Sunni Paigham Nepal Oct to Dec 2020 Hakeeme Millat No.

 حکیم ملت نمبر

ملک نیپال میں سواد اعظم مسلک اعلی حضرت کا بے باک ترجمان سہ ماہی سنی پیغام کا خصوصی شمارہ"حکیم ملت نمبر" 

ملک نیپال کی عظیم دینی و علمی  شخصیت پیر طریقت حکیم ملت حضرت علامہ الشاہ محمد اسماعیل حسینی جترویدی ابو العلائی نور اللہ مرقدہ کی مختلف الجہات شخصیت اہلیان ہند و نیپال کے مابین محتاج تعارف نہیں، آپ کے عرس چہلم کے موقع پر آپ کی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے سہ ماہی سنی پیغام نیپال کا یہ خصوصی شمارہ شائع کیا گیا۔ جس میں :

روداد غم
نالہ درد و گریہ الم
شخص و عکس
خدمات و کمالات
اظہار و اعتراف
مناقب و منظومات وغیرہ
شامل ہیں، خود بھی پڑھیں اور احباب کو بھی دعوت مطالعہ دیں۔


سہ ماہی سنی پیغام نیپال اکتوبر تا دسمبر ۲۰۲۰ حکیم ملت نمبر









نام: محمد اسمعیل

عرفی نام:محمد اسمعیل حسینی چترویدی

تخلص: آسی

القابات: حکیم ملت،خطیب ہند و نیپال، ماہر ویدوقرآن، فخر ابو العلائیہ۔

نسب نامہ: محمد اسمعیل حسینی  بن محمد ادریس راعین بن مولوی میاں راعین بن حاجی محمد عرف لوٹن میاں جی مرحوم۔

تاریخ ولادت:14؍اپریل ۱۹۵۲ء

مقام ولادت:مدینۃ العلما  بیلا شریف، جنک پور دھام، نیپال

رسم بسم اللہ خوانی: تقریبا۱۹۵۷ء

ابتدائی تعلیم:مدرسہ مظہر اسلام،  بیلا شریف،  جنک پوردھام

مدرسہ رضاء العلوم کنہواں، سیتامڑھی، بہار

مدرسہ شمس العلوم،  باڑا لہوڑیا،  سیتامڑھی

اعلی تعلیم: دارالعلوم علیمیہ، سرکانہی شریف، مظفر پور، بہار

دار العلوم تیغیہ، رسول آباد، سلطان پور یوپی

دار العلوم غریب نواز،  الہ آباد،یوپی

تکمیل فضیلت: ۲۵؍اگست ۱۹۷۵ء، جامعہ فاروقیہ عربیہ اہل سنت، مدن پور، ریوڑی تالاب، بنارس۔ اسی دوران آپ نے بنارس یونیورسٹی میں سنسکرت کی بھی تعلیم حاصل کی۔

اساتذہ:حافظ عین الحق،مولانا صغیر احمد،مولانا حامد رضا،مولانا منظور احمد مجیبی،شمس العلمامولاناشمس الحق،مولانا الیاس،حضرت مفتی محمد عزیز اللہ مظہری میاں،محقق بےمثیل حضرت علامہ  علی احمد جید القادری،حضرت مولاناایوب القادری،خطیب مشرق حضرت علامہ مشتاق احمد نظامی،زاہد ملت حضرت علامہ زاہد حسین قادری مجیبی ۔

امامت و تدریس: جامع مسجد، فینسی بازار، گوہاٹی، آسام، مدرسہ تنویر الاسلام، جھاڑکھنڈ، مدرسہ غریب نواز جھاڑکھنڈ ، مدرسہ فیض الرضا جھاڑکھنڈ ، جامع مسجد، بیر گنج، نیپال، جامع مسجد، کھردہ کولکاتا، مغربی بنگال۔

مناصب: صدر المدرسین،  مدرسہ تنویر الاسلام، جھارکھنڈ، مدرسہ فیض الرضا،مدرسہ غریب نواز۔امام، جامع مسجد گوہاٹی۔جامع مسجد بیر گنج۔جامع مسجد کھردہ۔رکن مجلس مشاورت  سہ ماہی سنی پیغام نیپال۔

چند مشاہیر تلامذہ: مفتی شرف الدین رضوی استاذ و مفتی دار العلوم قادریہ حبیبیہ، فیل خانہ ہوڑہ۔مولانا محمد نصیر الدین رضوی ناظم اعلیٰ دار القرآن اخلاقیہ، توپسیا کولکاتا۔مولانا عبد الرب ناظم اعلیٰ مدرسہ فیض الرضا، برواڈیہہ۔مولانا محمد ممتاز احمد خطیب و امام جامع مسجد ستنا، مدھیہ پردیش۔مولانا اسلام الدین ، حافظ عباس رضوی وغیرہ

بیعت:خلیفہ حضور مفتی اعظم ،مفسر قرآن حضرت علامہ  سید شاہ ظہور الحسین قادری،سادات پور  سیوان۔ سہ شنبہ، ۲۵؍ذی قعدہ  ۱۳۸۷ھ۔

خلافت واجازت:  (۱)حضرت علامہ سید شاہ سیف اللہ  غوث علی میسوری،چرواں شریف، (۲)۲۵؍صفر المظفر ۱۴۰۴ھ پیر طریقت،صوفی باصفاحضرت حافظ محمد نذیر خاں تیغی، رکسہاں شریف،غازی پورسلسلہ عالیہ قادریہ مجددیہ آبادانیہ فریدیہ تیغیہ، (۳) ۲۶؍ربیع الثانی1404ھ حافظ توریت وانجیل حضرت علامہ سید شاہ محمد قائم چشتی نظامی معروف بہ علامہ قتیل دانا پوری سلسلہ عالیہ قادریہ چشتیہ نقشبندیہ سہروردیہ مداریہ فردوسیہ ابو العلائیہ نظامیہ، (۴) ۶؍جمادی الاولی،۱۴۱۷ھ حضرت خواجہ صوفی لیاقت حسین  عرف منے میاں، بھینسوڑی شریف، سلسلہ عالیہ قادریہ چشتیہ سہروردیہ صابریہ نظامیہ   ابو العلائیہ جہانگیریہ رضائیہ حسنیہ عزیزیہ، (۵)حضرت علامہ سید شاہ محمد شرف الدین نیر قادری، امجھرشریف، (۶) مفسر قرآن حضرت علامہ سید شاہ   ظہور الحسین قادری ،سادات پور ،سیوان۔

خدمات:گوہاٹی کی جامع مسجد جو وہابیوں کے قبضہ میں تھی۔ آپ نے اسے اپنے حسن تدبر سے اہل سنت کے قبضہ میں کیا۔ دینی مدارس میں جہاں آپ  کابحیثیت استاذیا شیخ الاساتذہ  تقررہوا آپ نے ان مدارس کی خستہ حالی کو دیکھتے ہوئے وہ عظیم خدمات انجام دیا کہ وہ ادارہ  ترقی کرنے لگا۔ جہاں بحیثیت امام مقرر ہوئے وہاں آپ نے امامت وخطابت کے ساتھ ساتھ رشدوہدایت کا کام بھی انجام دیا جس کی وجہ سے کثیر افراد راہ راست پر آگئے اور مسلمانوں کے اندر اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہونے کا جذبہ پیداہوا۔

قلمی خدمات:متعدد علمی وتحقیقی مقالات و تقاریظ۔

تصانیف: اسلام میں تعزیہ اور تعزیہ داری( مطبوعہ) اسلام اور ہندو دھرم کا تقابلی مطالعہ، دیوان آسی، اثبات ایمان ابو طالب (غیرمطبوعہ) قوالی مع مزامیر کی شرعی حیثیت ( زیر ترتیب)

وفات: ۵؍ستمبر ۲۰۲۰ء مطابق ۱۷؍صفر المظفر ۱۴۴۲ھ،  بروز سنیچر بوقت ۷؍ بج کر ۵۰ منٹ۔

تدفین:7؍ستمبر 2020ء مطابق 19؍ صفرالمظفر 1442ھ، بیلا جنک پور دھام، نیپال،  بروز پیر بوقت 2؍بجے ۔

ـــــــــــــــــ   ۝  ـــــــــــــــــ

 



یہ دنیا ایک سرایہ اور دار فانی ہے اور جو بھی یہاں آیا اسے ایک نہ ایک دن قانون قدرت  "کل نفس ذائقۃ الموت"  کے تحت موت کا مزہ چکھ کر  دار بقا کی جانب کوچ کرنا ہے۔  پوری دنیا میں روزانہ ہزاروں زندگیاں ختم ہوتی ہیں لیکن کچھ موتیں ایسی بھی ہوا کرتی ہیں جن کی وجہ سے قوم و ملت کا زبردست خسارہ ہوتا ہے خاص کر  ایک عالم ربانی کے وصال پرملال سے سماج میں ایک ایسا  علمی خلا پیدا ہوجاتا ہے جو طویل زمانہ تک  پر نہیں ہوپاتا۔ماہر وید و پران حکیم ملت حضرت علامہ محمد اسماعیل حسینی چترویدی علیہ الرحمۃ والرضوان(متوفی ۵/ ستمبر ۲۰۲۰) کی وفات حسرت آیات کی وجہ سے  بھی اہل سنت و جماعت  میں ایک  بہت بڑا علمی خلا پیدا ہوگیا ہے۔ آپ ایک متبحر عالم دین ہونے کے ساتھ شہرت یافتہ خطیب، قابل شاعر، قلم کے دھنی ، مقبول پیر  اور  ہندو مذہب کے چاروں ویدوں کے ماہر تھے، اسی مہارت کی وجہ سے’’ چترویدی‘‘  آپ کے نام کا ایک جزء لاینفک بن گیا۔  نیپال کے  مقبول و معروف رسالہ’’سہ ماہی سنی پیغام‘‘   کی پوری ٹیم  کے لیے باعث صد افتخار ہے کہ آپ کے عرس چہلم کے موقع پر خصوصی شمارہ  ’’ حکیم ملت نمبر‘‘ شائع ہونے جا رہا ہے  اور  فقیر راقم السطور کے لیے بھی یہ فخر  کی بات ہے کہ آپ کی ذات ستودہ صفات  کی چند جھلکیاں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔ 

ابتدائی حالات : حکیم ملت علیہ الرحمہ کی ولادت با سعادت شہر جنک پور کے قریب ایک مشہور مقام مدینۃ العلما ’’ بیلا ‘‘ میں  ۴ /اپریل ۱۹۵۲ء کو ہوئی۔ ابتدا میں آپ کا نام محمد اسمعیل  تجویز فرمایا گیا تھا بعد میں پیر طریقت، مفسر قرآن حضور سید ظہور الحسین احمد رضوی مد ظلہ العالی سے بیعت و خلافت کی نسبت سے ’’ حسینی ‘‘ کا الحاق ہوا اور نام کا جزء بن گیا، نیز ہندو مذہب کے چاروں وید کی بھی تعلیم حاصل کی جس کی مناسبت سے ’’ چترویدی‘‘  بھی آپ کے نام کا حصہ بنا، اس طرح آپ محمد اسمعیل حسینی چترویدی کے نام سے ملک اور بیرون ملک میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔ آپ کا نسب کچھ اس طرح ہے، محمد اسمعیل حسینی بن الحاج محمد ادریس راعین بن الحاج مولوی میاں راعین بن حاجی محمد عرف لوٹن میاں مرحوم۔

آپ موصوف نے اپنی تعلیم کی ابتدا گاوں ہی کے مکتب  "مدرسہ مظہر اسلام" بیلا سے کی، وہاں آپ نے درجہ اطفال کی کتابیں پڑھیں، پھر ابتدائی فارسی اور عربی کی تعلیم مدرسہ رضاء العلوم کنہواں ضلع سیتا مڑھی میں حاصل کی، بعدہ مدرسہ شمس العلوم باڑا لہوریا ضلع سیتامڑھی اور بہار کی مشہور درس گاہ دار العلوم علیمیہ انوار العلوم، سرکانہی شریف، مظفر پور بہار میں درس نظامی کی بعض کتابیں پڑھیں، اور اس طرح اپنا علمی سفر جاری رکھتے ہوئے دار العلوم تیغیہ، رسول آباد، سلطان پور یوپی پھر دار العلوم غریب نواز، الہ آباد اور اخیر میں آپ کا علمی سفر جامعہ فاروقیہ ، مدن پورہ، یوپی جاکر اختتام پذیر ہوا۔ (سہ ماہی سنی پیغام نیپال اکتوبر تا دسمبر ۲۰۱۸ء فروغ رضویات اور علماے نیپال نمبر صفحہ ۲۵۹)

حکیم ملت اور منصب امامت : امامت و خطابت  دعوت و تبلیغ اور خدمت دین متین کا ایک اہم ذریعہ  ہے اور یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جس کا احساس ہر اس عالم دین کو ہے جو کبھی نہ کبھی منصب امامت پر فائز رہ چکے ہیں۔ حضور حکیم ملت علیہ الرحمہ کی حیات کا بیشتر حصہ منصب امامت پر فائز رہ کر گزرا ہے۔  چناں چہ فراغت کے بعد آپ سب سے پہلے گوہاٹی کی فینسی بازار مسجد کے امام مقرر ہوئے جہاں آپ نے فرقہاے باطلہ کا ایسا رد فرمایا کہ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے خوش ہو کر آپ کے نام خط لکھا اور فرمایا کہ میری کتاب اگر ضرورت پڑے  تو اپنے نام سے شائع کرکے ان کا جواب دینا، مجھے نام سے نہیں رسول اللہ ﷺ کے دین سے سروکار ہے۔ گوہاٹی کے علاوہ   اپنے وطن عزیز ملک نیپال کے مشہور و معروف شہر ’’بیر گنج‘‘  کی جامع مسجد  میں بھی امامت و خطابت کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ اخیر میں کھردہ، کلکتہ میں بحیثیت امام آپ کی تقرری ہوئی اور تقریبا ۳۶ سال تک منصب امام و خطابت پر فائز رہ کر بتقاضاے عمر مستعفی ہوئے ۔

حکیم ملت اور مسند تدریس: امامت و خطابت کے علاوہ حضور حکیم ملت علیہ الرحمہ مسند تدریس کی بھی زینت رہ چکے ہیں اور جہاں بھی گئے پوری ذمہ داری اور دلجمعی کے ساتھ ادارہ کی تعلیمی، تدریسی اور تعمیری ترقی میں مصروف عمل رہیں۔  چناں چہ  آپ علیہ الرحمہ پہلے  صوبہ جھارکھنڈ کے  ایک دینی ادارہ مدرسہ تنویر الاسلام میں  بحیثیت صدر تشریف لے گئے پھر مدرسہ غریب نواز  کے مدرس ہوئے اس کے بعد مدرسہ فیض الرضا میں بحیثیت صدر المدرسین  چند سالوں تک تدریسی خدمات انجام دیے۔

حسن اخلاق: حسن اخلاق مومن کی پہچان اور ایک عالم دین  کی شان ہے۔ اسلام میں حسن اخلاق کی بڑی اہمیت ہے  یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے جا بجا حسن اخلاق کی تلقین فرمائی ہے۔ چناں چہ حدیث پاک ہے: ایمان والوں میں کامل ترین مومن وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔(مسند احمد) حضور حکیم ملت علیہ الرحمہ ایک خلیق اور ملنسار انسان تھے۔ چھوٹے بڑے ہر کسی کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتے، جو کوئی ایک بار آپ سے ملتا وہ آپ کا گرویدہ ہوجاتاہے۔ آپ کے صاحبزادے حضرت علامہ اظہار النبی حسینی مصباحی صاحب قبلہ  مدرس الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور جب بھی والد گرامی کی بارگاہ میں مدرسہ سے کوئی تحفہ کتاب یا کوئی سامان کلکتہ کے کسی متعلم کی معرفت ارسال فرماتے اور جب وہ متعلم حضور حکیم ملت علیہ الرحمہ سے ملتا تو آپ کا اخلاق حسنہ کو دیکھ کر آپ کا گرویدہ ہوئے بغیر نہیں لوٹتا۔  تحفہ لانے والے متعلم کے ساتھ عاجزی و انکساری سے ملنا اور بذات خود کھانا یا ناشتہ کا انتظام کرنا اور واپسی کے وقت نذرانہ دینا  آپ کی عادت کریمہ تھی جن سے  ہر کوئی متاثر ہوجاتا۔

آپ ازہر ہند کے لیے ہر سال جیب خاص سے کچھ رقم ارسال فرماتے ، اگر کوئی محصل پہنچ جاتا تو ٹھیک  ورنہ بلوا کر دیا کرتے تھے۔ ایک بار ماسٹر فیاض صاحب کے بھانجے جناب قاری رضوان صاحب رقم لانے پہنچے۔ آنے کے بعد ان کا بیان تھا کہ میں نے بہت کم ایسے عالم دین خاص کر کسی پیر طریقت کو پایا جو کسی ادارہ کے لیے اپنی جیب خاص سےہر سال  رقم دے اور لانے والے کے ساتھ اتنے اخلاق سے پیش آئے۔یقینا حضور حکیم ملت علیہ الرحمہ  اخلاق و کردار کے پیکر اور نمونہ اسلاف تھے۔

مہمان نوازی: حضور حکیم ملت علیہ الرحمہ کی مہمان نوازی کا عالم یہ تھا کہ آپ تنہا بہت کم کھانا یا ناشتہ تناول فرمایا کرتے تھے۔ جب بھی کھاتے چند احباب کو دسترخوان پر ضرور مدعو کرتے ۔ چھوٹے بڑے ہر کسی کے لیے یکساں دعوت کا اہتمام کرتے۔ مریدین و معتقدین، شاگرد یا کسی مدرسے کے متعلم کوئی بھی آپ سے ملاقات کے لیے آتا تو بغیر کچھ کھلائے پلائے واپس نہیں ہونے دیتے۔ وصال کے دن بھی آپ کا ناشتہ  تنہا نہ ہوا بلکہ  کمر ہٹی جوکہ کھردہ سے پندرہ بیس منٹ کی  مسافت پر ہے وہاں مفتی تاج الدین صاحب جوکہ حضور حکیم ملت علیہ الرحمہ سے بہت متاثر ہیں  انھیں کے ساتھ آپ نے آخری بار ناشتہ تناول فرمائے۔

مہمان رسول سے محبت : یوں تو آپ ہر کسی سے محبت فرماتے لیکن مہمان رسول کے ناطے طلباے کرام سے غایت درجہ محبت فرماتے تھے۔ جب آپ کے صاحبزاد گان دار العلوم رضاے مصطفی مٹیا برج کلکتہ میں زیر تعلیم تھے اور آپ ان سے ملنے تشریف لے جاتے تو نہ صرف اپنے صاحبزادگان کے لیے بلکہ سبھی طلبا کے لیے کچھ نہ کچھ کھانے پینے کی چیزیں ضرور ساتھ لے  جاتے اور اگر کبھی ساتھ نہ لے جاپاتے تو مدرسہ پہونچ کر میٹھائیاں منگواتے اور بچوں میں تقسیم کروایا کرتے تھے۔ اسی طرح آپ اپنے  داماد حضرت مولانا نصیب اختر امجدی بشنپوری صاحب  جوکہ بانس وڑیا میں  پڑھاتے تھے جب ان کے پاس  تشریف لے جاتے تو وہاں کے سبھی طلبا کے لیے کچھ نہ کچھ کھانے کی چیزیں ضرور ساتھ لے جاتے اور اگر ایسا نہیں ہوپاتا تو آتے وقت سبھی بچوں کو کچھ نہ کچھ رقم تھما دیا کرتے تھے۔

حکیم ملت اورمیدان  خطابت: حضور حکیم ملت علیہ الرحمہ اپنے وقت کے ایک شہرت یافتہ خطیب تھے۔ دور دراز خطابت کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے۔ آپ اپنی تقریرمیں قرآن و حدیث کے علاوہ ہندو مذہب کے وید و پران کے سلوک بھی بولا کرتے اور شان رسالت مآب ﷺ کو وید و پران سے بھی  ثابت فرماتے۔ اور ایسا نہیں کہ آج کل کے نام نہاد چترویدی   کی طرح چند سلوک یاد کرکے بولتے بلکہ آپ نے اس کے لیے باضابطہ اس کی  تعلیم بھی حاصل کی اور چاروں ویدوں میں مہارت حاصل کی، یہی وجہ ہے کہ جب کوئی ہندو آپ کو دیکھتا تو برجستہ ہاتھ جوڑ کر آپ کو سلام کیا کرتا۔

حکیم ملت بحیثیت شاعر: حضور حکیم ملت علیہ الرحمہ گوناگوں خوبیوں کے مالک تھے انھیں میں سے ایک یہ کہ آپ ایک کہنہ مشق شاعر بھی تھے۔  آسی تخلص لکھا کرتے اور اردو، ہندی ، میتھلی، بھوج پوری اور سنسکرت  کئی زبانوں میں آپ نے نعت و حمد و منقبت لکھی۔ آپ کی شاعری کے تعلق سے فروغ رضویات اور علماے نیپال نمبر میں ہے کہ : آپ کے کچھ کلام میں تو ایسی فن کاری ہے کہ جس کی مثال بہت کم ملتی ہے یعنی آپ کے بعض کلام ایسے ہیں کہ اس کے ہر شعر کا دوسرا مصرع کسی آیت کریمہ کا ٹکڑا اور بعض کلام ایسے ہیں کہ جن کے ہر شعر کا دوسرا مصرع کسی حدیث پاک کا ٹکڑا ہے۔  آپ نے مختلف بزرگان دین کی شان میں منقبتیں لکھی ہیں ، انھیں میں اعلی حضرت بھی ہیں، مزید یہ کہ آپ نے اعلی حضرت کی زمین پر بھی کلام لکھے ہیں اور کلام الامام کی تضمین بھی لکھی ہیں۔ (سہ ماہی سنی پیغام نیپال اکتوبر تا دسمبر ۲۰۱۸ء فروغ رضویات اور علماے نیپال نمبر صفحہ ۲۵۹)

مثالی یادگار: بیشتر رحلت کرنے والے اپنی کچھ ایسی یادگاریں چھوڑ جاتے ہیں جو رہتی دنیا تک قائم رہتی ہیں اور قوم و ملت کو جن سے خوب خوب فائدہ پہنچتا رہتا ہے۔ حضور حکیم ملت علیہ الرحمہ نے بھی اپنی ایسی مثالی یادگار چھوڑی ہے جن پر قوم و ملت کو ناز ہے میری مراد آپ کے صاحب زاد گان حسینی برادران ہیں۔ سہ ماہی سنی پیغام نیپال کے مدیر اعلی اور درجنوں کتابوں کے مصنف محقق نیپال حضرت علامہ عطاء النبی حسینی مصباحی  جو کہ عالمی شہرت یافتہ تنظیم  دعوت اسلامی کے جامعۃ المدینہ  فیضان  رضا،  بریلی شریف کے ناظم اعلی ہیں اور دوسرے ماہر درسیات  اور کئی کتابوں کے مصنف حضرت علامہ  اظہار النبی حسینی مصباحی جو کہ ازہر ہند الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور کے مدرس ہیں ۔ آپ دونوں برادران سے اہل سنت و جماعت کی خاص کر نیپال کے مسلمانوں کی بہت ساری امیدیں وابستہ ہیں۔ اللہ تبارک و تعالی حضور حکیم ملت علیہ الرحمہ کی ان یادگار کو سدا سلامت رکھے۔  آمین یا رب العلمین  بجاہ سید المرسلینﷺ

ـــــــــــــــــ           ۝   ــــــــــــــــــــ

   

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے