نیپال میں مدارس و مکاتب کی خستہ حالی ، اسباب و علاج




عبد الرحیم ثمر مصباحی


ہمالیہ کی گود میں واقع نیپال جوکہ کبھی خالص ہندو ملک تھا اور یہاں آباد بہت سے مسلمان ہندوں کی تہذیب و تمدن میں رنگے ہوئے تھے، ہولی، دیوالی ہندو مسلم کا مشترکہ تہوار ہوا کرتا تھا ۔ ایسے وقت میں اسلام کی بقا ، اسلامی تعلیمات کی ترویج و اشاعت اور دین کی دعوت و تبلیغ کے میدان میں نیپال کے مدارس و مکاتب نے کلیدی رول ادا کیا جس کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ علما کی بہتات اور مساجد کی کثرت مدارس و مکاتب ہی کی رہین منت ہے۔ آج مذہب و ملت کے تئیں مسلمانان نیپال کے اندر جو جذبہ و بیداری پائی جاتی ہے یہ سب فرزاندان مدارس اہل سنت نیپال کی محنت و لگن اور کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اس لیے آج بھی ملک نیپال میں مدارس و مکاتب کی اتنی ہی اہمیت و ضرورت ہے جتنی آج سے برسوں پہلے ہوا کرتی تھی۔

مذکورہ خوبیوں کے ساتھ آج کل کے مدراس و مکاتب اور ان کے نظام و نصاب تعلیم میں چند خامیاں و کمیاں بھی در آئیں ہیں جن کی وجہ سے نیپال کے مدارس و مکاتب دن بدن تنزلی اور خستہ حالی کا شکار ہو رہے ہیں ۔
چوں کہ عنوان میں مکاتب اور مدارس دونوں کا ذکر موجود ہے اور بھلے ہی دونوں قریب المعنی ہیں لیکن اپنے نظام و نصاب کی بنا پر دونوں کے درمیاں کافی حد تک تفاوت موجود ہے اس لیے ہم یہاں مدارس و مکاتب کا فردا فردا جائزہ لیں گے۔


مکاتب کی خستہ حالی کے اسباب

مکتب کا مطلب ہے وہ تعلیم گاہ جس میں بچوں کو ابتدائی تعلیم دی جائے جبکہ مدرسہ ، دار العلوم یا جامعہ میں متوسطات اور اعلی دینی تعلیم ہوتی ہے ۔ اس وقت ہمارے ملک نیپال کے اندر خاص کر مہوتری، دھنوشہ، سرہا، سرلاہی اور سنسری اضلاع میں اہل سنت و جماعت کے تقریبا ایک ہزار سے زائد مکاتب چل رہے ہیں اور بیشتر مکاتب کسی نہ کسی محلہ یا گاوں کی مسجدوں کے تحت ہیں جن کے ذمہ داران مساجد کے اراکین و ممبران ہیں اور معلم یا مدرس کا فریضہ مساجد کے ائمہ حضرات نبھا رہے ہیں ۔

کسی بھی چیز کی مضبوطی اور پائیداری کے لیے ضروری ہے کہ اس کی بیناد مضبوط سے مضبوط تر ہو ، مدارس اور دینی تعلیم کے سلسلے میں مکاتب کی تعلیم بھی بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے ۔ حرف کی ادائیگی ، قرآن کا مشق، املا نویسی، اردو خوانی اور دینیات کی بنیادی جانکاری یہ وہ اہم اور بنیادی چیزیں ہیں جن کی کمیاں درس نظامی کے دوران بلکہ بعد فراغت بھی محسوس ہوا کرتیں ہیں۔ باوجود اس کے بڑے ہی دکھ اور افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے نیپال کے اکثر مکاتب میں ان چیزوں کے لیے خاطر خواہ نہ کوئی مستحکم نظام ہے اور نہ ہی کوئی مستقل نصاب تعلیم۔ یہی وجہ ہے کہ روز بروز دینی تعلیم کا معیار گرتا جا رہا ہے، مدارس و مکاتب کے تئیں لوگوں کی بے رغبتی بڑھتی جا رہی ہے اور مسلمانوں کی توجہ دین سے زیادہ دنیا کی تعلیم کی طرف مبذول ہو رہی ہے ۔ ذیل میں ہم مکاتب کی اس خستہ حالی کے چند اسباب و وجوہات اور ان کے حل کی صورتیں بیان کر رہے ہیں۔
مستحکم نظام ونصاب کا فقدان: مکتب کی تعلیم اور نظام تعلیم کا عالم یہ ہے کہ صبح صبح نہار منہ میلے کچیلے گندے کپڑوں میں ملبوس بغل میں کتابوں کا بستہ اور بیٹھنے کے لیے بوریا دباے بچے مکتب آتے ہیں جن کی درس گاہ مکتب کے بڑے ہال میں یا مسجد کے صحن میں لگتی ہے ۔ بچے مشترکہ درس گاہ میں جہاں جس کو جگہ ملے بیٹھ جاتے ہیں۔ اب امام صاحب پنج وقتہ نماز کی ذمہ داری ،میلاد و فاتحہ، جھاڑ پھونک، نکاح خوانی و برات کی شرکت اور مرغا خصی حلال کرنے کے بعد تھوڑا سا وقت نکال کر ملک و ملت کے مستقبل ان نونہالوں کو درس دینے بیٹھتے ہیں ۔ پھر شروع ہوتا ہے تعلیم کا سلسلہ۔ بیک وقت پانچ دس بچے امام صاحب کے ارد گرد جمع ہوجاتے ہیں اور سبق سنانا شروع کرتے ہیں ۔ امام صاحب کا دھیان بچوں کا سبق سننے میں کم اور شور و غل کرتے بچوں کو چپ کرانے کی خاطر ڈنڈا پٹکنے، آنے والے اراکین و ممبران سے مجبورا خندہ پیشانی سے ملنے اور جبرا حال چال پوچھنے اور تپائی کے نیچے رکھے مبائل کی نوٹیفیکیشن پر زیادہ ہوتا ہے۔ پھر چند ساعت کے بعد تیز آواز میں امام صاحب بچوں سے دریافت کرتے ہیں، بچوں سبق پڑھ لیے؟ اور تمام بچوں کا بیک زبان فلک شگاف جواب بلند ہوتا ہے، جی حضرررررررت ۔۔۔۔۔۔تو ٹھیک ہے بچو ! چھٹی کرو۔
اس ہنگامہ خیز اور افرا تفری کے ماحول میں تعلیم کیا ہوتی ہوگی آپ کو اندازہ ہوہی گیا ہوگا اور اگر نہ ہوا ہو تو لگے ہاتھوں بتاتا چلوں کہ مکتب میں کلاس کا کوئی سسٹم نہیں بلکہ اگر قاعدہ بغدادی پڑھنے والے دس بچے ہیں تو ہر ایک بچہ کا سبق الگ الگ ملے گا۔ مکتب میں پڑھنے والے بیشتر بچوں کا حال یہ ہے کہ کسی کا چھ ماہ سے ورق پلٹتا ہی نہیں تو کوئی دو چار مہینوں سے حرف کے بعد حرکت کی پہچان ہی کرنے میں لگا ہے ، کسی کو ہجے سیکھنے میں مہینوں بیت گیے تو کچھ سالوں بعد قرآن پڑھنا نہیں سیکھ پایا۔ حالاں کہ اکثر مکاتب میں تین وقت درس گاہ لگنے کا ماحول ہے، صبح چھ یا سات بجے سے دس یا گیارہ بجے دن تک ، دو پہر بعد ظہر سے عصر تک اور شام بعد مغرب سے عشا تک۔ لیکن اس کے باوجودتعلیم کا نتیجہ صفر ہے، جس کی اصل وجہ نظام اور نصاب کی کمی ہے۔آدھی صدی سے بھی قبل سے چل رہے مکاتب میں کسی مستحکم نظام اور مضبوط نصاب کا نہ ہونا اپنے آپ میں بہت بڑی حیرت اور افسوس کی بات ہے۔اور حد تو یہ ہے کہ مکاتب میں پڑھنے والے اکثر بچوں کو یہ نہیں معلوم کہ امتحان کس چڑیا کا نام ہے۔ ذرا سوچیے ، آج کے اس اکیسویں صدی میں بھی کسی تعلیم گاہ میں امتحان کا تصور تک نہ ہونا نظام کے عدم استحکام کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہو سکتی ہے ؟
مکتب کی اس خستہ حالی کو دور کرنے کے لیے ہم سب کو انفرادی اور اجتماعی کوشش کرنی ہوگی، پہلے کسی تنظیم یا جمیعۃ کے تحت سارے مکاتب کو لاکر اس کے لیے سسٹم اور نظام بنانا ہوگا پھر نصاب کو از سر نو مرتب کرکے جاری کرنا ہوگا تب جا کر کہیں ہم مکاتب کی موجودہ خستہ حالی کو دور کر سکتے ہیں ۔ اس کے لیے درج ذیل تدابیر مفید ثابت ہو سکتی ہیں:

  • ? سب سے پہلے علما و دانشوران کی ایک ٹیم بنے جو نیپال کے جملہ مکاتب کا دورہ کرکے وہاں کی تعلیم اور ماحول کا جائزہ لے کر زمینی سطح پر کام کرنے کے لیے لائحہ عمل تیار کرے۔ ساتھ ہی ان سب کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لیے ماحول سازی بھی کرے ۔
  • ? مکاتب میں پڑھنے والے بچوں کے معیار کا خیال کرتے ہوئے ایک مضبوط نصاب نرسری سے لے کر کم سے کم پانچ کلاس تک مرتب کرے جس میں عقائد ، فقہ، اخلاق ، تاریخ، تزکیہ، تجوید اور مخصوص سورتوں کے حفظ کے ساتھ نرسری والوں کے لیے حروف کی پہچان، مشق قرآن وغیرہ شامل ہوں۔
  • ? نصاب کے ساتھ ضروری ہے کہ ایک مستحکم نظام بھی بنا کر مکاتب میں نافذ کرے جس میں تعلیم ، نظام الاوقات اور امتحانات وغیرہ سے متعلق اہم اور ضروری چیزوں کا ذکر موجود ہوں۔
  • نیپال کے مکاتب میں جدید نصاب و نظام کو نافذ کرنا مشکل ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں ، کیوں کہ نیپال کے مکاتب کی خستہ حالی و تنزلی سے ہر کوئی پریشان ہے اور ہر کسی کی خواہش ہے کہ مکاتب میں عمدہ نظام اور بہتر نصاب ہو تاکہ ہمارے بچے اچھے اور قابل بنیں ۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ کوئی تنظیم یا جماعت اس کام کا بیڑا اٹھا کر قدم آگے بڑھائے۔ مجھے امید ہے کہ نیپال کے علما و دانشوران حضرات اس جانب توجہ دیں گے اور مکاتب کے لیے مضبوط اور مستحکم نصاب و نظام مرتب فرمائیں گے۔
  • اساتذہ کی کمی: مکاتب کی تعلیم کے سلسلہ میں ایک تشویش ناک پہلو اساتذہ کی تعداد بھی ہے۔تقریبا اکثر مکاتب میں کم تنخواہ میں متعین غیر معیاری ائمہ مساجد کے سر پچاس پچاس سوسو بلکہ اسے بھی زائد بچوں کی تعلیم کی ذمہ داری تھوپ دی جاتی ہے۔ایک تو تقرری کے وقت معیار کا خیال نہیں کیا جاتا اوپر سے مساجد سے لے کر مکاتب تک کی ساری ذمہ داریاں تنہا امام کے سر ڈال دی جاتیں ہیں ۔ اب ایسے میں بچوں کی اچھی تعلیم کی امید لگانا گویا املی کے پیڑ سے آم کا پھل کھانے جیسا ہے۔ اس لیے:
  • ? ذمہ داران کو چاہیے کہ مکتب پڑھانے کے لیے الگ سے قابل و تجربہ کار معلم کی تقرری کریں یا کم از کم امام کے ساتھ ایک نائب امام بھی رکھیں ۔
  • ? بچوں کی تعداد کے مطابق اساتذہ کی تعداد میں بھی اضافہ کریں۔
  • ? بنی بنائی عمارت توڑ کر جدید طرز پر بنانے کے لیے خزانہ خالی کرنے سے بہتر ہے کہ قوم کے مستقل نونہالوں کی اچھی تعلیم کی خاطر اساتذہ کی تعداد میں اضافہ کریں۔
  • ذمہ داران کی عدم دلچسپی: کسی بھی نظام کے استحکام اور عدم استحکام کا دار و مدار انتظامیہ پر ہوتا ہے۔ انتظامیہ کمیٹی کی تشکیل ہی اس لیے دی جاتی ہے کہ وہ نظام کو اعتدال و استحکام کے ساتھ چلائے۔مکاتب کی خستہ حالی میں ذمہ داران مکاتب کی کوتاہی اور عدم دلچسپی کا بہت بڑا عمل دخل ہے۔ انھیں اس سے کوئی مطلب نہیں کہ مکاتب میں تعلیم ہو رہی ہے یا نہیں ۔ اس لیے:
  • ? ائمہ مساجد کو چاہیے کہ اپنی تقریر وخطابت کے ذریعہ وقتا فوقتا تعلیم کی اہمیت بیان کرکے دینی تعلیم کے تئیں لوگوں کی ذہن سازی کرتے رہیں۔
  • ? والدین کو بھی چاہیے کہ اپنے بچوں کی تعلیم کے بارے میں ذمہ داران مکاتب سے باز پرس کریں۔
  • ? گاوں اور محلہ والوں کو چاہیے کہ مکاتب کی ذمہ داری دیندار اور تعلیم یافتہ لوگوں کے سپرد کریں تاکہ وہ خلوص و للہیت کے ساتھ مکاتب کی تعلیم و ترقی کے لیے کوشاں رہیں۔


ذات پات کی سیاست

شہروں میں تو مدعا ومقاصد کی بنا پر سیاست ہوتی ہے جبکہ دیہات میں ذات پات اور خاندانی رعب و دبدبہ کے بل بوتے پر سیاست کی جاتی ہے۔ اکثر ہمارے نیپال میں لوگ مساجد و مکاتب کو مخصوص ذات اور زور آور خاندان کی تحویل میں رکھنے کی خاطر مساجد و مکاتب کے مفاد اور اس کی ترقی کو بھی داو پر لگا دیتے ہیں۔ اب تو چند سالوں سے یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ نیپال میں ائمہ کی تقرری میں معیار اورقابلیت کی بجائے ذات کو فوقیت دی جارہی ہے۔ اگر فی الواقع معاملہ ایسا ہی ہے تو اس قوم کا خدا ہی نگہبان ہے۔
نیپال کے درجنوں مکاتب کا جائزہ لینے کے بعد میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ ذمہ داران مکاتب میں سے کچھ لوگوں کو مساجد و مکاتب سے دلچسپی محض ذاتی اور دنیوی مفاد کے لیے ہوتی ہے باقی تعلیم وترقی سے انھیں کوئی سرو کار نہیں ہوتا ۔ مکاتب کی تنزلی اور خستہ حالی کے اصل ذمہ دار یہی لوگ ہیں جو خدا و رسول کے گھر میں ذات پات اور خاندان کی سیاست کرتے ہیں۔ مکاتب کو اس ذات پات کی سیاست سے پاک رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم لوگوں کو ذات پات کا اصل مقصد (لتعارفوا) سمجھائیں اور ذاتی عصبیت کی بنا پر مذہب و ملت کو ہورہے نقصانات سے واقف کرائیں۔یقینا خانہ خدا و رسول میں کسی بھی طرح کی سیاست نامناسب ہے اور ذات پات کی سیاست تو قطعی مذموم ہے۔


والدین کی عدم توجہی

 مکاتب کی خستہ حالی میں کہیں نہ کہیں مکاتب میں پڑھنے والے اکثر بچوں کے ماں باپ کی عدم توجہی بھی کار فرما ہے۔اسکولی تعلیم کی بنسبت دینی تعلیم میں والدین بہت زیادہ دلچسپی نہیں لیتے بلکہ اکثریت تو ایسے لوگوں کی ہے جنھیں کبھی توفیق ہی نہیں ملتی کہ کم از کم وہ اپنے ہی بچوں سے دریافت کرلیں کہ آج وہ سبق پڑھا یا نہیں، ہوم ورک ملا یا نہیں اور چند سالوں سے ایک ہی کتاب کیوں پڑھ رہا ہے ؟ اور اس کی سب سے بڑی وجہ خود والدین کے اندر دینی تعلیم اور دینداری کی کمی ہے۔ خستہ حالی کے اس سبب کو دور کرنے کے لیے علما، ذمہ داران مکاتب اور ائمہ مساجد کو چاہیے کہ:


? مہینہ میں کم سے کم ایک بار پیرنٹس میٹنگ (Parents Meeting)ضرور رکھیں جس میں مکتب میں پڑھنے والے طلبا کے والدین کو مدعو کریں اوران کے سامنے ان کے بچوں کی تعلیمی سرگرمیاں پیش کریں تاکہ انھیں معلوم ہو کہ ان کے بچے کیا پڑھتے ہیں اوردوسرے بچوں کے مقابلے ان کے اپنے بچوں میں کیا کیا کمیاں رہ گئیں ہیں۔
? تعلیمی کمپین(Campaign) ، جلوس اور تقریر و خطابت کے ذریعہ مسلم سماج میں دینی تعلیم کی اہمیت و ضرورت کو اجاگر کریں تاکہ والدین کے اندر دینی تعلیم کی خاطر جذبہ و بیداری پیدا ہو اور وہ مکاتب کی تعلیم میں دلچسپی دکھائیں۔
? ائمہ مساجد ، علما اور دین کا درد رکھنے والے حضرات کو چاہیے کہ انفرادی کوشش کے ذریعہ بھی لوگوں کے اندر دینی تعلیم کے لیے ذہن سازی کرتے رہیں اور جو والدین اپنے بچوں کو مکتب نہیں بھیجتے ان سے براہ راست گفتگو کرکے آمادہ کریں ۔
واضح رہے کہ دینداری کے بغیر دینی کام کرنا نا ممکن ہے اور آنے والی نسلوں کے اندر دینداری پیدا کرنے کے لیے دینی تعلیم ہمارے پاس ایک مضبوط اور مستحکم ذریعہ ہے اس لیے سماج میں دینی تعلیم کے تئیں جذبہ و بیداری پیدا کرنا ہم سب کا اولین فریضہ ہے۔

مذکورہ اسباب کے علاوہ اور بھی چند اسباب ہیں جو ہمارے نیپال کے مکاتب کو خستہ حال بنا رہے ہیں ہم سب کو سنجیدگی کے ساتھ غور کرکے انھیں دور کرنا ہوگا تب جاکر ہم نیپال میں دینی تعلیم کو عام اورترقی یافتہ معیاری مکاتب کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر سکتے ہیں۔

ایک آخری بات کے بعد میں ان شاء اللہ مدارس کی طرف آوں گا کہ ایک تو پہلے ہی سے مساجد ومکاتب کی ذمہ داری اور عہدوں کو لے کر مساجد و مکاتب میں سیاست کا بازار گرم ہے اوپر سے نیپال میں معمولی سرکاری مراعات کی خاطر مدارس و مکاتب اور مساجد کو سرکاری کرنے کی ہوڑ لگی ہوئی ہے جو خدا و رسول کے گھر کو سیاست کی منڈی بنانے میں اہم رول ادا کر رہی ہے۔تھوڑی دیر کے لیے مدارس کو سرکاری کرنے والی بات سمجھ میں آرہی ہے کہ وہ درس گاہ ہے اس لیے ان کو سرکاری مراعات و امداد ملنی چاہیے ۔ مکاتب کو بھی سرکاری کرنے والی بات مان لیتے ہیں لیکن مساجد والی بات کسی طرح ہضم نہیں ہو رہی ہے کیوں کہ یہ تو خالص مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے ہم اسے سرکاری کیوں کر رہے ہیں جبکہ مساجد کی سرکاری منظوری کے بابت اس طرح کا کوئی لازمی قانون بھی نہیں۔ کیا ہمیں معلوم نہیں کہ سرکاری کرنے کا مطلب کلی طور پر حکومت کی تحویل میں دینا ہوتا ہے جس میں حکومت جب چاہے اپنا عمل دخل کر سکتی ہے؟ منظوری سے قبل جس دستور پر ہم سے دستخط لی جاتی ہے اس میں باضابطہ یہ مذکور ہوتا ہے کہ اس سنستھا ( مدارس، مکاتب، مساجد، تنظیم وغیرہ) پر حکومت کا بھی برابر کا اختیار ہوگا۔ جس کا صاف مطلب ہے کہ اگر کوئی متعصب حکومت دخل اندازی کرنا چاہے تو دستور کی رو سے ہم انھیں روک نہیں سکتے۔ دھارمک سنستھا کو سرکاری کرانے والوں میں سے اکثر کو یہ بھی نہیں معلوم ہوتا ہے کہ دستور کا جو خاکہ ہمیں دیا جاتا ہے ہم اس میں ترمیم بھی کر سکتے ہیں اور اپنے مذہب کے مفاد کے لیے چند قوانین کا اضافہ بھی کر سکتے ہیں تاکہ مستقبل میں ہم ان قوانین کے بل بوتے پر حکومت کی دخل اندازی کو کسی حد تک روک سکے۔ خدا نہ کرےاگر مستقبل میں فرقہ پرست پارٹی برسر اقتدار آئے اور پڑوسی ملک ہندوستان کی طرح فرقہ وارانہ ماحول پیدا کرکے ہمارے نجی معاملات میں دخل اندازی کی کوشش کرے تو ہمیں بھی مجبورا "وند ماترم" اور" جن گن من" گانے کی طرح "رام جینتی" ، "رام نومی" وغیرہ مشرکانہ عمل کا ارتکاب کرنا پڑے۔اس وقت ہم کف افسوس ملنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتے۔ اس لیے مدارس و مکاتب اور مساجد کو سرکاری تحویل میں دینے سے پہلے ہمیں سنجیدگی کے ساتھ ہر پہلو پر غور و فکر کرلینا چاہیے تاکہ آنے والے کل میں ہمیں اور ہماری نسلوں کو پچھتانا نہ پڑے۔غالبا انھیں سب وجوہات کی بنا پر جنوبی ہند کے ایک بھی مکتب یا مدرسہ سرکاری نہیں حالاں کہ وہاں کی حکومت انھیں بارہا امداد اور سرکاری نوکری کی پیش کش کر چکی ہے اوراب بھی کر رہی ہے لیکن نہ وہاں کے علما اس بات پر راضی ہیں نہ وہاں کی عوام اپنے مذہبی معاملات میں حکومت کی دخل اندازی پسند کرتی ہیں۔ ان شاء اللہ جلد ہی اس عنوان پر تفصیلی مقالہ پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

Emoji
(y)
:)
:(
hihi
:-)
:D
=D
:-d
;(
;-(
@-)
:P
:o
:>)
(o)
:p
(p)
:-s
(m)
8-)
:-t
:-b
b-(
:-#
=p~
x-)
(k)