مجاہد تحریک آزادی علامہ فضل حق خیرآبادی علیہ الرحمہ


مجاہد آزادی علامہ فضل حق خیرآبادی

تحریر : محمد زاہد علی کالپی شریف
چئیرمین :تحریک علمائے بندیل کھنڈ
رکن: روشن مستقبل دہلی

یہ حقیقت ہے کہ جو قوم تاریخ کو بھلا دیتی ہے جغرافیہ بھی اس قوم کو فراموش کردیتا ہے مگر اس سے ایک بڑی اور تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ جو قوم اپنے جغرافیہ کے تحفظ و بقا کا بیڑا نہیں اٹھاتی اور محض تاریخی مقبروں کی "مجاور" بن کر بیٹھ رہتی ہے تاریخ اپنے خوبصورت اوراق میں انھیں کبھی کوئی جگہ نہیں دیتی (رائے کمال محمد)

تحریک آزادی میں ایک سے بڑھ کر ایک جیالے نے اپنے خون کا نذرانہ پیش کر کے اس ملک کو انگریزوں کی غلامی سے نکالا ہے مگر سہرا کے حق دار علامہ فضل حق خیرآبادی علیہ الرحمہ ہی ہیں تو آئیے انکی زندگی کے چند پہلوؤں پر نظر ڈالتے ہیں.
نام و نسب، پیدائش
تحریک آزادی کے محرک اوّل حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی (متولد ۱۲۱۲ھ/ ۱۷۹۷۔متوفی ۱۲۷۸/۱۸۶۱ء )کی ولادت دہلی کی صدرالصدور حضرت علامہ فضل امام فاروقی خیرآبادی کے یہاں ہوئی.
تعلیم و تربیت
آپ نے اپنے والد کے علاوہ حضرت شاہ عبدالقادر محدث دہلوی اور حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے تعلیم وتربیت حاصل کی۔تیرہ سال کی عمر میں علوم نقلیہ وعقلیہ کی تکمیل کر لی۔آ پ ایک یگانۂ روزگار عالم تھے۔عربی زبان کے مانے ہوئے ادیب اور شاعر تھے،کئی تصانیف چھوڑ یں ،بہادر شاہ ظفر کے ساتھ ہندوستان کو انگریزوں کے پنجہ ناپاک سے آزاد کرانے کی جی توڑ محنت کی اور اسی پاداش میں جزیرہ انڈمان میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے مالک حقیقی سے جا ملے.
ابر رحمت تیری مرقد پر گہر باری کرے
حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے


تحریک آزادی کو فتویٰ "جہاد" سے ملا نیا رخ.
مئی ۱۸۵۷ء میں میرٹھ اور دوسری چھاؤنیوں میں کارتوسوں کا معاملہ زور پکڑ چکا تھا ۔ گائے اور سور کی چربی کی آمیزش کی خبر سے مسلم اور ہندوفوجی بگڑ بیٹھے تھے۔علامہ عبدالشاہد شیروانی لکھتے ہیں:
’’علامہ سے جنرل بخت خاں ملنے پہنچے۔مشورہ کے بعد علامہ نے آخری تیر ترکش سے نکالا۔بعد نماز جمعہ جامع مسجد (دہلی)میں علما کے سامنے تقریر کی۔استفتا پیش کیا ۔مفتی صدرالدین آزردہ،مولوی عبدالقادر،قاضی فیض اللہ دہلوی، مولانا فیض احمد بدایونی، ڈاکٹر مولوی وزیر خاں اکبرآبادی اور سید مبارک شاہ رام پوری نے دستخط کیے۔اس فتوی کے شائع ہوتے ہی ملک میں عام شورش بڑھ گئی۔دہلی میں نوے ہزار فوج جمع ہوگئی تھی۔(تاریخ ذکاء اللہ،بحوالہ:باغی ہندوستان، ص۲۱۵)
فتویٰ "جہاد" مسلمانوں کے لئے کیسی حیثیت رکھتا ہے یہ انگریزوں کو علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اﷲ علیہ کے فتوی جہاد دینے کے بعد محسوس ہوا- دہلی سے علمائے کرام کی جانب سے جاری اس فتوے کے بعد مسلمان جوق در جوق اپنی جانوں کی پروا کئے ہوے بغیر نکل پڑے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان بھر میں انگریزوں کے خلاف آزادی کی ایک عظیم لہر دوڑگئی اور گلی گلی، قریہ قریہ، کوچہ کوچہ، بستی بستی، شہر شہر وہ لڑائی جھگڑا ہوا کہ انگریزحکومت کی چولہیں ہل گئیں۔ مگر انگریزوں نے کچھ کو ڈرا دھمکا کر اور کچھ کو حکومتی لالچ دیکر اس تحریک آزادی کو کچل دیا-آزادی کی اس تحریک کوکُچل تودیا گیا مگر حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی نے آزادی کا جو سنگ بنیادرکھا تھا تقریبا نوے سال بعد اس پر ہندوستانی جیالوں نے آخری اینٹ رکھ کر تعمیر مکمل کردی.
انگریزوں کی وعدہ خلافی اور علامہ کا پاے استقلال
دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہونے کے بعد کسی طرح یہاں سے نکل کرعلامہ فضلِ حق خیرآبادی اودھ(لکھنؤ) پہنچے۔ لیکن ملکہ وکٹوریہ کے عام معافی نامہ پر بھروسا کرکے آپ واپس لوٹے تو انگریزوں نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے آپ کو گرفتار کر لیا. جب عدالت میں آپ کی پیشی ہوئی تو آپ کے چہرے کی وجاہت دیکھ کر گواہ مکر گیا اور کہا کہ" جنھوں نے جہاد کا فتویٰ دیا تھا وہ یہ نہیں ہیں" علامہ چاہتے تو بچ سکتے تھے مگر انھوں نے نہ معافی مانگی اور نہ ہی حکومت وقت کے سامنے سر خم کیا بلکہ آپ نے جرأت فاروقی کا وہ مظاہرہ کیا کہ انگریز بھی حیران رہ گئے - علامہ فضل حق خیرآبادی بول اٹھے جج صاحب یہ گواہ نہ جانے کس بنا پر مجھے پہچاننے سے انکار کر رہا ہے میں ہی وہ ہوں جس نے دہلی کی جامع مسجد میں کھڑے ہوکر "جہاد" کا فتویٰ دیا تھا - جنوری 1859ء میں آپ کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلا آپ نے اپنا مقدمہ خود لڑا اور عدالت میں کہا کہ: "جہاد کا فتویٰ میرا لکھا ہوا ہے اور میں آج بھی اپنے اس فتویٰ پر قائم ہوں"۔ آپ کے اقبالیہ بیان کے بعد آپ کو کالا پانی کی سزا دی گئی ۔انگریزوں کی وعدہ خلافی کے متعلق آپ اپنی کتاب جو جزیرہ انڈمان میں آپ نےلکھی اس میں لکھتے ہیں "اس ظالم حاکم نے میری جلاوطنی اور عمر قید کا فیصلہ صادر کر دیا اور میری کتابیں جائیداد، مال و متاع اور اہل وعیال کے رہنے کا مکان غرض ہر چیز پر غاصبانہ قبضہ کرلیا اس شرمناک رویہ کا تنہا میں شکار نہ تھا بلکہ بہت سی مخلوق خدا اس سے بڑھ چڑھ کر ناروا سلوک سے دوچار ہوئی- انہوں نے عہد و پیمان توڑ کر ہزاروں مخلوق خدا کو پھانسی، قتل، جلاوطنی، قید و حبس میں بلاتامل مبتلا کردیا- وعدہ خلافی کرکے بے شمار نفسوں اور لاتعداد نفیس چیزوں کو تباہ کر ڈالا اس طرح خون ناحق شمار سے آگے بڑھ گیا- اسی طرح شریف وغیر شریف قیدیوں کی تعداد حد سے زیادہ بڑھ گئی، خصوصاً دہلی اور ہمارے دیار کے علاقے جہاں شریف خاندانوں کے شہر کے شہر گاؤں کے گاؤں قصبے کے قصبے آباد تھے ان شرفا و عظما کے پاس ایک رئیس نے جو اسلام و ایمان کا مدعی بھی تھا دار الریاسۃ میں طلبی کے ساتھ امن و امان کا پیغام بھیجا- وہاں پہنچنے پر اپنے وعدہ سے پھر کر انگریزوں کی خوشنودی کی خاطر غداری کرکے سب کو گرفتار کرلیا-ان سب کو ہتھکڑی اور بیڑی پہنا کر قید کردیا، اکثر شرفا کو قتل اور باقی کو قید اور جلاوطنی اور طرح طرح کے عذاب میں مبتلا کردیا. (الثورة الھندیة ص 298 تا 290)
جب ان کا بیٹا عبد الحق خیر آبادی انہیں آزاد کروانے کے لیےپورٹ بلیئر پر 13 فروری 1861ء کو پہنچا تب تک بہت دیر ہو چکی تھی - علامہ فضل حق خیر آبادی کو ایک روز قبل ہی 12 فروری کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا.
جزیرہ انڈمان کا خاکہ کھینچتے ہوے علامہ فضل حق خیرآبادی یوں رقمطراز ہیں " ترش رو دشمن نے مجھے دریائے شور (کھارے پانی) کے کنارے ایسے پہاڑ پر پہنچا دیا ہے جہاں سورج ہمیشہ سر پر رہتا ہے اس کی نسیم صبح تیز گرم ہوا سے بھی زیادہ سخت ہے اس کی غذا حنظل(بہت ہی کڑوا پھل) سے زیادہ کڑوی، اس کا پانی سانپوں کے زہر سے زیادہ نقصان دہ ہے، اس کا آسمان غموں کی بارش کرنے والا ہے اس کی زمین آبلے دار ہے اس کی ہوا ذلت و خواری کی وجہ سے ٹیڑھی چلنے والی ہے".

دہلی میں مسلمانوں کا قتل عام
1857 ء کی بغاوت کا محرک علامہ فضل حق خیر آبادی علیہ الرحمہ کا یہ فتویٰ ہی تھا اس لئے مسلمان خاص کر نشانہ بنائے گئے صرف دہلی میں 27 ہزار مسلمانوں کو پھانسی دی گئی 7 روز کا قتل عام اس کے علاوہ تھا- فتح پوری مسجد سے لیکر لال قلعہ تک ہر گلی ہر چوراہے پر درختوں میں مسلمانوں کی لاشیں لٹکی ہوئی تھیں- زندہ مسلمانوں کو سُور کی کھال میں سی کر گرم تیل کے کڑاہوں میں ڈال کر موت کے گھاٹ اتارا گیا- ایڈورڈسن کے مطابق صرف دہلی میں تقریبا 500 علماء شہید کئے گئے، روہیل کھنڈ کے مختلف ضلعوں میں 5000 علمائے کرام نشانہ بنائے گئے تو اسی طرح بنگال میں 80,000 جنگ آزادی کے مجاہدین کو چن چن کر مارا گیا ان کی جائیدادیں ضبط کیں، انہیں جلاوطن کیا گیا، لاکھوں لوگ بے گھر کر دیے گئے ہر طرف آہ و فغاں، چیخ وپکار کے علاوہ کچھ نہ سنائی دیتا تھا.
1857 کی ناکامی مشعل راہ بنی
بظاہر 1857ء کی جنگ آزادی ناکام ضرور ہوئی مگر ان شخصیتوں کی کارگزاری ہمت جوانمردی اوردوراندیشی نے وہ راستہ دکھا دیا جس پر آگے چل کر اہالیان ہند نے انگریزوں کو ملک سے نکال کر باہر کردیا ایسی بے شمار کہانیاں ہیں اور ایسے بے شمار مجاہدین ہیں جن کا کہیں ذکر نہیں مگر ان کی محنتیں رائگاں نہیں گئیں ان کا خون برباد نہیں گیا اور انہیں کے خون کی بنیاد پر آج ہمارا دیس ہم آزاد ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آزادی کے جشن کو ہم جب بھی مناتے ہیں تو ان بہادر مجاہدین کی قربانیوں ہم یاد کرتے ہیں۔ان کو چھوڑ کر اگر ہم جشن آزادی مناتے ہیں تو ایسے جشن کا کوئی مطلب نہیں ہے انہوں نے جو سپنا دیکھا تھا کہ ایک ایسا ہندوستان جس میں ہر آدمی برابر ہو ہر ایک کے ساتھ برابر کا سلوک کیا جائے ایسا ہندوستان ابھی ہمیں بنانا ہے اور یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم کوشش کرکے جوکمیاں ابھی تک رہ گئی ہیں ان کو دور کرنے کی کوشش کریں اور جنگ آزادی میں جان دینے والوں کے خون کو رائیگاں نہ ہونے دیں ان کی آرزوؤں اور ان کی خواہشات کے مطابق مذہب یا کسی قوم کے حقوق صرف اس بنا پر ہم سلب نہ کرلیں کہ وہ کمزور یا اقلیت میں ہیں کوئی بھوک سے نہ مرے کوئی بچہ تعلیم سے محروم نہ رہے کوئی بیوہ اپنا جسم بیچنے کو مجبور نہ ہو جس دن ہم ایسا ہندوستان بنا لینگے اس دن علامہ فضل حق خیرآبادی جیسے عظیم مجاہدین کو ہم صحیح معنوں میں خراج عقیدت پیش کرنے کے حق دار ہوں گے.

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے