دیوبندی وہابی سے نکاح کرنا کیسا ہے؟





وہابی دیوبندی سے نکاح کرنا کیسا ہے؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ
کیا فرماتے ہیں علماے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے شادی کی بات کی ہےوہابی دیوبندی میں، جہاں شادی ہوگی وہاں نکاح پڑھوایا جائے گا وہابی یا دیوبندی سے پھر گھر لاکر سنی مولانا سے نکاح پڑھوایا جائے گا۔ سنی مولانا کو معلوم ہونے پر نکاح پڑھانے سے انکار کر دیا جس کی وجہ سے عوام میں طرح طرح کی باتیں کی جا رہی ہیں اور کچھ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس سے پہلے جو مولانا حضرات رہتے تھے وہ نکاح پڑھاتے تھے تو پھر آپ کیوں نہیں پڑھائیں گے؟
دریافت طلب امر یہ ہے کہ ایسے نکاح کا کیا حکم ہے اور سنی مولانا کا نکاح پڑھانا کیسا اور موجودہ سنی مولانا کا نکاح پڑھانے سے انکار کرنا کیسا ہے؟
نور محمد رضوی
سگھارا، ضلع دھنوشا، نیپال

            بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ:



امام اہل سنت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ کی تصریحات کے مطابق وہابیہ دیابنہ اپنے عقائد باطلہ کفریہ قطعیہ کی وجہ سے کافر و مرتد ہیں اور کافر و مرتد سے کسی کا نکاح ہرگز نہیں ہو سکتا۔ فتاوی عالم گیری میں ہے: وَلَا يَجُوزُ لِلْمُرْتَدِّ أَنْ يَتَزَوَّجَ مُرْتَدَّةً وَلَا مُسْلِمَةً وَلَا كَافِرَةً أَصْلِيَّةً وَكَذَلِكَ لَا يَجُوزُ نِكَاحُ الْمُرْتَدَّةِ مَعَ أَحَدٍ، كَذَا فِي الْمَبْسُوطِ. ( فتاوی ہندیہ، ج: ۱، ص: ۲۸۲)
یعنی مرتد کا نکاح مرتدہ، مسلمہ اور کافرہ اصلیہ کسی سے جائز نہیں اور ایسے ہی مرتدہ کا نکاح کسی سے جائز نہیں، ایسا ہی مبسوط میں ہے۔
لہذا زید کا دیوبندی کے یہاں شادی کرنا ہی درست نہیں، اگر وہ کرے گا تو زنا اور بدکاری کا دروازہ کھولے گا۔ اور وہابی دیوبندی جانتے ہوئے بھی زید کا ان سے نکاح کرنے کی وجہ سے زید سخت گنہ گار ہوگا۔
موجودہ امام صاحب کا نکاح پڑھانے سے انکار کرنا شرعا بالکل درست ہے؛ اس لیے کہ جب وہابیہ دیابنہ کے کافر و مرتد ہونے کی وجہ سے مسلمان کا اس سے نکاح ہی جائز نہیں تو نکاح پڑھانے کا کیا معنی؟ ہاں ! اگر دیوبندی لڑکا یا لڑکی واقعی اپنے عقائد کفریہ باطلہ سے توبہ صحیحہ کر کے تجدید ایمان کر لے تو پھر ان کا نکاح ہو سکتا ہے ۔ اس مقام میں اس بات کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ نکاح پڑھاتے وقت صرف کلمہ پڑھا دینا کافی نہ ہوگا بلکہ عقائد کفریہ سے توبہ صحیحہ ضروری ہے۔ فتاوی بریلی شریف میں ہے: اگر کوئی شخص جان بوجھ کر وہابیوں دیوبندیوں کے یہاں اپنی لڑکی یا لڑکے کا رشتہ کرتا ہے تو وہ بدکاری کا دروازہ کھولتا ہے لہذا وہ سخت گنہگار ہے اور جو لوگ جانتے ہوئے اس نام کے نکاح میں شریک و معاون ہوئے وہ سب سخت گنہگار حرام کار ہیں سب پر بھی توبہ لازم ہے اور امام جانتے ہوئے نکاح پڑھائے اور امام جب تک توبہ نہ کرے اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہوگی یعنی پڑھنی گناہ اور پھیرنی واجب ہے بعد توبہ صحیحہ اس کے پیچھے نماز جائز ہے جب کہ اور کوئی وجہ شرعی مانع امامت نہ ہو اور وہ نکاح نہ ہوا لڑکی یا لڑکا جو سنی ہے دیوبندی یا دیوبندیہ سے علاحدہ ہو جائے ہاں اگر وہ اپنے عقائد کفریہ باطلہ سے توبہ صحیحہ کر کے تجدید ایمان کرے تو بعد توبہ تجدید ایمان ان کا آپس میں نکاح ہو سکتا ہے۔
اگر واقعی مذکورہ تمام لوگ لا علمی میں رشتہ کیا ،یا امام نے نکاح پڑھایا، یا لوگ شریک ہوئے تو ان سب پر کوئی الزام نہیں اور جو لوگ جانتے ہوئے اس میں شریک ہوئے وہ سب سخت گنہگار حرام کار ہیں سب پر توبہ لازم ہے۔ ( فتاوی بریلی شریف، ص: ۱۱۰، ۱۱۱) واللہ تعالی اعلم


محمد اظہار النبی حسینی
خادم مرکزی ادارہ شرعیہ نیپال، جنک پور دھام
و صدر المدرسین دارالعلوم قادریہ مصباح المسلمین، علی پٹی شریف
۲۴؍ ذی الحجہ ۱۴۴۲ھ
۴؍ اگست ۲۰۲۱ء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے