَجْعَلُ الدَّارَ بُسْتَانًا وَلَا الْخَانَ حَمَّامًا وَلَا الرِّبَاطَ دُكَّانًا، إلَّا إذَا جَعَلَ الْوَاقِفُ إلَى النَّاظِرِ مَا يَرَى فِيهِ مَصْلَحَةَ الْوَقْفِ.اھ. قلت: فاذا لم یجز تبدیل الھیأة فکیف بتغییر اصل المقصود.
یعنی وقف کو اس کی ہیئت سے تبدیل کرنا، جائز نہیں، لہذا گھر کا باغ بنانا اور سرائے کا حمام بنانا اور رباط کا دکان بنانا، جائز نہیں، ہاں جب واقف نے نگہبان پر معاملہ چھوڑ دیا ہو کہ وہ ہر وہ کام کر سکتا ہے جس میں وقف کی مصلحت ہو، تو جائز ہے، اھ۔ قلت: جب ہیئت کی تبدیلی جائز نہیں، تو اصل مقصود کی تغییر کیوں کر جائز ہو گی۔ (فتاوی رضویہ، ج: ۹، ص: ۴۴۷)
دوسرے مقام پر ہے: وقف دوبارہ وقف نہیں ہوسکتا۔ (فتاوی رضویہ، ج: ١٦،ص: ۱۲۶)
اسی میں ہے : جائداد ملک ہوکر وقف ہوسکتی ہے مگر وقف ٹھہر کر کبھی ملک نہیں ہوسکتی۔ (ایضا، ص: ۱۶۱)
اسی میں ہے: مسلمانوں کو تغییر وقف کا کوئی اختیار نہیں، تصرف آدمی اپنی ملک میں کر سکتا ہے۔ وقف مالک حقیقی جل و علا کی ملک خاص ہے، اس کے بے اذن دوسرے کو اس میں کسی تصرف کا اختیار نہیں۔ (ایضا،ص: ٢٣١ ،٢٣٢)
بہار شریعت میں ہے: وقف کا حکم یہ ہے کہ نہ خود وقف کرنے والا اس کا مالک ہے نہ دوسرے کو اس کا مالک بنا سکتا ہے نہ اس کو بیع کرسکتا ہے نہ عاریت دے سکتا ہے نہ اس کو رہن رکھ سکتا ہے۔ ( بہار شریعت، ج: ۲، ح ۱۰ ص: ۵۳۳)
مسلمانوں پر فرض ہے کہ کسی بااثر شخصیت یا حکومت کے ذریعہ چارہ جوئی کریں اور زید کے پوتا کو اس ظلم سے روکیں۔ ایسے وقت میں مسلمانوں کا خاموشی اختیار کرنا حرام ہے۔ اگر بےجا تصرف سے جبرا روکنا پڑے تو جبرا روکا جائے۔ مدرسہ کو کوئی نقصان پہنچے تو اس کی بھرپائی کرائی جائے۔ ساتھ ہی بند رکھنا بھی غیر مناسب ہے،بالخصوص علاقہ کے اہل حل وعقد اور بالعموم تمام مسلمانوں کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ مدرسہ میں دوبارہ تعلیمی سلسلہ جاری ہو تاکہ کسی کو اوقاف میں بے جا دست برد کا موقع نہ ملے اور اوقاف اپنے صحیح مقاصد میں استعمال ہو سکیں۔
امام اہل سنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ سے ایسے شخص کے متعلق سوال ہو اجو مسجد اور اس سے متعلق زمین اور اشیا میں بے جا تصرف کرتا ہے، ایسی صورت میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟ تو جوابا آپ نے ارشاد فرمایا: مسلمانون کو زید کی ایسی بیجادست برد وظلم پر سکوت حرام ہے اور چارہ جوئی فرض۔ لازم ہے کہ بذریعہ حکومت مسجد کی وہ پہلی زمین اور پشتہ کی زمین سب اس کے قبضہ سے نکلوائی جائے اور پہلے جس حالت پر تھی اسی حالت پر جبراً اس سے کرائی جائے اور جتنی اینٹیں اس نے تصرف میں کرلی ہیں وہ متمیز ہوں تو واپس لی جائیں ورنہ ان کی قیمت لی جائے اور جتنے دنوں یہ استنجا خانہ وپشتہ وغیرہ کی زمین اس کے قبضہ میں رہی یا تا انفصال رہے اس سب کا کرایہ اس سے مسجد کے لئے لیا جائے۔ کما قد نصوا علیہ قاطبۃ فی الکتب المعتمدۃ (جیسا کہ تمام معتبر کتب میں اس پر نص موجود ہے۔ت) ( فتاوی رضویہ، ج: ۱۶، ص: ۲۳۲)
حاصل یہ کہ زید کے پوتا کا مدرسہ کے لیے وقف زمین پر بےجا تصرف کرتے ہوئے عیدگاہ بنانے کا ارادہ کرنا شریعت مطہرہ کے سخت خلاف اور ناجائز و حرام ہے اور مسلمانوں کا زید کے پوتا کی ایسی حرکت پر سکوت اختیار کرنا حرام اور چارہ جوئی کرنا فرض ہے۔ اور علاقہ کے تمام مسلمانوں کو علم دین کی ترویج و اشاعت کے لیے مدرسہ میں دوبارہ تعلیمی سلسلہ جاری کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ واللہ تعالی اعلم

محمد اظہار النبی حسینی
قاضی و مفتی مرکزی ادارہ شرعیہ نیپال، جنک پور دھام
صدر المدرسین دارا لعلوم قادریہ مصباح المسلمین، علی پٹی شریف
۲؍ شوال المکرم۱۴۴۳ھ
۴؍ مئی ۲۰۲۲ء
۲۱؍ بیساکھ ۲۰۷۹ بکرمی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے