عیدین کا بیان
مسائلِ فقہیّہ
عیدین کی نماز
واجب ہے مگر سب پر نہیں بلکہ انھيں پر جن پر جمعہ واجب ہے اور اس کی ادا کی وہی شرطیں
ہیں جو جمعہ کے ليے ہیں صرف اتنا فرق ہے کہ جمعہ میں خطبہ شرط ہے اور عیدین میں سنت،
اگر جمعہ میں خطبہ نہ پڑھا تو جمعہ نہ ہوا اور اس میں نہ پڑھا تو نماز ہوگئی مگر بُرا
کیا۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ جمعہ کا خطبہ قبل نماز ہے اور عیدین کا بعد نماز، اگر پہلے
پڑھ لیا تو بُرا کیا، مگر نماز ہوگئی لوٹائی نہیں جائے گی اور خطبہ کا بھی اعادہ نہیں
اور عیدین میں نہ اذان ہے نہ اقامت، صرف دوبار اتنا کہنے کی اجازت ہے۔ اَلصَّلٰوۃُ
جَامِعَۃٌ ؕ۔[1] (عالمگیری،
درمختار وغیرہما) بلاوجہ عيد کی نماز چھوڑنا گمراہی و بدعت ہے۔[2] (جوہرہ نيرہ)
مسئلہ ۱: گاؤں
میں عیدین کی نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے۔[3] (درمختار) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ
چہارم،صفحہ۷۷۹)
نماز عید کا طریقہ
نماز عید کا طریقہ
یہ ہے کہ دو رکعت واجب عیدالفطر یا عيداضحی کی نیت کر کے کانوں تک ہاتھ اٹھائے اوراللہ
اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لے پھر ثنا پڑھے پھر کانوں تک ہاتھ اٹھائے اوراللہ اکبر کہتا
ہوا ہاتھ چھوڑ دے پھر ہاتھ اٹھائے اوراللہ اکبر کہہ کر ہاتھ چھوڑ دے پھر ہاتھ اٹھائے
اوراللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لے یعنی پہلی تکبیر میں ہاتھ باندھے، اس کے بعد دو
تکبیروں میں ہاتھ لٹکائے پھر چوتھی تکبیر میں باندھ لے۔ اس کو یوں یاد رکھے کہ جہاں
تکبیر کے بعد کچھ پڑھنا ہے وہاں ہاتھ باندھ ليے جائیں اورجہاں پڑھنا نہیں وہاں ہاتھ
چھوڑ ديے جائیں، پھر امام اعوذ اور بسم اللہ آہستہ پڑھ کر جہر کے ساتھ الحمد اور سورت
پڑھے پھر رکوع و سجدہ کرے، دوسری رکعت میں پہلے الحمد و سورت پڑھے پھر تین بار کان
تک ہاتھ لے جا کراللہ اکبر کہے اور ہاتھ نہ باندھے اور چوتھی بار بغیر ہاتھ اٹھائےاللہ
اکبر کہتا ہوا رکوع میں جائے، اس سے معلوم ہوگیا کہ عیدین میں زائد تکبیریں چھ ہوئیں،
تین پہلی ميں قراء ت سے پہلے اور تکبیر تحریمہ کے بعد اور تین دوسری میں قراء ت کے
بعد، اور تکبیر رکوع سے پہلے اور ان چھوؤں تکبیروں میں ہاتھ اٹھائے جائیں گے اور ہر
دو تکبیروں کے درمیان تین تسبیح کی قدر سکتہ کرے اور عیدین میں مستحب یہ ہے کہ پہلی
میں سورۂ جمعہ اور دوسری میں سورۂ منافقون پڑھے یا پہلی میں سَبِّحِ اسْمَ اور دوسری
میں ھَلْ اَ تٰکَ ۔ [4] (درمختار وغیرہ)
مسئلہ ۸: امام
نے چھ تکبیروں سے زیادہ کہیں تو مقتدی بھی امام کی پیروی کرے مگر تیرہ سے زیادہ میں
امام کی پیروی نہیں۔[5] (ردالمحتار)
مسئلہ ۹: پہلی
رکعت میں امام کے تکبیر کہنے کے بعد مقتدی شامل ہوا تو اسی وقت تین تکبیریں کہہ لے
اگرچہ امام نے قراء ت شروع کر دی ہو اور تین ہی کہے، اگرچہ امام نے تین سے زیادہ کہی
ہوں اور اگراس نے تکبیریں نہ کہیں کہ امام رکوع میں چلا گیا تو کھڑے کھڑے نہ کہے بلکہ
امام کے ساتھ رکوع میں جائے اور رکوع میں تکبیر کہہ لے اور اگر امام کو رکوع میں پایا
اور غالب گمان ہے کہ تکبیریں کہہ کر امام کو رکوع میں پا لے گا تو کھڑے کھڑے تکبیریں
کہے پھر رکوع میں جائے ورنہاللہ اکبر کہہ کر رکوع میں جائے اور رکوع میں تکبیریں کہے
پھر اگر اس نے رکوع میں تکبیریں پوری نہ کی تھیں کہ امام نے سر اٹھا لیا تو باقی ساقط
ہوگئیں اور اگر امام کے رکوع سے اٹھنے کے بعد شامل ہوا تو اب تکبیریں نہ کہے بلکہ جب
اپنی پڑھے اس وقت کہے اور رکوع میں جہاں تکبیر کہنا بتایا گیا، اس میں ہاتھ نہ اٹھائے
اور اگر دوسری رکعت میں شامل ہوا تو پہلی رکعت کی تکبیریں اب نہ کہے بلکہ جب اپنی فوت
شدہ پڑھنے کھڑا ہو اس وقت کہے اور دوسری رکعت کی تکبیریں اگر امام کے ساتھ پا جائے،
فبہا ورنہ اس میں بھی وہی تفصیل ہے جو پہلی رکعت کے بارہ میں مذکور ہوئی۔ [6] (عالمگیری،
درمختار وغیرہما)
مسئلہ ۱۰: جو شخص
امام کے ساتھ شامل ہوا پھر سو گیا یا اس کا وضو جاتا رہا، اب جو پڑھے تو تکبیریں اتنی
کہے جتنی امام نے کہیں، اگرچہ اس کے مذہب میں اتنی نہ تھیں۔ [7] (عالمگیری)
مسئلہ ۱۱: امام
تکبیر کہنا بھول گیا اور رکوع میں چلا گیا تو قیام کی طرف نہ لوٹے نہ رکوع میں تکبیر
کہے۔ [8] (ردالمحتار)
مسئلہ ۱۲: پہلی
رکعت میں امام تکبیریں بھول گیا اور قراء ت شروع کر دی تو قراء ت کے بعد کہہ لے يا
رکوع ميں اور قراء ت کا اعادہ نہ کرے۔[9] (غنیہ، عالمگیری)
مسئلہ ۱۳: امام
نے تکبیراتِ زوائد میں ہاتھ نہ اٹھائے تو مقتدی اس کی پیروی نہ کرے بلکہ ہاتھ اٹھائے۔
[10] (عالمگیری وغيرہ)
مسئلہ ۱۴: نماز
کے بعد امام دو خطبے پڑھے اور خطبۂ جمعہ میں جو چیزیں سنت ہیں اس میں بھی سنت ہیں
اور جو وہاں مکروہ یہاں بھی مکروہ صرف دو باتوں میں فرق ہے ایک یہ کہ جمعہ کے پہلے
خطبہ سے پیشتر خطیب کا بیٹھنا سنت تھا اور اس میں نہ بیٹھنا سنت ہے دوسرے یہ کہ اس
میں پہلے خطبہ سے پیشتر نو بار اور دوسرے کے پہلے سات بار اور منبر سے اترنے کے پہلے
چودہ باراللہ اکبر کہنا سنت ہے اور جمعہ میں نہیں۔ [11] (عالمگیری درمختار وغیرہما)
مسئلہ ۱۵: عیدالفطر
کے خطبہ میں صدقۂ فطر کے احکام کی تعلیم کرے، وہ پانچ باتيں ہیں:
(۱) کس پر واجب ہے؟
(۲) اور کس کے ليے؟ (۳) اور کب؟ (۴) اور کتنا؟ (۵) اور کس چیز سے؟۔
بلکہ مناسب یہ
ہے کہ عید سے پہلے جو جمعہ پڑھے اس میں بھی یہ احکام بتا ديے جائیں کہ پیشتر سے لوگ
واقف ہو جائیں اور عيداضحی کے خطبہ میں قربانی کے احکام اور تکبیرات تشریق کی تعلیم
کی جائے۔[12] (درمختار، عالمگیری)
مسئلہ ۱۶: امام
نے نماز پڑھ لی اور کوئی شخص باقی رہ گیا خواہ وہ شامل ہی نہ ہوا تھا یا شامل تو ہوا
مگر اس کی نماز فاسد ہوگئی تو اگر دوسری جگہ مل جائے پڑھ لے ورنہ نہیں پڑھ سکتا، ہاں
بہتر یہ ہے کہ یہ شخص چار رکعت چاشت کی نماز پڑھے۔[13] (درمختار)
کے سبب عید کے
دن نماز نہ ہو سکی (مثلاً سخت بارش ہوئی یا ابر کے سبب چاند نہیں دیکھا گیا اور گواہی
ایسے وقت گزری کہ نماز نہ ہو سکی یا ابر تھا اور نماز ایسے وقت ختم ہوئی کہ زوال ہو
چکا تھا) تو دوسرے دن پڑھی جائے اور دوسرے دن بھی نہ ہوئی تو عیدالفطر کی نماز تیسرے
دن نہیں ہو سکتی اور دوسرے دن بھی نماز کا وہی وقت ہے جو پہلے دن تھا یعنی ایک نیزہ
آفتاب بلند ہونے سے نصف النہار شرعی تک اور بلاعذر عیدالفطر کی نماز پہلے دن نہ پڑھی
تو دوسرے دن نہیں پڑھ سکتے۔ [14] (عالمگیری، درمختار وغیرہما)
Social Plugin