کیا ویڈیو کال سے نکاح ہوسکتا ہے جبکہ لڑکی الگ شہر میں ہو اور لڑکا الگ شہر میں ؟
سوال : کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل میں کہ ویڈیو کال سے نکاح ہوسکتا ہے جبکہ لڑکی الگ شہر میں ہو اور لڑکا الگ شہر میں ؟
اسی طرح کسی غیر مسلم لڑکی سے نکاح کی کیا صورت ہے ؟ در اصل ہمارے گاوں میں ایک مسئلہ طول پکڑ لیا کہ غیر مسلم لڑکی سے ایک مسلم لڑکے کے تعلقات تھے ،لڑکا بدیس میں ہے اور لڑکی اس کے گھر پہنچ چکی ہے اب نکاح کی کیا صورت ہوگی ؟ مدلل جواب سے نوازیں ۔
حافظ محبوب رضا پرساہی دھنوشہ نیپال
الجواب بعون الملک الوہاب :
موبائل کال کے ذریعہ نکاح جائز نہیں خواہ آڈیو کال ہو یا ویڈیو کال ؛ کیوں کہ نکاح منعقد ہونے کے لیے ایک شرط یہ ہے کہ دونوں گواہ الفاظ ایجاب و قبول ساتھ ساتھ سنیں ۔ بدائع الصنائع میں ہے :
ومنہا سماع الشاہدین کلامہما معًا، ہٰکذا في فتح القدیر … ولو سمعا کلام أحدہما دون الآخر أو سمع أحدہما کلام أحدہما والآخر کلام الآخر لا یجوز النکاح ۔ ( بدائع الصنائع ، ج : 2 ، ص : 572 )
یعنی شرائط نکاح سے ہے کہ دونوں گواہ عاقدین کے کلام کو ساتھ ساتھ سنیں یہاں تک کہ اگر دونوں نے ایک کا کلام سنا اور دوسرے کا نہیں یا دونوں گواہ میں سے ایک نے ایک کا کلام سنا اور دوسرے نے دوسرے کا کلام سنا تو نکاح جائز نہیں ۔
نکاح کے شرائط سے یہ بھی ہے کہ ایجاب و قبول ایک ہی مجلس میں ہو ۔ در مختار میں ہے :
وَمِنْ شَرَائِطِ الْإِيجَابِ وَالْقَبُولِ: اتِّحَادُ الْمَجْلِسِ ۔
یعنی نکاح کے درست ہونے کی شرائط میں یہ بھی ہے کہ(ایجاب وقبول کی) مجلس ایک ہو۔
اس کے تحت ردالمحتار میں ہے:
قَالَ فِي الْبَحْرِ: فَلَوْ اخْتَلَفَ الْمَجْلِسُ لَمْ يَنْعَقِدْ ۔
یعنی البحر الرائق میں ہے کہ اگر مجلس مختلف ہو جائے تو نکاح منعقد نہیں ہو گا ۔ ( ردالمحتار مع درمختار ، کتاب النکاح ، ج : 3 ، ص : 14 )
موبائل کے ذریعہ نکاح میں یہ دونوں شرائط مفقود ہوتے ہیں اس لیے نکاح جائز نہیں ہے ۔ البتہ موبائل کال کے ذریعہ نکاح کی درستگی کی ایک صورت توکیل کی ہے یعنی موبائل پر پرکسی کووکیل بنادیاجائے اوروہ وکیل گواہوں کی موجودگی میں اپنے مؤکل کانکاح پڑھادے توشرعاًجائزہوگا۔ بدائع الصنائع مٰں ہے :
ثم النکاح کما ینعقد بھذہ الالفاظ بطریق الاصالة ینعقد بھا بطریق النیابة بالوکالة والرسالة (البدائع الصنائع ، ج : 2 ، ص: 487 )
یعنی نکاح جس طرح الفاظِ نکاح سے اصالۃً منعقد ہوتا ہے اسی طرح وکیل یا خط کے ذریعہ نیابت سے بھی منعقد ہو جاتا ہے ۔
خلاصہ یہ کہ موبائل کال سے نکاح جائز نہیں البتہ وکیل بنا کر نکاح درست ہو سکتا ہے ۔
اور جہاں تک رہ گئی بات غیر مسلم لڑکی سے شادی کرنے کی تو یہ بھی جائز نہیں جب تک کہ وہ لڑکی اسلام قبول نہ کر لے ۔ قرآن کریم میں ہے :
وَ لَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى یُؤْمِنَّ-وَ لَاَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَةٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَتْكُمْۚ ۔ ( البقرہ ، آیت : 221 )
ترجمہ :
اورمشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک مسلمان نہ ہوجائیں اور بے شک مسلمان لونڈی مشرکہ عورت سے اچھی ہے اگرچہ وہ تمہیں پسند ہو۔
فتاویٰ فقیہ ملت میں ہے :
اگر وہ شادہ شدہ ہو اور اس کا شوہر بھہ تین حیض آنے سے پہلے اسلام لے آئے تو وہ بدستور سابق اس کی بیوی رہے گی اس صورت میں کسی دوسرے کے لیے اس سے شادی کرنا جائز نہیں اور اگر شوہر اسلام نہ لائے تو تین ماہواری گزرنے کے بعد اس سے شادی کرنا جائز ہے ۔ ( فتاویٰ فقیہ ملت ۔ ج : 1 ،ص : 369)
اگر عورت شاد شدہ تھی تب تین حیض گزرنے کا حکم ہے اور اگر شادی شدہ نہ ہو فوری شادی کی اجازت ہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
کتبہ
محمد عطاء النبی حسینی مصباحی
رکن شرعی بورڈ آف نیپال
13رجب المرجب 1442ھ مطابق 26 فروری 2021ء
الجواب صحیح:
- فقیر محمدعثمان رضوی خادم مرکزی دارالافتاوالقضاادارہ شرعیہ نیپال جنکپور وصدرالمدرسین دارالعلوم قادریہ علی پٹی شریف
منجانب : شرعی بورڈ آف نیپال
Social Plugin