سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ، تحریر : محمد شہاب الدین علیمی






سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ
تحریر : محمد شہاب الدین علیمی
١٨ ذی الحجہ ١٤٤٤ھ ٧ جولائی ٢٠٢٣ع
جامع القرآن ، کامل الحیاء والایمان ، مظلوم مدینہ حضرت سیدنا عثمان غنی ذوالنورین رضی اللّٰهُ تعالی عنہ کا تعلق خاندان قریش سے ہے ۔ سلسلۂ نسب یوں ہے ۔ *حضرت عثمان بن عفان بن ابو العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف پانچویں پشت میں آپ کا نسب حضور ﷺ کے نسب سے جا ملتا ہے ۔
آپ عام الفیل کے چھ سال بعد پیدا ہویے ۔ آپ ابتدایے اسلام میں ہی مشرف باسلام ہو گئے تھے ۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللّٰهُ تعالی عنہ کی تبلیغ پر حلقہ بگوش اسلام ہویے ۔ آپ کے اسلام لانے پر آپ کے گھر والے سخت برہم ہوئے ، حتی کہ آپ کے چچا نے آپ کو رسیوں سے باندھ کر سخت اذیت پہنچائی تاکہ آپ اسلام سے منحرف ہو جائیں ۔ لیکن آپ نے کہا کچھ بھی کر لو اسلام نہیں چھوڑوں گا۔ پھر آپ کے اس استقامت کو دیکھ کر آپ کو آپ کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔
مشرکین مکہ کی چیرہ دستیوں سے پریشان ہو کر حضور ﷺ کے حکم پر دو مرتبہ آپ نے ہجرت فرمائی ۔ ایک بار حبشہ کی جانب اور دوسری بار مدینہ طیبہ کی جانب ۔ اس لیے آپ کو "ذوالہجرتین" بھی کہا جاتا ہے ۔
ذوالنورین
حضور ﷺ کی دو شہزادیاں آپ کے نکاح میں یکے بعد دیگرے تشریف لائیں ۔ پہلا نکاح حضرت رقیہ رضی اللّٰهُ تعالی عنہا کے ساتھ ہوا تھا جو جنگ بدر کی فتح کے بعد اس دنیا سے تشریف لے گئیں ۔ پھر حضور ﷺ نے حضرت ام کلثوم رضی اللّٰهُ تعالی عنہا کا نکاح آپ سے کر دیا جو ٩ھ میں اس دنیا سے تشریف لے گئیں ۔ یوں دو صاحبزادیاں آپ کے نکاح میں آئیں ۔اسی وجہ سے آپ کو "ذوالنورین" ( دو نور والے ) کہا جاتا ہے۔
نور کی سرکار سے پایا دو شالہ نور کا
ہو مبارک تم کو ذوالنورین جوڑا نور کا
آپ کی انفرادیت
یہ صرف حضرت عثمان غنی رضی اللّٰهُ تعالی عنہ کی خصوصیت و انفرادیت ہے کہ آپ کے نکاح میں کسی نبی کی دو شہزادیاں یکے بعد دیگرے تشریف لائیں ۔ ورنہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسی علیہ السلام تک کسی بھی نبی کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے کسی بھی شخص کے نکاح میں نہ آئیں ۔ لیکن حضرت عثمان غنی رضی اللّٰهُ تعالی عنہ کے نکاح میں صرف نبی نہیں بلکہ نبی الانبیاء و سید الانبیاء ﷺ کی دو صاحبزادیاں آئیں ۔
یہاں تک کہ حضرت علی رضی اللّٰهُ تعالی عنہ سے منقول ہے ، فرماتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کا ارشاد سنا ہے جو آپ حضرت عثمان غنی رضی اللّٰهُ تعالی عنہ سے فرما رہے تھے : اے عثمان! اگر میری چالیس بیٹیاں ہوتیں تو سب کو یکے بعد دیگرے سب کا نکاح تم سے کر دیتا یہاں تک کہ کویی بھی باقی نہیں رہتی ۔ سبحان اللّٰه العظیم
سخاوت
اللہ تعالیٰ نے حضرت عثمان غنی رضی اللّٰهُ تعالی عنہ کو جس قدر دولت سے نوازہ تھا اسی قدر اپنی راہ میں خرچ کرنے کا جذبہ بھی عطا فرمایا تھا ۔ آپ نے اپنے مال سے مسلمانوں کو خوب نفع پہنچایا ۔ جہاد میں حضور ﷺ کے ترغیب دلانے پر مال کا انبار لگا دیا ۔ اتنا صدقات و خیرات کیا کہ قرآن پاک میں آیت کریمہ نازل ہوئی ۔
ٱلَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَٰلَهُمْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ ثُمَّ لَا يُتْبِعُونَ مَآ أَنفَقُواْ مَنًّا وَلَآ أَذًى ۙ لَّهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (سورۃ البقرۃ)
سید نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ نے اس آیت کریمہ کے تحت اپنی تفسیر خزائن العرفان میں لکھا کہ یہ آیت کریمہ حضرت عثمان غنی و حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللّٰهُ تعالی عنہما کے حق میں نازل ہوئی۔حضرت عثمان غنی رضی اللّٰهُ تعالی عنہ نے ایک ہزار اونٹ مع ساز و سامان پیش کیے اور حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللّٰهُ تعالی عنہ نے چار ہزار درہم صدقے کے حضور ﷺ کی بارگاہ اقدس میں بیش کیے۔
سخاوت کے کچھ واقعات
(1) حضور ﷺ اور دیگر صحابۂ کرام رضی اللّٰهُ تعالی عنہم اجمعین جب مدینہ طیبہ ہجرت کر کے تشریف لے گیے تو وہاں صرف ایک ہی کنویں کا پانی میٹھا تھا ، باقی کنویں کا پانی کھارا تھا ۔ وہ کنواں جس کا پانی میٹھا تھا وہ ایک یہودی کا تھا ۔ اس کنویں کو "بیر رومہ" کہا جاتا تھا۔ سب اسی کا پانی پیتے تھے ۔ یہودی اس پانی کو فروخت کرتا تھا جس پر کافی رقم لیتا تھا ۔ جس سے مسلمانوں کو بہت پریشانی ہوتی تھی ۔حضور ﷺ کے کہنے پر حضرت عثمان غنی رضی اللّٰهُ تعالی عنہ نے اس کنویں کو بارہ ہزار درہم دے کر خرید لیا اور مسلمانوں پر وقف کر دیا ۔اور یہ قرار پایا کہ ایک دن مسلمان اس سے پانی بھریں گے اور دوسرے دن وہ یہودی جس کا کنواں تھا ۔ مسلمان اپنی باری میں دو دن کا پانی بھر لیتے تھے اور یہودی کی باری میں کوئی نہیں جاتا تھا ۔ یہ دیکھ کر یہودی نے وہ حصہ بھی بیچ دیا جس کو آٹھ ہزار درہم دے کر حضرت عثمان غنی رضی اللّٰهُ تعالی عنہ نے خرید لیا ۔ اس کو اب "بیر حضرت عثمان غنی رضی اللّٰهُ تعالی عنہ" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔
(اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ تجارت کیسے کی جاتی ہے اور تجارت میں نفع کیسے حاصل کیا جاتا ہے کہ جو حصہ بارہ ہزار کا تھا اس کو آٹھ ہزار درہم میں ہی خرید لیا ۔ چونکہ کنواں مسلمانوں پر آپ نے وقف کر دیا تو یہودی کی باری میں کویی پانی ہی نہیں بھرتا تھا ۔ تو مجبور ہو کر اس نے آٹھ ہزار درہم میں ہی بیچ دیا )
(2) ایک مرتبہ آپ نے حضور ﷺ کی دعوت فرمائی ۔ حضور ﷺ جب آپ کے گھر تشریف لے جا رہے تھے تو آپ حضور ﷺ کے پیچھے پیچھے چلتے ہویے حضور ﷺ کے قدم مبارک گن رہے تھے ۔ حضور ﷺ نے مسکرا کر پوچھا : عثمان! کیا گن رہے ہو؟ تو آپ نے جواب دیا کہ آپ کے قدم مبارک گن رہا ہوں کہ میرے گھر چلتے ہویے جتنے قدم ہوں گے اتنے غلام آزاد کروں گا ۔ پھر آپ نے اتنے غلام آزاد فرمائے۔
(3) جنگ تبوک کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم مسلمانوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دے رہے تھے کہ حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کھڑے ہوکر عرض کیا ’’یارسول اللہ! ساز و سامان کے ساتھ ایک سو اونٹ میں دیتا ہوں‘‘۔ حضور ﷺنے پھر ترغیب دی تو حضرت عثمان غنی رضی اللّٰهُ تعالی عنہ نے عرض کیا ’’یارسول اللہ ﷺ! ساز و سامان کے ساتھ دو سو اونٹ دیتا ہوں‘‘۔ حضور ﷺ نے پھر ترغیب دی تو حضرت عثمان غنی رضی اللّٰهُ تعالی عنہ نے پھر عرض کیا ’’یارسول اللہ! ساز و سامان کے ساتھ تین سو اونٹ دیتا ہوں‘‘۔ پھر ان تین سو اونٹوں کے علاوہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک ہزار دینار (ایک روایت کے مطابق آپ نے ایک ہزار اونٹ، ستر گھوڑے اور دس ہزار دینار اس جنگ میں خرچ کئے۔ مواہب لدنیہ) بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کردیئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان غنی کی یہ سخاوت دیکھی تو آپ کے پیش کردہ دیناروں میں اپنا دست مبارک ڈال کر فرمایا : "ما ضر عثمان ما عمل بعد اليوم مرتين" ’’عثمان کے اس نیک عمل کے بعد اب انھیں کوئی بات ضرر نہ پہنچائے گی‘‘۔ (مشکوۃ شریف۔ص561)
عہد خلافت کے کارہائے نمایاں
· آپ کے دور کا سب سے عظیم کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے کلام مجید کو اکٹھا کروا دیا جو الگ الگ صحیفوں میں بکھرے پڑے تھے۔
· آپ کے دور میں فتوحات کا وہ سلسلہ جس کو فاروق اعظم رضی اللّٰهُ تعالی عنہ نے جاری کیا تھا اس کا دائرہ مسلسل بڑھتا رہا۔
· آپ کے عہد خلافت میں طرابلس، طبرستان ، رے ، اسپین ، افریقہ اور قبرص وغیرہ فتح ہوا ۔
· اسلام میں بحری جنگ اوربحری فوجی انتظامات کی ابتدا خاص حضرت عثمان رضی اللّٰهُ تعالی عنہ کے عہد خلافت سے ہوئی۔
· آج تمام مہذب حکومتوں میں عمال وحکام کی ایک مجلس شوریٰ ہوتی ہے ، حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللّٰهُ تعالی عنہ نے تیرہ سو برس پہلے اس ضرورت کو محسوس کرکے عمال کی ایک مجلس شوریٰ ترتیب دی تھی ۔
· متعدد مساجد ، مہمان خانے ، سڑک ، پل اور چشمے وغیرہ بنوائے۔
شہادت
آپ کا زمانۂ وصال ظلم کی ایک داستان ہے ۔ آپ کو مظلوم مدینہ بھی کہا جاتا ہے ۔ آپ کی شہادت کے ایام بڑے کربناک ہیں ۔ واقعہ یوں ہے کہ عبد اللہ بن ابی سرح جس کو حضرت عثمان غنی رضی اللّٰهُ تعالی عنہ نے مصر کا گورنر مقرر کیا تھا ۔ اس سے لوگوں کو شکایتیں پیدا ہوئیں تو لوگوں نے بذریعۂ تحریر حضرت عثمان غنی رضی اللّٰهُ تعالی عنہ کو آگاہ کیا ، اس پر آپ نے عبد اللہ کو سخت تنبیہ فرمائی لیکن اس نے ان لوگوں کو ہی قتل کروا دیا جنہوں نے تحریر لکھا تھا ۔ تو مصر سے سات سو افراد مدینہ شریف تشریف لائے اور ساری باتیں بیان کی۔ جب حضرت عثمان غنی رضی اللّٰهُ تعالی عنہ اور دیگر اکابر صحابہ کرام کو معلوم ہو گیا تو انہوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللّٰهُ تعالی عنہ سے کہا کہ آپ عبد اللہ کو معزول کر دیں ۔ تو حضرت عثمان غنی رضی اللّٰهُ تعالی عنہ نے فرمایا کہ آپ لوگ کسی کو بطور گورنر چن لیں اور میں عبد اللہ بن ابی سرح کو معزول کر دیتا ہوں ۔ لوگوں نے حضرت صدیق اکبر رضی اللّٰهُ تعالی عنہ کے بیٹے محمد کو چن لیا ۔ اور حضرت عثمان غنی رضی اللّٰهُ تعالی عنہ نے تحریر لکھ دی ۔ جب یہ لوگ مدینہ شریف سے مصر کی طرف جا رہے تھے تو مروان نے ایک خط عبد اللہ بن ابی سرح کو لکھا کہ محمد بن ابو بکر اور ان کے ساتھ جو لوگ جا رہے ہیں ان کو قتل کر دو اور جب تک میں دوسرا حکم نہ دوں تم اپنا کام جاری رکھو اور حضرت عثمان غنی رضی اللّٰهُ تعالی عنہ کی انگوٹھی چرا کر مہر لگا دیا ۔ پھر حضرت عثمان غنی رضی اللّٰهُ تعالی عنہ کے ایک غلام کو وہ خط دے کر مصر کی جانب روانہ کر دیا ۔ وہ بہت تیزی کے ساتھ جا رہا تھا جب محمد بن ابو بکر اور دیگر لوگوں نے دیکھا کہ یہ کوئی شخص تیزی سے جا رہا ہے تو اس کو پکڑا اور اس کی تلاشی لی تو وہ خط ملا جس کو پڑھ کر یہ لوگ بہت غصہ میں آ گیے اور وہیں سے مدینہ شریف واپس ہو گئے ۔ صحابہ کو بلا کر وہ خط دکھایا تو حضرت عثمان غنی رضی اللّٰهُ تعالی عنہ نے قسم کھا کر اپنی براءت کا اظہار کیا لیکن مصر سے آنے والے لوگوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللّٰهُ تعالی عنہ کے گھر کا محاصرہ کر لیا ۔ ان لوگوں کو بلوائی کہا جاتا ہے ۔ جب ان لوگوں نے محاصرہ سخت کیا تو حضرت علی رضی اللّٰهُ تعالی عنہ کو احساس ہوا کہ یہ لوگ حضرت عثمان غنی رضی اللّٰهُ تعالی عنہ کو شہید کرنا چاہتے ہیں ، تو آپ نے حضرت امام حسن و حسین رضی اللّٰهُ تعالی عنہما کو پہرہ دینے کے لیے مامور کر دیا ۔ دوسرے دیگر صحابۂ کرام نے بھی اپنے صاحبزادوں کو پہرہ کے لیے لگا دیا ۔لیکن محمد بن ابو بکر صدیق رضی اللّٰهُ تعالی عنہما دو لوگوں کو لے کر ایک انصاری کے گھر سے ہو کر حضرت عثمان غنی رضی اللّٰهُ تعالی عنہ کے گھر میں داخل ہو گئے اور کسی پہرہ دینے والے کو پتہ ہی نہ چل سکا ۔ محمد بن ابو بکر نے حضرت عثمان غنی رضی اللّٰهُ تعالی عنہ کی داڑھی شریف کو پکڑ لیا ۔ اس وقت حضرت عثمان غنی رضی اللّٰهُ تعالی عنہ نے فرمایا کہ اگر تمہارے باپ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰهُ تعالی عنہ تم کو اس حالت میں دیکھتے تو کیا کہتے ؟ تو حضرت محمد بن ابو بکر صدیق رضی اللّٰهُ تعالی عنہما داڑھی چھوڑ کر پیچھے ہٹ گئے ۔ لیکن دو لوگ جو ساتھ آیے ہویے تھے ان لوگوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللّٰهُ تعالی عنہ پر حملہ کر کے شہید کر دیا ۔انا للّٰه و انا الیه رٰجعون
حضرت عثمان غنی رضی اللّٰهُ تعالی عنہ کی بیوی حضرت نائلہ رضی اللّٰهُ تعالی عنہا نے بچانے کے لیے اپنا ہاتھ حضرت عثمان غنی رضی اللّٰهُ تعالی عنہ کی طرف کیا تو حضرت نائلہ کی انگلیاں کٹ گئیں ۔ آپ اس وقت قرآن پاک کی تلاوت فرما رہے تھے اور خون کے چند قطرات آیت مبارکہ "فَسَیَکْفِیْکْھُمُ اللّٰهُ" پر پڑے ۔
یوں ١٨ ذی الحجہ ٣٥ھ بروز جمعہ عصر کے وقت آپ کی شہادت ہوئی ۔ آپ کی عمر اس وقت بیاسی برس کی تھی ۔ حضرت زبیر بن عوام رضی اللّٰهُ تعالی عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں آپ کو دفن کیا گیا ۔
دُرِّ منشور قرآں کی سلک بہی
زوجِ دو نور عفت پہ لاکھوں سلام

یعنی عثمان صاحب قمیص ہدیٰ
حُلّہ پوش شہادت پہ لاکھوں سلام
اللہ تعالیٰ آپ کے قبر انور پر رحمت و نور کی بارش فرمائے اور ہم سب آپ کے فیضان سے مالامال فرمائے


محمد شہاب الدین علیمی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے