اذان سے پہلے یا بعد میں درود و سلام پڑھنا کیسا ہے؟



اذان سے پہلے یا بعد میں درود و سلام پڑھنا شرعا کیسا ہے؟

السلام علیکم ور حمۃ اللہ وبرکاتہ
قاضی القضاۃ قاضی نیپال کی بارگاہ میں ایک سوال عرض ہے۔
کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اذان سے پہلے یا بعد میں درود و سلام پڑھنا شرعا کیسا ہے؟
المستفتی
ہاشم انصاری، راج براج، نیپال

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
ہر وقت اور ہر گھڑی درود و سلام پڑھنا ایک جائز اور مستحب عمل ہےتو اذان سے پہلے اور بعد میں بھی درود و سلام پڑھنا ایک جائز اور مستحب عمل ہوگا؛ اس لیے کہ مومنوں کا حضور پاک ﷺ پر درود و سلام پڑھنے کا حکم ہوا اور یہ حکم کسی قید کے ساتھ نہیں ہے کہ فلاں وقت اور مکان میں پڑھنا جائز ہے اور فلاں وقت اور مکان میں پڑھنا ناجائز، بلکہ ہر اچھے کام کے شروع اور آخر میں پڑھا جا سکتا ہے۔ قرآن حکیم میں ہے: ۰۰۵۵ اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىِٕكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ١ؕ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا۰۰۵۶
یعنی بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔
اس آیت کریمہ میں مطلق ارشاد ہوا کہ خوب درود و سلام پڑھو اور اس ارشاد کو کسی وقت یا کسی جگہ کے ساتھ معین نہیں کیا گیا۔ حدیث پاک میں ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ پوری زندگی صبح کے وقت اذان سے پہلے اللہ تعالی کی حمد و ثنابیان کرتے اور دعا کرتے پھر اذان دیا کرتے۔ اور درود و سلام بھی چوں کہ حضور اکرم ﷺ پر نزول رحمت و سلامتی اور بلندیِ درجات کی دعا ہے تو پھر اذان سے پہلے درود و سلام پڑھنا کیوں کر ناجائز ہوگا۔ حدیث پاک میں ہے: عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنِ امْرَأَةٍ مِنْ بَنِى النَّجَّارِ قَالَتْ كَانَ بَيْتِى مِنْ أَطْوَلِ بَيْتٍ حَوْلَ الْمَسْجِدِ وَكَانَ بِلاَلٌ يُؤَذِّنُ عَلَيْهِ الْفَجْرَ فَيَأْتِى بِسَحَرٍ فَيَجْلِسُ عَلَى الْبَيْتِ يَنْظُرُ إِلَى الْفَجْرِ فَإِذَا رَآهُ تَمَطَّى ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ إِنِّى أَحْمَدُكَ وَأَسْتَعِينُكَ عَلَى قُرَيْشٍ أَنْ يُقِيمُوا دِينَكَ قَالَتْ ثُمَّ يُؤَذِّنُ قَالَتْ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُهُ كَانَ تَرَكَهَا لَيْلَةً وَاحِدَةً تَعْنِى هَذِهِ الْكَلِمَاتِ. ( سنن ابو داؤد، باب الاذان فوق المنارة، ح: ۵۱۹)
یعنی حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے بنی نجار کی ایک عورت سے روایت کیا، اس نے کہا کہ میرا گھر مسجد نبوی کے ارد گرد طویل ترین گھر تھا۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ میرے گھر کی چھت پر فجر کی اذان دیتے تھے ۔ پس آپ سحر کے وقت آجاتے، چھت پر بیٹھ کر طلوعِ صبح صادق کو دیکھتے رہتے، پس جب آپ دیکھتے کہ صبح صادق کی روشنی پھیل گئی ہے تو انگڑائی لیتے پھر یہ کلمات پڑھتے : ’’ اللَّهُمَّ إِنِّى أَحْمَدُكَ وَأَسْتَعِينُكَ عَلَى قُرَيْشٍ أَنْ يُقِيمُوا دِينَكَ ‘‘ ( اے اللہ تعالی! میں تیری حمد کرتا ہوں اور تجھ سے مدد چاہتا ہوں اس بات پر کہ قریش تیرے دین کو قائم کریں۔) پھر اذان دیتے۔ اس عورت نے کہا کہ اللہ تعالی کی قسم! مجھے نہیں معلوم کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک رات بھی یہ کلمات چھوڑے ہوں۔
اس حدیث پاک میں بہت ہی واضح الفاظ میں ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ ہمیشہ اذان سے پہلے ’’ اللَّهُمَّ إِنِّى أَحْمَدُكَ وَأَسْتَعِينُكَ عَلَى قُرَيْشٍ أَنْ يُقِيمُوا دِينَكَ ‘‘ دعا پڑھتے، اس کے بعد اذان دیتے۔ تو پھر درود و سلام جو کہ ایک قسم کی دعا ہے، اسے پڑھنا کیوں کر جائز نہ ہوگا؟
درج بالا حدیث پاک حسن ہے جیساکہ علامہ ابن حجر عسقلانی نے ’’ الدرایہ‘‘ میں اور( اہل حدیث کے امام) البانی نے ارواء الغلیل میں بیان کیا ہے۔
موجودہ دور میں کچھ بدمذہب گمراہ اور گمراہ گر لوگ درود قبل اذان كو بدعت ( سیئہ)بھی کہتے ہیں جو سراسر باطل ہے۔ اس لیے کہ اذان سے پہلے درود و سلام پڑھنا، قرآن کریم کو خوب صورت، رنگین اور دیدہ زیب چھاپنے کی طرح بدعت حسنہ ہےجو ابو المظفر یوسف بن ایوب المعروف سلطان صلاح الدین ایوبی کے حکم سے آپ کے دور سلطانی میں جاری ہوا۔ امام سخاوی فرماتے ہیں: قد أحدث المؤذنون الصلاة والسلام على رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عقب الأذان للفرائض الخمس إلا الصبح والجمعة فإنهم يقدمون ذلك فيها على الأذان وإلا المغرب فإنهم لا يفعلونه أصلاً لضيق وقتها وكان ابتداء حدوث ذلك من أيام السلطان الناصر صلاح الدين أبي المظفر يوسف بن أيوب وأمره. (القَولُ البَدِيعُ في الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِ، ص: ۱۹۵)
یعنی مؤذن حضرات رسول اکرم ﷺ پر جو درود و سلام پانچوں فرض نمازوں کی اذان کے بعد پڑھنا شروع کیاہے۔ سواے اس کے کہ صبح (فجر) اور جمعہ میں اذان سے پہلے پڑھتے ہیں اور مغرب میں وقت کی تنگی کے سبب نہیں پڑھتے، اس کا آغاز ناصر الدین سلطان صلاح ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کے دور حکومت میں ہوا۔
ایسا ہی امام عبد الوہاب شعرانی نے ’’ کشف الغمۃ عن جمیع الامۃ‘‘ کے صفحہ ۹۵، امام جلال الدین سیوطی نے ’’ الوسائل الی معرفۃ الاوائل‘‘ کے صفحہ ۴۶، ۴۷ اور علامہ ابن عابدین شامی نے ’’ رد المحتار‘‘ کی دوسری جلد صفحہ ۷۰، ۷۱ پر بیان فرمایا ہے۔
اس وقت سے آج تک مسلمانوں کے درمیان اذان سے پہلے درود و سلام پڑھنے کا سلسلہ قائم ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت اسے درست جانتی مانتی ہے اور بحکم حدیث ’’ ما رآہ المسلمون حسنا فھو عند اللہ حسن‘‘ (مسلمان جسے اچھا جانے وہ بارگاہ الہی میں اچھا ہوتا ہے) اذان سے پہلے درود سلام پڑھنا بھی اچھا عمل ہے۔
جہاں تک اذان کے بعد د رود و سلام کی بات ہے تو یہ حدیث پاک کے صریح الفاظ سے ثابت ہے: عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ، فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ ثُمَّ صَلُّوا عَلَيَّ، فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّى الله عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا، ثُمَّ سَلُوا اللهَ لِيَ الْوَسِيلَةَ، فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِي الْجَنَّةِ، لَا تَنْبَغِي إِلَّا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللهِ، وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ، فَمَنْ سَأَلَ لِي الْوَسِيلَةَ حَلَّتْ لَهُ الشَّفَاعَةُ. ( صحيح مسلم، بَابُ الْقَوْلِ مِثْلَ قَوْلِ الْمُؤَذِّنِ لِمَنْ سَمِعَهُ، ثُمَّ يُصَلِّي عَلَى النَّبِيِّﷺ، ح: ۳۸۴)
یعنی حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے نبی پاک ﷺ کو فرماتے سنا: جب تم مؤذن کو سنو، تو تم بھی اسی طرح کہو، جس طرح وہ کہہ رہا ہے، پھر مجھ پر درود بھیجو، کیوں کہ جو مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے،اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ پھر میرے لیے ’’ وسیلہ‘‘ کی دعا کرو۔ یہ جنت کی ایک منزل ہے، جو اللہ کے ہی کسی بندے کے لیے ہے اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہوں۔ تو جس نے میرے لیے وسیلہ کی دعا کی اس کے لیے میری شفاعت حلال ہو گئی۔
ہاں! درود و سلام پڑھنے والوں کو اس بات خاص خیال رکھنا چاہیے کہ درود و سلام پڑھنے کے بعد کچھ دیر سکوت ( خاموشی اختیار) کریں، پھر اذان و اقامت کہیں، یا درود و سلام کی آواز کو اذان و اقامت کی آواز سے پست رکھیں تاکہ اذان و اقامت کے درمیان فصل اور امتیاز ہو جائے۔ فتاوی رضویہ میں ہے: درود شریف قبل اقامت پڑھنے میں حرج نہیں، مگر اقامت سے فصل چاہیےیا درود شریف کی آواز، آواز اقامت سے ایسی جدا ہو کہ امتیاز رہے۔ ( فتاوی رضویہ، ج: ۵، ص: ۳۸۶)
حاصل یہ کہ اذان سے پہلے اور بعد میں درود و سلام پڑھنا جائز اور مستحب عمل ہے جو مسلمانوں کا طریقۂ حسن رہا ہے ۔ و اللہ تعالی اعلم

کتبہ
محمد اظہارالنبی حسینی
دارالعلوم قادریہ مصباح المسلمین، علی پٹی شریف
۱۶؍ رجب المرجب ۱۴۴۲ھ
یکم مارچ ۲۰۲۱ء


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے