ناپاک کپڑے پاک کرنے کا طریقہ کیا ہے؟
غلام سرور، بنارس، یوپی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ:
کپڑوں کو پاک کرنے کے سلسلے میں اصل یہ ہے کہ اس بات کا ظن غالب ہو جائے کہ نجاست زائل ہو چکی ہے؛ اس لیے اگر نجاست دلدار یعنی گاڑھی ہو تو اس کو دور کرنا ضروری ہے، خواہ ایک بار دھونے سے دور ہو یا چند بار دھونے سے۔ اور اگر نجاست رقیق یعنی پتلی ہو تو تین مرتبہ دھونے اور ہر مرتبہ پوری طاقت سے نچوڑنے سے پاک ہوگا۔ ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ ناپاک کپڑوں کو ماء جاری (یعنی بہنے والے پانی) جیسے نہر وغیرہ کے پانی میں دھویا جائے یا ایسے پانی میں دھویا جائے جو ماء جاری کے حکم میں ہو جیسے بالٹی یا کسی اور بڑے برتن میں کپڑوں کو ڈال دیا جائے اور پھر اتنا پانی ڈالا جائے کہ وہ بالٹی سے باہر بہنے لگے اور اتنا پانی بہہ جائے کہ دھونے والے کو یقین ہو جائے کہ اب نجاست نکل چکی ہے تو اس صورت میں کپڑے پاک ہوجائیں گے اور کپڑوں کو نچوڑنا بھی ضروری نہ ہوگا۔ اس اجمال کی تفصیل بحوالہ کتب درج ذیل ہے:
(1) نجاست اگر دَلداریعنی گاڑھی ہو نجاستِ مَرئِیَّہ کہتے ہیں (جیسے پاخانہ، گوبر، خون وغیرہ) تو دھونے میں گنتی کی کوئی شرط نہیں بلکہ اس کو دور کرنا ضَروری ہے، اگر ایک بار دھونے سے دُور ہو جائے تو ایک ہی مرتبہ دھونے سے پاک ہو جائے گا اور اگر چار پانچ مرتبہ دھونے سے دور ہو تو چار پانچ مرتبہ دھونا پڑے گا۔ ہاں! اگر تین مرتبہ سے کم میں نَجاست دور ہو جائے تو تین بار پورا کرلینا مُستَحَب ہے۔
اگر نَجاست دور ہو گئی مگر اس کا کچھ اثر رنگ یا بُو باقی ہے تو اسے بھی زائل کرنا لازم ہے۔ ہاں! اگر اس کا اثر بَدقّت (یعنی دشواری سے) جائے تو اثر دُور کرنے کی ضَرورت نہیں، تین مرتبہ دھولیا پاک ہو گیا، صابون یا کھٹائی یا گرم پانی(یا کسی قسم کے کیمیکل وغیرہ) سے دھونے کی حاجت نہیں۔
{1} اگر نَجاست رَقِیق(یعنی پتلی جیسے پیشاب وغیرہ) ہو تو تین مرتبہ دھونے اور تینوں مرتبہ بَقُوَّت (یعنی پوری طاقت سے) نچوڑنے سے پاک ہوگا۔
اور قوّت کے ساتھ نچوڑنے کے یہ معنی ہیں کہ وہ شخص اپنی طاقت بھر اِس طرح نِچوڑے کہ اگر پھر نچوڑے تو اُس سے کوئی قطرہ نہ ٹپکے، اگر کپڑے کا خیال کر کے اچھی طرح نہیں نچوڑا تو پاک نہ ہوگا۔ (بہار شریعت حصہ ۲ص ۱۲۰).
{2} اگر دھونے والے نے اچھی طرح نچوڑ لیا مگر ابھی ایسا ہے کہ اگر کوئی دوسرا شخص جو طاقت میں اس سے زِیادہ ہے نچوڑے تو دو ایک بوند ٹپک سکتی ہے تو اس( پہلے نچوڑنے والے) کے حق میں پاک اور دوسرے کے حق میں ناپاک ہے۔ اس دوسرے کی طاقت کا ( پہلے کے حق میں) اعتبار نہیں۔ ہاں! اگر یہ دھوتا اور اِسی قدر نچوڑتا (جس قدر پہلے والے نے نچوڑا تھا) تو پاک نہ ہوتا۔
{3} کپڑے کو تین مرتبہ دھو کر ہر مرتبہ خوب نچوڑ لیا ہے کہ اب نچوڑنے سے نہ ٹپکے گا پھر اس کو لٹکا دیا اور اس سے پانی ٹپکا تو یہ پانی پاک ہے اور اگر خوب نہیں نچوڑا تھا تو یہ پانی ناپاک ہے۔
{4} یہ ضَروری نہیں کہ ایک دم تینوں بار دھوئیں بلکہ اگر مختلف وقتوں بلکہ مختلف دنوں میں یہ تعداد پوری کی جب بھی پاک ہو جائے گا۔ (بہار شریعت، ج: 1، ص: 397- 400 ملخصا)
{5} یہ (یعنی تین مرتبہ دھونے اور نچوڑنے کا) حکم اس وَقت ہے جب تھوڑے پانی میں دھویا ہو، اور اگر حوضِ کبیر (یعنی دَہ در دَہ یا اس سے بڑے حوض، نہر، ندی، سمندر وغیرہ) میں دھویا ہو یا (نل، پائپ یا لوٹے وغیرہ کے ذریعے ) بَہُت سا پانی اس پر بہایا یا (دریا وغیرہ) بہتے پانی میں دھویا تو نچوڑنے کی شرط نہیں۔( فتاوی امجدیہ، ج: 1، ص: 35)
{6} دَری یا ٹاٹ یا کوئی ناپاک کپڑا بہتے پانی میں رات بھر پڑا رہنے دیں پاک ہو جائے گا اور اصل یہ ہے کہ جتنی دیر میں یہ ظنِّ غالِب ہو جائے کہ پانی نَجاست کو بہالے گیا پاک ہو گیا کہ بہتے پانی سے پاک کرنے میں نِچوڑنا شرط نہیں۔ (بہار شریعت، ج: 1، ص: 399)
البحر الرائق میں ہے: فَأَمَّا الْمَرْئِيَّةُ فَطَهَارَةُ مَحَلِّهَا زَوَالُ عَيْنِهَا؛ لِأَنَّ تَنَجُّسَ الْمَحَلِّ بِاعْتِبَارِ الْعَيْنِ فَيَزُولُ بِزَوَالِهَا وَلَوْ بِمَرَّةٍ كَمَا جَزَمَ بِهِ فِي الْكَنْزِ وَاعْتَمَدَهُ الزَّيْلَعِيُّ... وَأَمَّا غَيْرُ الْمَرْئِيَّةِ فَطَهَارَةُ مَحَلِّهَا غَسْلُهَا ثَلَاثًا وَالْعَصْرُ كُلَّ مَرَّةٍ وَالْمُعْتَبَرُ فِيهِ غَلَبَةُ الظَّنِّ، وَإِنَّمَا قَدَّرُوهُ بِالثَّلَاثِ؛ لِأَنَّ غَلَبَةَ الظَّنِّ تَحْصُلُ عِنْدَهَا غَالِبًا وَفِي شَرْحِ الدُّرَرِ شَرْطُ الْمُبَالَغَةِ فِي الْمَرَّةِ الثَّالِثَةِ بِحَيْثُ لَوْ عَصَرَهُ بِقَدْرِ طَاقَتِهِ لَا يَسِيلُ مِنْهُ الْمَاءُ وَلَوْ لَمْ يُبَالِغْ فِيهِ صِيَانَةً لِلثَّوْبِ لَا يَطْهُرُ.
( البحر الرائق، کتاب الطھارۃ، باب الأنجاس، ج: 1، ص: 248)
رد المحتار میں ہے: قَدْ عَلِمْت أَنَّ الْمُعْتَبَرَ فِي تَطْهِيرِ النَّجَاسَةِ الْمَرْئِيَّةِ زَوَالُ عَيْنِهَا وَلَوْ بِغَسْلَةٍ وَاحِدَةٍ وَلَوْ فِي إجَّانَةٍ كَمَا مَرَّ، فَلَا يُشْتَرَطُ فِيهَا تَثْلِيثُ غَسْلٍ وَلَا عَصْرٍ، وَأَنَّ الْمُعْتَبَرَ غَلَبَةُ الظَّنِّ فِي تَطْهِيرِ غَيْرِ الْمَرْئِيَّةِ بِلَا عَدَدٍ عَلَى الْمُفْتَى بِهِ أَوْ مَعَ شَرْطِ التَّثْلِيثِ عَلَى مَا مَرَّ، وَلَا شَكَّ أَنَّ الْغَسْلَ بِالْمَاءِ الْجَارِي وَمَا فِي حُكْمِهِ مِنْ الْغَدِيرِ أَوْ الصَّبَّ الْكَثِيرَ الَّذِي يَذْهَبُ بِالنَّجَاسَةِ أَصْلًا وَيَخْلُفُهُ غَيْرُهُ مِرَارًا بِالْجَرَيَانِ أَقْوَى مِنْ الْغَسْلِ فِي الْإِجَّانَةِ الَّتِي عَلَى خِلَافِ الْقِيَاسِ؛ لِأَنَّ النَّجَاسَةَ فِيهَا تُلَاقِي الْمَاءَ وَتَسْرِي مَعَهُ فِي جَمِيعِ أَجْزَاءِ الثَّوْبِ فَيَبْعُدُ كُلَّ الْبُعْدِ التَّسْوِيَةُ بَيْنَهُمَا فِي اشْتِرَاطِ التَّثْلِيثِ. رد المحتار، کتاب الطھارۃ، باب الأنجاس، ج: 1، ص: 333)
واللہ تعالی اعلم
کتبہ
محمد اظہارالنبی حسینی
مدرس دارالعلوم قادریہ مصباح المسلمین، علی پٹی شریف
0 تبصرے