نیپال میں برتھ کنٹرول کے بڑھتے رجحانات اور شریعت اسلامیہ

 




نیپال میں برتھ کنٹرول کے بڑھتے رجحانات اور شریعت اسلامیہ

مفتی عطاء النبی حسینی مصباحی

آج سے تقریبا دس بارہ سال پہلے گاؤں یا آس پاس کے علاقوں میں کسی بچے کی ولادت کی خبر ملتی تھی تو یہ سننے میں آتا تھا کہ گھر پر ہی بچے کی ولادت ہو ئی، مگر آہستہ آہستہ ولادت کا یہ سلسلہ ہاسپٹل میں منتقل ہونے لگا ۔ ابتداءً ہاسپٹل میں ہونے والی ولادت کے بارے میں یہ خبر ملتی تھی کہ نارمل ڈیلیوری (Normal Delivery)ہوئی ہے، مگر نارمل ڈیلیوری کو نظر لگ گئی اور پھر بڑے آپریشن سے ولادت ہونے لگی اور اب تو بیشتر ولادت بڑے آپریشن سے ہی ہوتی ہے خصوصا جب کہ ڈیلیوری کا کیس پرائیوٹ ہاسپٹل کے سپرد ہو تو بڑے آپریشن کا امکان اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس بڑے آپریشن کے زیر سایہ برتھ کنٹرول یعنی نس بندی اور بچہ دانی نکلوانے کو فروغ ملا اور یہ سلسلہ روز بروز بڑھتا ہی جارہا ہے۔ برتھ کنٹرول یعنی بچہ دانی نکلوانے اور نس بندی کرانے میں جہاں غیر مسلم عورتیں ملوث ہیں وہیں مسلم عورتوں کی ایک بڑی تعداد بھی اس فعل کا ارتکاب کر رہی ہے۔

مسلم عورتوں کا ایسا کرنے اور ان کے شوہروں کا اس فعل کی اجازت دینے سے پہلے یہ غور کرنا اور معلوم کرنا ضروری ہے کہ کیا یہ فعل شریعت کی نظر میں جائز ہے؟ اگر جائز ہے تو ٹھیک لیکن اگرجائز نہیں ہے تو جس مقصد کے لیے یہ فعل انجام دیا جارہا ہے اس مقصد کے حصول کے لیے شریعت کی نظر میں کوئی جائز طریقہ اور حل ہے ؟ اور اگر ہے تو وہ کیا ہیں؟

شرعی احکام سے ناواقف افراد کی واقفیت کے لیے برتھ کنٹرول کی صورتوں اور ان کے شرعی احکام بیان کرنے کا ارادہ ہوا مگر اس سے قبل ہم برتھ کنٹرول کا ایک تاریخی جائزہ پیش کریں گےتاکہ اس کی تاریخ سے آشنائی ہو سکے۔

برتھ کنٹرول کیا ہے؟: بچوں کی ولادت کا سلسلہ ختم کرنا یا بچوں کی ولادت کے اوقات میں مناسب وقفہ کے لیے تدابیر اختیار کرنا انگلش میں Birth Control اور Family Planning ا ور اردو میں ضبط ولادت یا خاندانی منصوبہ بندی کہلاتا ہے۔بلفظ دیگر ’’ ہم دو ہمارے دو‘‘ اور ’’ چھوٹا پریوار سکھی پریوار‘‘ کی راہ اختیار کرنا برتھ کنٹرول ہے۔

برتھ کنٹرول کی تحریک کا آغاز: اس فکر و تحریک کی ابتدا اٹھارہویں صدی عیسوی کے اواخر میں ہوئی۔ انگریز قوم کی ترقی اور خوش حالی کی وجہ سے انگلستان کی آبادی تیزی سے بڑھنے لگی، نسل انسانی کی بڑھتی تعداد پر غور کیا گیا کہ زمین پر قابل سکونت مقامات محدود ہیں اور معیشت کے وسائل بھی محدود ہیں جب کہ نسل انسانی کی افزائش کا سلسلہ غیر محدود۔ اگر افزائش نسل کا یہ سلسلہ اپنی طبعی رفتار سے بڑھتا رہا تو پھر بساط زمین تنگ ہو جائے گی اور معیشت کے وسائل بھی کم پڑ جائیں گے۔اس کے بعد بڑی دشواریوں کا سامنا کر پڑ سکتا ہے۔مستقبل میں پیش آنے والے اس مسئلے کو ایک انگریز ماہر معاشیات تھاس رابرٹ مالتھوس (Thomas Robert Malthus 1766 – 1834 )نے مصیبت سمجھ کر اس سے چھٹکارے کے لیے ۱۷۹۸ء میں اپنے ایک رسالے “An Assay on the Principle of Population ” میں بڑی عمر میں شادی کرنے اور ضبط نفس سے کام لینے کا مشورہ پیش کیا ۔ اس اعتبار سے مالتھوس اس تحریک کا اولین محرک ہے۔(https://en.m.wikipedia.org/wiki/Thomas_Robert_Malthus )

اس کے بعد فرانس میں فرانسس پلاس (Francis Place 1771 – 1854) نے اپنی کتاب ( Illustrations and Proof of the Principle of Population) میں افزائش نسل کے روک تھام کی ضرورت کو ظاہر کیا۔ 

(https://en.m.wikipedia.org/wiki/Francis_Place )اس کے بعد ۱۸۳۳ء میں امریکہ کے ایک مشہور ڈاکٹر چارلس نولٹن ( Charles Knowlton 1800 – 1850 ) نے بھی اس نظریے کی تائید کی اور ایک کتاب The Fruits of Philosophy لکھی، جس میں منع حمل کے طبی طریقوں کی وضاحت اور اس کے فوائد و ثمرات بیان کیے گئے تھے۔(https://en.m.wikipedia.org/wiki/Charles_Knowlton )

تحریک کی نشاۃ ثانیہ: مالتھوس کی چلائی گئی تحریک اس زمانے میں زیادہ کامیاب نہ رہی اور رفتہ رفتہ دم توڑ گئی مگر پھر انیسویں صدی کے ربع آخر میں اس تحریک کی نشاۃ ثانیہ ہوئی جو ’’ نو مالتھوس تحریک‘‘ ( Neo Malthusian Movement) کے نام سے متعارف ہوئی۔ ۱۸۷۶ء میں مسز اینی بینٹ (Mrs. Annie Besant 1847 - 1933) نے اپنے انتہائی قریبی دوست چارلس بریڈ لا (Charles Bradlaugh 1833 - 1891) کے ساتھ مل کر ڈاکٹر نولٹن کی کتاب ’’ The Fruits of Philosophy‘‘شائع کی اور ۱۸۷۷ء میں ڈاکٹر ڈریسڈیل (Charles Vickery Drysdale 1874 - 1971)نے ایک انجمن بنام ’’Malthusian League ‘‘ قائم کی جس کے تحت ضبط ولادت کی پر زور تائید اور نشر و اشاعت شروع ہوئی،پھر یہ تحریک پھیلتی گئی اور رفتہ رفتہ پوری دنیا میں پھیل گئی۔اب دنیا میں شاید کوئی ایسا ملک نہ ہوگا جہاں مرد یا عورت برتھ کنٹرول کا عمل نہ کرتے کرواتے ہوں۔( https://en.m.wikipedia.org/wiki/Annie_Besant )

برتھ کنٹرول کی قسمیں اور صورتیں: برتھ کنٹرول دو طرح کا ہوتا ہے: ایک مستقل (Permanent)اور دو عارضی (Temporary) پھر ان میں سے ہر ایک کی مختلف صورتیں ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:


عارضی برتھ کنٹرول کی صورتیں:

(۱) کنڈوم: یہ غبارہ نما ایک چیز ہے جسے مرد اپنے آلۂ تناسل میں غلاف کے طریقے سے لگا کر صحبت کرتا ہے تو مرد کا مادۂ منویہ عورت کی شرم گاہ یا رحم میں نہیں جاتا اور استقرار حمل نہیں ہو پاتا۔

(۲) لوپ (۳) ڈایا فرام: اسے رحم کی ٹوپی کہا جا سکتا ہے۔ ان دونوں چیزوں کو عورت کے رحم کے منہ پر لگا دیا جاتا ہےجو مرد کے مادۂ منویہ کو اندر پہنچنے سے روکتی ہیں۔

(۴) گولیاں : یہ غالبا ۳۵؍ عدد ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر، عورت کو ماہواری کے پہلے روز سے لگاتار استعمال کرواتے ہیں اور عورت کو ہر ماہ مسلسل استعمال کرنا ہوتا ہے۔

(۶) کاپر ٹی : یہ ایک خاص قسم کی دھات ’’ کاپر ‘‘ سے بنا انگریزی حرف’’ T ‘‘ کی شکل کے مشابہ ایک آلہ ہے، جسے رحم کے منہ کے قریب لگا یا جاتا ہے۔

عارضی برتھ کنٹرول کے احکام: فقہاے کرام و مفتیان عظام نے برتھ کنٹرول کی درج بالا تمام تمام صورتوں کو مخصوص اعذار و شرائط کے ساتھ اختیار کرنے کی اجازت عطا فرمائی ہے۔ امام احمدرضا خان ﷫ فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں : ہاں ایسی دوا کا استعمال جس سے حمل نہ ہونے پائے اگر کسی ضرورت شدیدہ قابل قبول شرع کے سبب ہے حرج نہیں ورنہ سخت شنیع ومعیوب ہے اور شرعاً ایساقصد ناجائزوحرام۔( فتاوی رضویہ جدید، ج:۲۴، ص: ۲۰۹، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

فقیہ ملت مفتی جلال الدین امجدی ﷫ تحریر فرماتے ہیں: کسی جائز مقصد کے پیش نظر وقتی طور پر ضبط تولید کے لیے کوئی دوا یا ربر کی تھیلی استعمال کرنا جائز ہے لیکن کسی عمل سے ہمیشہ کے لیے قوت تولید کو ختم کر دینا کسی طرح جائز نہیں۔(فتاوی فیض الرسول، ج: ۲ ص: ۵۸۰)

محقق مسائل جدیدہ مفتی محمد نظام الدین رضوی فرماتے ہیں: عذر شرعی ہو تو منع حمل کی وقتی، عارضی ، غیر مضر تدبیر اختیار کرنے کی اجازت ہے۔(خاندانی منصوبہ بندی اور اسلام، :۱۷)

دوسرے مقام پر لکھتے ہیں: حفظان صحت کے لیے عارضی منع حمل کی تدبیر اختیار کرنا جائز ہوگا۔ یوں ہی مذہب، اخلاق اور اپنے مال و متاع کی حفاظت کے لیے بھی اس طرح کی تدبیر اختیار کرنا جائز ہے کہ صحت کی خرابی، مذہب کا فساد ، اخلاق کا بگاڑ اور مال و متاع کا ضیاع سب شرعی اعذار ہیں۔(ایضا، ص: ۲۲)

مذکورہ تمام فقہاے عظام نے عارضی برتھ کنٹرول کی اجازت کو ’’ ضرورت شدیدہ قابل قبول شرع ‘‘، ’’ کسی جائز مقصد کے پیش نظر‘‘ اور ’’ شرعی عذر ‘‘ جیسی قید کے ساتھ مقید کیا؛ اس لیے پہلے چند شرعی اعذار ذکرکیے جائیں گے اور پھر عارضی برتھ کنٹرول کی تمام صورتوں کے تفصیلی احکام بیان کیے جائیں گے۔

چند شرعی اعذار: (۱)گود میں شیرخوار بچہ ہے اور استقرار حمل کی صورت میں یہ خطرہ ہے کہ دودھ خراب ہونے کی وجہ سے بچہ کی صحت خراب ہوجائے گی اور وہ کمزور ہوجائےگا ،جیسا کہ عموما اس کا مشاہدہ کیا جاتاہے ۔

(۲)استقرار کے باعث ماں کی صحت خراب ہوجائےگی ،مثلا وہ دماغی الجھن کی شکار ہوگی ،کمزوری ونقاہت بڑھ جائےگی ،شکم میں سخت درد رہےگا یا اس طرح کی کسی اور پریشانی کا اسے سامنا کرنا پڑےگا ۔

(۳)رحم کمزور ہے اور خطرہ ہے کہ استقرار ہوا تو حمل قبل از وقت ضائع ہوجائےگا ۔

(۴)ماں یا باپ کو ایسا مرض ہے جس کے باعث یہ اندیشہ ہے کہ بچہ ناقص الخلقت یا معذور پیدا ہوگا ۔

(۵)ماں یا باپ کو کوئی ایسا مرض ہے جس سے اندیشہ ہے کہ بچہ بھی متاثر ہوگا ،جیسے وہ ایڈزیا دمہ وغیرہ امراض میں مبتلاہیں ،یا ماں کو شدیدیرقان کا مرض ہے یا مرض موت میں مبتلا ہوچکی ہے ۔

(6)پیدائش آپریشن سے ہوتی ہے اور اسے آپریشن کی تکلیف برداشت نہیں ،یا وہاں کوئی مسلم عورت آپریشن کی اہل نہیں اور یہ غیر مسلم مرد یا عورت سے آپریشن نہیں کرانا چاہتی ۔

(7)تین بار پیدائش کے لیے آپریشن ہوچکاہے اور اب استقرار ہوا تو جان کا خطرہ ہے ۔

(8)شوہر غریب ومفلوک الحال ہے ،فوری طور پر اسے بچوں کی حضانت وکفالت کے لیے طرح طرح کی مشقتوں کا سامنا کرنا پڑےگا جس سے وہ بچنا چاہتاہے ۔

(9)یا (محتاجی کی وجہ سے ) ان کو دینی ضروری تعلیم دلانے سے عاجزہے ۔(مختصرااز خاندانی منصوبہ بندی، ص: ۲۲- ۲۴)

الغرض یہ اور اس طرح کے دوسرے اعذار کے پائے جانے کی صورت میں حمل سے بچنے کی عارضی تدبیر اختیار کرنا جائز ہے ۔ اس کی اصل وہ احادیث نبویہ ہیں جن میں کہیں عزل (یعنی جماع کے وقت شرم گاہ سے باہر انزال)سے بچنے کا اشارہ دیاگیاہے اور کہیں اجازت عطا کی گئی ہے، اور ان کے درمیان تطبیق یہ ہے کہ عذر نہ ہوتو مکروہ ہے ورنہ بلا کراہت اجازت ہے اور مکروہ سے مراد مکروہ تنزیہی ہے ۔

تفصیلی احکام: شرعی اعذار ملاحظہ فرمالینے کے بعد اب عارضی برتھ کنٹرول کے تفصیلی احکام ملاحظہ فرمائیں۔

کنڈوم،لوپ اور ڈایافرام کا حکم: کسی شرعی عذر کی بناپر کنڈوم،لوپ اور ڈایافرام جیسی کوئی عارضی منع حمل تدبیر اختیار کرنا بلاکراہت جائز ہے۔ اس لیے کہ کنڈوم عزل کے مشابہ ہے اور لوپ اور ڈایا فرام عزل کے حکم میں ہے۔(ایضا، ص: ۳۱)

گولیاں : عارضی منع حمل کی ایک تدبیر کھانے کی گولیاں ہیں مگر یہ گولیاں ۳۵؍سال سے زائد عمر والی عورت کے لیے مضر ہیں ۔جسے پیلیا یاشکر کا مرض ہے ،اس کے لیے بھی مضر ہیں ۔ان کے سوا عورتوں کو بھی کھانے سے چکر آتاہے ،متلی آتی ہے ،جو کبھی دوتین ماہ میں ٹھیک ہوجاتی ہے ، کبھی علاج سے ٹھیک ہوتی ہے اور کبھی مستقل درد سر بن جاتی ہے ۔اس تفصیل کے پیش نظر کھانے کی گولیوں کا حکم یہ ہے کہ ۳۵؍سال سے زیادہ عمر والی عورت اور پیلیایا شکر کی مریض عورت کو یہ گولیاں کھانی مکروہ تحریمی وناجائزہے ۔کہ ان کا ضررایسی عورتوں کے بارے میں تقریبا متحقق ہے ۔

ان کے سواجن عورتوں کو یہ گولیاں ہلکا ضرر پہنچاتی ہیں ،پھر ان کی طبیعت کسی طرح ان کو گواراکرلیتی ہے ،انہیں بلاعذر شرعی یہ گولیاں کھانامکروہ تنزیہی ہے اور عذر شرعی ہوتو بلاکراہت کھاناجائز ہے ۔اور جن عورتوں کی طبیعت انہیں قبول نہیں کرپاتی اور ان کے کھانے کی وجہ سے وہ حرج وضرر میں مبتلا رہتی ہیں ،انہیں یہ گولیاں کھانی ناجائز ہے ۔ٹھیک یہی احکام انہیں تفصیلات کے مطابق مانع حمل کیپ سول اور انجکشن کے بھی ہیں ۔(ایضا، ص: ۳۴)

کاپر ٹی: عام حالات میں معمولی اعذار کی بنا پر کاپر ٹی لگوانے کے لیے اجنبی مرد یا عورت بالخصوص کافر، کافرہ کے سامنے ’’ عورت غلیظہ‘‘ کھولنا، دکھانا، اسے چھونا، پھر اس کے اندر ہاتھ داخل کرنے کا موقع دینا متعدد گناہوں اور حراموں کا مجموعہ ہے۔ ہاں ! اگر استقرا کی وجہ سے جان جانے، کوئی عضو تلف ہونے، یا ایڈز یا کینسر کا مرض پیدا ہونے کا صحیح خطرہ ہو ... تو کاپر ٹی لگوانے کی اجازت ہوگی کہ اب ضرورت شرعیہ متحقق ہے۔اور فقہ کا مسلم ضابطہ ہے: ’’ الضرورات تبیح المحظورات ‘‘ ضرورت شرعیہ ممنوعات کو مباح کر دیتی ہے۔ یا شوہر کاپر ٹی لگانا سیکھے، پھر خود لگائے، یا عورت سیکھ کر اپنے ہاتھوں سے لگائے۔(ایضا، ۳۱ - ۳۴)

دائمی برتھ کنٹرول:

(۱) نس بندی: نس بندی میں مرد کی جن نالیوں سے تولیدی جرثومے گزرتے ہیں، انھیں کاٹ کر باندھ دیا جاتا ہے اور عورت کے بیضہ دانی کی نالی کاٹ کر باندھ دیا جاتا ہے۔ اس عمل سے مرد و عورت کے اندر بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتی ہے۔

(۲) بچہ دانی نکلوانا: بڑے آپریشن سے دو یا تین مرتبہ ولادت کے بعد مزید ولادت کی وجہ سے عورت کی جان کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ اس خطرے سے بچنے کے لیے عورت بچہ دانی نکلوا لیتی ہے۔

دائمی برتھ کنٹرول کا شرعی حکم: دائمی ضبط تولید یعنی نس بندی یا آپریشن کرانے کے بارے میں مفتی اعظم ہند اپنے فتوی میں تحریر فرماتے ہیں : ضبط تولید کے لیے مرد کی نس بندی یا عورت کا آپریشن متعدد وجوہ سے شرعا ناجائز و حرام ہے۔

(پہلی وجہ:) اس میں اللہ کی پیدا کی ہوئی چیز کو بدلنا ہےاور قرآن و حدیث کی نص سے ناجائز و حرام ہے۔ قرآن عظیم میں ہے: وَ لَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ۠ خَلْقَ اللّٰهِ١ؕ یعنی شیطان بولا میں ان کو بہکاؤں گا تو وہ اللہ کی پیدا کردہ چیزوں کو بدلیں گے۔ تفسیر صاوی میں ہے: ’’ من ذلك تغير الجسم ‘‘ اور اس میں سے ہے جسم کی تغییر۔ اور تفسیر کبیر میں ہے:’’ إن معنی تغییر خلق الله ھھنا ھو الإخصاء‘‘ یعنی اس آیت میں تغییر خلق کا معنی خصی کرنا وغیرہ ہے۔ بخاری و مسلم کی حدیث ہے: ’’ لعن الله المغيرات خلق الله ‘‘ یعنی اللہ کی لعنت ان عورتوں پر جو اللہ کی پیدا کی ہوئی چیز ( جسم کی قدرتی بناوٹ) کو بدلنے والی ہیں۔

(دوسری وجہ:) نیز اس میں بے وجہ شعری ایک نس اور عضو کاٹا جاتا ہے وہ بھی ایسی نس ایسا عضو جو توالد و تناسل کا ذریعہ ہےاور بے ضرورت شرعی دوسرے کے سامنے ستر وہ بھی غلیظ کھولا جاتا ہے اور اس کو چھوتا بھی ہےاور یہ تینوں امور بھی حرام ہیں کما فی کتب الفقہ ۔

(تیسری وجہ:) اور یہ قاطع توالد ہونے کے سبب معنی خصا میں داخل ہے اور انسان کا خصی ہونا اور کرنا بھی بہ نص قرآن و حدیث حرام ہےجیسا کہ آیت و حدیث سے اوپر گزرا۔

نیز حدیث میں ہےحضور علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا: ’’ ليس منا من خصي و اختصي‘‘ یعنی جس نے دوسرے انسان کو خصی کیا یا خود خصی ہوا وہ ہم میں سے نہیں ... الحاصل نس بندی یا آپریشن شریعت اسلامیہ میں ہرگز جائز نہیں لہذا اس سے نفرت و احتراز لازم ہے۔ (فتاوی مصطفویہ، ص: ۵۳۱)

فقیہ ملت مفتی جلال الدین امجدی لکھتے ہیں : قوت تولید منقطع کرنے کی غرض سے آپریشن کروانا جائز نہیں، اسے عزل پر قیاس کرنا غلط ہے؛ اس لیے کہ اس آپریشن کا اثر دائمی ہوتا ہے اور عزل وقتی۔ اور دائمی کو وقتی پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے۔ (فتاوی فیض الرسول: ج:۲، ص: ۵۶۸)

فقہی سیمینار بورڈ، دہلی کے زیر اہتمام ہونے والے سیمینار میں فقہاے کرام نے یہ فیصلہ تحریر فرمایا : قوت تولید دائمی طور پر ختم کر دینا مطلقا ناجائز و حرام ہے۔ خواہ مرد یا عورت کی نس بندی کے ذریعہ ہو یا ایسی دوا کھانے یا انجکشن لگانے کے ذریعہ جو قوت تولید ہمیشہ کے لیے ختم کردے۔(خاندانی منصوبہ بندی اور اسلام، ص: ۵۱)

محقق مسائل جدیدہ مفتی محمد نظام الدین رضوی لکھتے ہیں: نس بندی مرد کی ہو یا عورت کی اس کے لیے ضرورت شرعیہ نہیں پائی جاتی، کیوں کہ اس کا متبادل اختیار کرکےاستقرار سے بچا جا سکتا ہےاس لیے اس کی اجازت نہیں۔ ٹھیک یہی حکم خصی ہونے کا بھی ہے۔(ایضا، ص: ۴۸)

اختصار کے پیش نظر احکام کے بیان کرنے میں صرف کتب فتاوی سے اقتباسات نقل کیے گئے ہیں اور تفصیلی دلائل ذکر نہیں کیے گئے۔ جن حضرات کو مزید معلومات اور دلائل کی طلب ہو وہ مفتی محمد نظام الدین رضوی صاحب کا رسالہ ’’ خاندانی منصوبہ بندی اور اسلام‘‘ مفتی عطاء اللہ نعیمی پاکستانی کا رسالہ ’’ ضبط تولید کی شرعی حیثیت‘‘ اور ڈاکٹر محمد اشرف آصف جلالی صاحب کا رسالہ ’’ خاندانی منصوبہ بندی اور اسلام‘‘ کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔

گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے:مالتھوس کی پیش کردہ فکر و تحریک ضبط تولید نے فنا و زوال کا دور دیکھنے کے باوجود دوبارہ دنیا والوں کو لبھانے میں کامیاب رہی اور رفتہ رفتہ اس تحریک نے اپنی جڑ مضبوط کر لی اور اس کی شاخیں پوری دنیا خصوصا انگلش ممالک میں پھولی پھلی مگر دیر آید درست آید کے مصداق انگریز مفکرین و مدبرین نے شرح پیدائش کی کمی اور اس کی وجہ سے پیش آنے والے مسائل کا ادراک کر لیا اور مالتھوسی تحریک کی مخالفت شروع کر دی۔ ان کی اس پیش قدمی میں حکومت نے بھی تعاون کیا اور ضبط تولید کو قانونا جرم قرار دیا جب کہ کثرت آبادی کے لیے مختلف اسکیموں اور امداد کا اعلان بھی کیا ۔

برطانیہ میں پرنسپل میڈیکل آفیسر سر آرتھر نیوزہوم ، چیف میڈیکل آفیسر وزارت صحت سر جارج نیومن اور لورپول یونیورسٹی کے پروفیسر کارساندڑس نے ضبط تولید کے نقصان اور خطرے کو بھانپ لیا اور اس کی مخالفت شروع کی۔ یہاں تک کہ برطانوی دانش وروں نے جمیعت حیات قومی (League of National Life)کے نام سے ایک انجمن قائم کی ۔

فرانس میں ضبط تولید کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے (National Alliance for the Increase of Population)کے نام سے ایک زبردست تحریک شروع کی گئی ۔حکومت نے ضبط ولادت کی تعلیم اور نشرواشاعت کو قانونا ممنوع قرار دیا ہے، آبادی بڑھانے کے لیے تقریبا ایک درجن قوانین نافذ کیے جن کی رو سے زیادہ بچے پیدا کرنے والے خاندانوں کو مالی امداد دی جاتی ہے،ٹیکس میں کمی کی جاتی ہے ،تنخواہیں ،مزدوریاں اور پینشن زیادہ دی جاتی ہیں ،ان کے لیے ریل کے کرائے کم کیے جاتے ہیں حتی کہ انہیں تمغے تک دیےجاتے ہیں ،اور دوسری طرف شادی نہ کرنے والوں یا بچے نہ رکھنے والے جوڑوں پر (Surtax یعنی اضافی ٹیکس ) لگایاجاتاہے۔

اٹلی کی حکومت ۱۹۳۳ء سے آبادی بڑھانے کی طرف خاص توجہ کررہی ہے ،ضبط ولادت کی نشرواشاعت قانونا ممنوع ہے ،نکاح اور تناسل کی ترغیب کے لیے فرانسیسی تدابیر جیسی مختلف تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں۔

سویڈن کے ایک سابق وزیر (Ernst Trygger )نے پارلیمینٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اگر سویڈش قوم خود کشی نہیں کرنا چاہتی ہے تو شرح پیدائش کی روز افزوں کمی کو روکنے کے لیے فوری تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے، ۱۹۲۱ء سے شرح پیدائش کی کمی خوفناک ہوگئی ہے۔(ملخصا از اسلام اور ضبط ولادت، ص: ۲۲ تا ۲۵)

اب آخر میں ہم اپنے تمام اسلامی بھائی اور بہنوں سے گزارش کریں گے کہ قوت تولید خدا کی دی ہوئی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے۔کسی عذر شرعی کی وجہ سے مخصوص وقت اور مخصوص مدت تک کے لیے اسے استعمال میں لانا ایک الگ بات ہے مگر اسے ہمیشہ کے لیے ختم کر دینا یقینا ایک عظیم نعمت الہی کو ختم کرنا ہے، جس کی شریعت میں اجازت نہیں۔ اس نعمت عظمی کی اہمیت ان مرد و عورت سےمعلوم کیجیے جن کے اندر بچے پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی ۔ نہ عورت کو دائمی ضبط تولید کی تدبیر اختیار کرنی چاہیے اور نہ شوہروں کو اپنی بیویوں کو ایسے فعل حرام کی اجازت دینی چاہیے اور نہ ہی اس پر آمادہ کرنا چاہیے۔

 


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے