عورتوں کے لئے آرٹی فیشل جولری یعنی سونے چاندی کے علاوہ دیگر دھات کی جویلری پہننا جائز ہے یا نہیں؟

عورتوں کے لئے آرٹی فیشل جولری یعنی سونے چاندی کے علاوہ دیگر دھات کی جویلری پہننا جائز ہے یا نہیں؟

عورتوں کے لئے آرٹی فیشل جولری یعنی سونے چاندی کے علاوہ دیگر دھات کی جویلری پہننا جائز ہے یا نہیں؟
عورتوں کے لئے آرٹی فیشل جولری یعنی سونے چاندی کے علاوہ دیگر دھات کی جویلری پہننا جائز ہے یا نہیں؟



السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ عورتوں کے لئے آرٹی فیشل جولری یعنی سونے چاندی کے علاوہ دیگر دھات کی جویلری پہننا جائز ہے یا نہیں؟ علماے ہند اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟

سائل: محمد اشتیاق رضا


بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ:
آرٹی فیشیل زیورات یعنی سونے چاندی کے علاوہ دوسری دھاتوں کے زیورات ناجائز و مکروہ تحریمی ہے۔ البتہ اگر ان زیورات پر سونے یا چاندی کا خول چڑھا دیا جائے تو ان استعمال جائز ہوگا۔ شرعی کونسل آف انڈیا، بریلی شریف، کے دسویں فقہی سیمینار منعقدہ 2013ء میں باتفاق علماے کرام آرٹی فیشیل جیولری کے استعمال اور خرید و فروخت کے بارے میں یہ فیصلہ ہوا: (1) سونے چاندی کے علاوہ دوسری دھاتوں کے زیورات کا استعمال ناجائز و مکروہ تحریمی ہے۔ رد المحتار میں ہے: ’’والتختم بالحدید والصفر والنحاس والرصاص مکروہ للرجال والنساء‘‘۔ [ج۹، ص۵۱۸، کتاب الحظر والاباحۃ، مکتبہ زکریا]
اور اگر ان زیورات پر سونے یا چاندی کا خول چڑھا دیا جائے تو جائز۔ فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے: ’’لابأس بأن یتخذ خاتم حدید قد لوی علیہ او البس بفضۃ حتیٰ لا یری‘‘۔ [ج۸، ص۱۲۷، مکتبہ زکریا]
اور اگر ان پر محض سونے یا چاندی کا پانی چڑھایا گیا ہو تو ان کا پہننا ناجائز؛ اس لیے کہ سونے کا پانی یا چاندی کی قلعی کردینے سے اصل شیٔ کا حکم نہیں بدلتا۔ تبیین الحقائق میں ہے: ’’اما التمویہ الذی لا یخلص فلا بأس بہ بالاجماع لأنہ مستھلک فلا عبرۃ ببقائہ لوناً‘‘۔ [ج۷، ص۲۶، پوربندر]
فتاویٰ رضویہ میں ہے: سوال: وہ اشیاء جن پر سونے چاندی کا پانی چڑھا ہو جسے گلٹ کہتے ہیں مرد استعمال کرسکتا ہے یا نہیں؟ جواب:کرسکتا ہے، سونے یا چاندی کا پانی وجہ ممانعت نہیں، ہاں! اگر وہ شیٔ فی نفسہٖ ممنوع ہو تو دوسری بات ہے جیسے سونے کا ملمع کی ہوئی تانبے کی انگوٹھی۔ [ج۹، ص۱۳۴]
(2) زیورات کا استعمال مرتبۂ زینت میں ہے اور محض زینت کے لئے کسی ممنوع شرعی کی رخصت و تخفیف نہیں ہو سکتی اس لئے سونے چاندی کے علاوہ دوسری دھاتوں کے زیورات کا استعمال مکروہ تحریمی ہی رہے گا خواہ ان پر سونے یا چاندی کا پانی وقلعی چڑھائی گئی ہو یا نہ کی گئی ہو۔ فتاویٰ رضویہ میں ہے: ’’زینت و فضول کے لئے کسی ممنوع شرعی کی اصلاً رخصت نہ ہو سکنا بھی ایضاح سے غنی، جس پر اصل اول بدرجۂ اولیٰ دلیل وافی ورنہ احکام معاذ اللہ ہوائے نفس کا بازیچہ ہو جائیں‘‘۔ [ج۹، ص۲۰۰]
(3) وہ زیورات جن پر سونے یا چاندی کی ملمع سازی کی گئی ہو یا نہ کی گئی ہو ان کی خرید و فروخت مکروہ تحریمی ہے۔ البتہ بیچنے کی ممانعت ویسی نہیں جیسے پہننے کی ممانعت ہے۔ درمختار میں ہے: ’’فاذا ثبت کراہۃ لبسھا للتختم ثبت کراھۃ بیعھا لما فیہ من الاعانۃ علیٰ ما لا یجوز۔ وکل ما ادی الیٰ مالایجوز لایجوز‘‘۔ [ج۹، ص۵۱۸، مکتبہ زکریا] فتاویٰ رضویہ میں ہے: مسئلہ: ایک شخص لوہے اور پیتل کا زیور بیچتا ہے اور ہندو مسلم سب خریدتے ہیں اور ہر قوم کے ہاتھ وہ بیچتا ہے غرض کہ یہ وہ جانتا ہے کہ جب مسلمان خرید کریں گے تو اس کو پہنیں گے تو ایسی چیزوں کا فروخت کرنا مسلمان کے ہاتھ جائز ہے یا نہیں؟ جواب: مسلمان کے ہاتھ بیچنا مکروہ تحریمی ہے۔ [ج۹، ص۱۳۳، نصف آخر] قال ابن الشحنہ: ’’الا ان المنع فی البیع اخف منہ فی اللبس اذ یمکن الانتفاع بھا فی غیر ذالک ویمکن سبکھا وتغییر ھیئتھا‘‘۔ [رد المحتار، ج۹، ص۵۱۹، مکتبہ زکریا] البتہ اس سے حاصل شدہ مال مال خبیث نہیں بلکہ مال طیب ہے اس پر زکوٰۃ واجب اور اسے کسی بھی جائز کام میں خرچ کیا جا سکتا ہے۔ اس کی نظیر بیع وقت اذان جمعہ ہے کہ ایسی بیع مکروہ ہے مگر مبیع و ثمن حلال ہیں۔
(4) جن زیورات کا پہننا مکروہ ہے ان کا بنانا اور بنوانا بھی مکروہ۔ در مختار میں ہے: ’’فاذا ثبت کراہۃ لبسھا للتختم ثبت کراھۃ بیعھا لما فیہ من الاعانۃ علیٰ ما لا یجوز۔ وکل ما ادی الیٰ مالایجوز لایجوز‘‘۔ [ج۹، ص۵۱۸، مکتبہ زکریا] اور کافر نوکر سے مسلمان کے ہاتھ فروخت کرانا مکروہ و ناجائز لما فیہ من الاعانۃ علیٰ المعصیۃ کما مر۔ البتہ کفار کے ہاتھ بیچنے میں حرج نہیں ہے۔
(5) جن صورتوں میں ان زیورات کی خرید و فروخت اور ان کا استعمال جائز نہیں ہے ان کے جواز کا کوئی حیلہ تلاش کرنا بے سود ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم



کتبہ
محمد اظہارالنبی حسینی
 مدرس دارالعلوم قادریہ مصباح المسلمین، علی پٹی شریف
14/ شعبان المعظم 1442ھ مطابق 28/ مارچ 2021ء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے