نیپال میں مسلمانوں کی آبادی

نیپال میں مسلمانوں کی آبادی





نیپال میں مسلمانوں کی آبادی
تحریر: ثمر مصباحی نیپال

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق کرۂ ارض کا کل رقبہ 510065284 مربع کیلو میٹر ہے جس میں 70.8 % یعنی 361126221 مربع کیلو میٹر پانی اور 29.2 % یعنی 148939063 مربع کیلو میٹر خشکی پر مشتمل ہے۔ نیپال 232 ممالک کی فہرست میں رقبہ کے اعتبار سے 93 ویں نمبر پر ہے۔ اس کا کل رقبہ ایک لاکھ سیتالیس ہزار ایک سو اکیاسی{147181} مربع کیلومیٹر ہے جس میں 2.8 % یعنی 4121 مربع کیلو میٹر پانی ہے ۔ اس ملک کے رقبے کا تناسب کرہ ٔارض کے کل رقبہ میں 0.10% ہے۔ اس ملک کی شمالی سرحد چین سے اور باقی تین سرحدیں ہندوستان سے متصل ہیں اور اس کی شکل مستظیل ہے جس کا طول اس کے عرض سے تقریبا پانچ چھ گنا زیا دہ ہے۔ دنیا کی دس بلند ترین چوٹیوں میں سے 8 چوٹیاں اسی ملک میں واقع ہیں جن میں کوہ ہمالیہ کی بلند ترین چوٹی ایورسٹ(Everest) بھی شامل ہے۔

7.6 بلین دنیا کی کل آبادی میں نیپال کا تناسب 29567546 آبادی کے ساتھ 0.39% ہے اور آبادی کے اعتبار سے دنیا کی 232 ممالک کی فہرست میں 48 ویں نمبر پر ہے۔ اس میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب سرکاری مردم شماری 2068 بکرمی کے مطابق 4.4% یعنی1164225 ہےجس میں 579501 خواتین اور 584754 مردوں کی تعداد ہے جبکہ مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ ان کی آبادی 8% یعنی 2365403 ہے۔اس کے علاوہ یہاں ہندومت 81.3% ، بدھ مت 9% اور مسیحیت 1.4% ہے۔

نیپال میں صدیوں سے مسلمانوں کی موجودگی کا ثبوت ملتا ہے۔ تقریبا 600 سا ل پہلے یہاں اسلام شمالی ہند، کشمیر اور تبت کے راستےسے آیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں تین طرح کے ، کشمیری ، مدھیشی اور تبتی مسلمان پائے جاتے ہیں جن کی تہذیب و تمدن، رہن سہن ، بول چال اور خورد و نوش کا طریقہ الگ الگ ہے۔نیپال میں 90% مسلمان ترائی میں، 5%راجدھانی کاٹھمنڈو میں اور باقی پہاڑی علاقہ میں آباد ہے۔ نیپال کے تمام 75 ضلعوں میں مسلمانوں کی آبادی پائی جاتی ہے جن میں سب سے زیادہ روتہٹ ضلع میں مسلمانوں کی آبادی ہے جبکہ سب سے کم تاپلے جونگ میں صرف دو آدمی پورے ضلع میں نظر آتے ہیں۔

نیچے کی جدول سے پورے ملک میں مسلمانوں کی آبادی کا مکمل اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔قارئین کی معلومات کے لیے 75 ضلعوں کی تفصیلی رپورٹ پیش کی جا رہی ہے۔



ضلع وار مسلم آبادی کی تفصیل




نیپال میں خواندگی کی مجموعی شرح 53 فیصد ہے جس میں مسلمانوں کی شرح خواندگی میں 58 فیصد مرد اور 22 فیصد خواتین تعلیم یافتہ ہیں جبکہ 42 فیصد مرد اور 78 فیصد عورتیں ابھی بھی ناخواندگی کے زمرے میں داخل ہیں، اس طرح مسلمانوں میں خواندگی کی شرح صرف 27 فیصد بنتی ہے جوکہ ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔یہی وجہ ہے کہ نیپال کے مسلمان بالکل پسماندہ حالت میں ہیں اور زیادہ تر مسلمان خط افلاس سے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔برسوں کی شورش اور بد امنی کے بعد نیپال ایک سیکولر جمہوری ملک بن چکا ہے ۔اس کا اعلان ایک دہائی قبل ہو چکا ہے ۔لیکن آئین سازی کا معاملہ کافی دنوں تک کچھ تنازعات کے باعث زیر التوارہابالآخر ۲۰ ستمبر ۲۰۱۵ کو نیپال نے اپنا نیا آئین نافذ کیا۔اس نئے آئین کے تحت نیپال ۷ صوبوں پر مشتمل ایک سیکولر ،جمہوری اور وفاقی مملکت بن چکا ہے ۔لیکن اس آئین سازی کے دوران مسلم قیادت کے فقدان کے باعث مسلمانوں کے حقوق کو محفوظ کرنے کے لیے کوئی مستحکم آواز نہیں اٹھی اور نہ ہی مسلم ماہرین کی ٹیم نے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے حکومت کو تجاویز اور سفارشات پیش کی ۔اس لیے مسلمانوں کو اس آئین سے خصوصی اختیارات نہیں مل سکے ۔اول یہ کہ اقلیت ہونے کے باوجود مسلمانوں کے لیے تعلیم اور ملازمت کے میدان میں حکومت کی جانب سے کوئی مستقل کوٹہ مختص نہیں کیا گیا ۔دوسرے یہ کہ مسلمانوں کی آبادی پہاڑی اور ہمالیائی علاقوں میں ہونے کے باوجود انہیں مدھیشی طبقہ کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔اس کے دو نتائج ہوں گے پہاڑی علاقے میں رہنے والے مسلم، مدھیشی زمرے میں ہونے کےباعث پہاڑیوں کے لیے مخصوص مراعات سے محروم ہوں گے ۔دوسرے یہ کہ ترائی خطے میں بسنے والے مدھیشیوں کی اکثریت ہندو ہے ۔اس لیے یہاں بھی مدھیشی کو ملنے والی مخصوص مراعات اور اعلیٰ عہدوں سے مسلم مدھیشیوں کو دور رکھے جانے کے بھرپور امکانات ہیں ۔ نیپالی مسلمان اگر وقت رہتے بیدار نہیں ہوئے اور اپنے حق کے لیے آواز بلند نہیں کریں گے تومسلمانوں کی آنے والی نسلیں نیپال کی دیگر اقوام سے پسماندہ تر ہوتی جائیں گی ۔اس لیے ابھی وقت ہے کہ مسلمان بیدار ہوں اور جس طرح ممکن ہو حکومت وقت تک اپنی بات پہنچائیں تا کہ آئین میں ترمیم کے ذریعے مسلمانوں کے حقوق پر مبنی شقوں کا اضافہ کیا جائے ۔

نیپال میں سیکولر اور جمہوری حکومت قائم ضرور ہوگئی ہے لیکن فرقہ پرست عناصر اکثر سر ابھارتے رہتے ہیں اس لیے بعید نہیں کہ ایسے عناصر کے ہاتھوں میں حکومت کی باگ ڈور چلی جائے تو وہ مسلمانوں کو مزید حاشیے پر ڈھکیلنے کی کوشش کریں گے ۔حال ہی میں یہ خبر سننے کو ملی ہے کہ نیپالی حکومت نے عید او بقر عید کی چھٹیوں کو مسلم کے لیے مخصوص کیا ہے ۔یعنی پورے ملک میں چھٹیاں نہیں ہوں گی ۔جب کہ ہندوؤں کے تیوہار میں ہفتوں تک سرکاری چھٹی پورے ملک میں ہوگی ۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہاہے ۔جب ہندوؤں کے لیے پورے ملک میں چھٹی ہے تو مسلمانوں کے تیوہار کی چھٹیاں مسلمانوں کے لیے مخصوص کرنا ان کو الگ تھلگ کرنے کے مترادف ہے ۔جب کہ مسلمان بھی نیپال کے شہری ہیں جیسے ہندو ہیں ۔

نیپالی مسلم کمیشن کو ایک جامع رپورٹ تیار کر کے مستحکم بنیادوں پر مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے آئین میں ترمیم کی سفارشات پیش کرنی چاہیے اگر حکومت اسے منظور کرتی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ نیپال کے مسلم عوام کو اپنے حق کے مطالبات کے لیے پر امن طریقے سے احتجاجات کے ذریعے آواز بلند کرنی چاہیے ۔دنیا کی جمہوری مملکتوں میں شہریوں کو اپنے جائز مطالبات کے حصول کے لیے یہی راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے ۔اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے مسلمانوں کو بیدار ہو جانا چاہیے ۔
نوٹ : اس مضمون کو تیار کرنے میں اقوام متحدہ اور نیپال مسلم کمیشن کی رپورٹس سے مدد لی گئی ہے۔

 

ابو العارف عبد الرحیم ثمر مصباحی

پرڑیا، مہوتری، نیپال





ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

  1. ماشاء بہت خوشی ہوئی جب ضرورت پڑنے پر میں نے کچھ نیپال کے بارے تلاش کیا تو آپ جیسے عظیم شخصیت کا مضمون نظر سے گزرا۔
    اللہ ہمیں اور سب کو اس طرح کام ۔۔آمین کرنے کی توفیق عطا فرمائے

    جواب دیںحذف کریں
Emoji
(y)
:)
:(
hihi
:-)
:D
=D
:-d
;(
;-(
@-)
:P
:o
:>)
(o)
:p
(p)
:-s
(m)
8-)
:-t
:-b
b-(
:-#
=p~
x-)
(k)