اعتراض: کائنات اگر خدا نے بنائی ہے تو پھر خدا کو کس نے پیدا کیا ہے؟



اعتراض: کائنات اگر خدا نے بنائی ہے تو پھر خدا کو کس نے پیدا کیا ہے؟
تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔✍️ ابو طلحہ سندھی


ملحدین سے جب ہم یہ پوچھتے ہیں کہ اگر خدا نہیں ہے تو پھر کائنات کو کس نے پیدا کیا ہے؟ تو اسکا جواب دینے کے بجائے وہ ہم پر اعتراض کرتے لگتے ہیں کہ اگر کائنات خدا نے بنائی ہے تو پھر خدا کو کس نے پیدا کیا ہے؟
اسکا جواب جاننے سے پہلے دو اصطلاحات یاد رکھیں ان شاء اللہ جواب سمجھنے میں آسانی ہوگی۔

قدیم: جو ھمیشہ سے ہو جس کی کوئی ابتدا نہ ہو ۔
حادث: جو چیز ہمیشہ سے نہ ہو بلکہ بعد میں وجود میں آئی ہو۔
اس کے بعد یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہم مسلمانوں کے نزدیک خدا اور کائنات کے بارے میں کیا تصور ہے اور ملحدین کے ہاں کائنات اور خدا کے بارے میں کیا نظریہ ہے؟
پھر جو اعتراض ہمارے نظریے اور عقیدے کے مطابق ہوگا اس کا جواب دینا ہم پر لازم ہے اور جو اعتراض ملحدین کے نظریے پر ہوگا اس کا جواب دینا انکے ذمے لازم ہے۔
ملحدین کا نظریہ یہ ہے کہ خدا کا کوئی وجود نہیں ہے اور کائنات کے بارے میں انکے یہاں دو طرح کے نظریات پائے جاتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ کائنات قدیم ہے (اور یہ پرانے دور کے ملحدین کا نظریہ ہے) اور بعض کے نزدیک کائنات کا وجود بگ بینگ (Big Bang) کے بعد ہوا اور یہ جدید دور کے ملحدین کا نظریہ ہے۔
جبکہ ہم مسلمانوں کا خدا کے بارے میں عقیدہ یہ ہے کہ خدا قدیم ہے یعنی ہمیشہ سے ہے جس کی کوئی ابتدا یا انتہا نہیں ہے۔ اور وہ جسم اور مکان سے بھی پاک ہے یعنی اس کا نہ کوئی جسم ہے اور نہ وہ اپنے وجود میں کسی جگہ کا محتاج ہے بلکہ وہ کسی بھی معاملے میں ہرگز کسی کا محتاج نہیں۔
اور کائنات کے بارے میں ہمارا نظریہ یہ ہے کہ کائنات حادث ہے یعنی یہ پہلے موجود نہیں تھی بعد میں وجود میں آئی۔
کائنات کے حادث اور خدا کے قدیم ہونے کے بارے میں ہماری دلیل یہ ہے کہ کائنات میں دو طرح کی چیزیں پائی جاتی ہیں:
1️⃣. اعیان: یعنی وہ چیزیں جو بذات خود قائم ہیں یعنی اپنے وجود میں کسی اور چیز کی محتاج نہیں جیسے جسم مثلاً پتھر، مٹی پانی وغیرہ۔
2️⃣. اعراض: وہ چیزیں جو بذات خود قائم نہیں بلکہ اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے دوسری چیز کی محتاج ہوتی ہیں، جیسے خوبصورتی، بد خوبصورتی، سخاوت، خوشی، غم، علم، قوتِ بصارت (دیکھنے کی قوت) قوتِ سماعت (سننے کی صلاحیت) قوتِ شامہ (سونگھنے کی قوت) مختلف رنگ، گرمی اور سردی وغیرہ وغیرہ۔
ان تمام چیزوں کا وجود جسم سے الگ ممکن نہیں انکا وجود ھمیشہ کسی جسم کیساتھ ہی ہوتا ہے۔
دنیا کی کوئی بھی چیز ان دو قسموں سے خارج نہیں ہے، یا تو وہ اعیان میں سے ہوگی یا اعراض میں سے۔
اور یہ دونوں چیزیں حادث ہیں۔
اعراض کے حادث ہونے کی دلیل یہ ہے کہ کوئی بھی عرض ہمیشہ ایک حالت میں باقی نہیں رہتا بلکہ اس میں تغیر اور تبدیلی ہوتی رہتی ہے، مثلاً: کاغذ ایک عین یعنی جسم ہے لیکن اس کی شکل و صورت عرض ہے جو ھمیشہ ایک حالت میں نہیں رہتا۔ آج کاغذ کی شکل میں ہے کل کسی اور شکل میں ہوگا مثلاً:
اگر اسے آگ میں ڈالا جائے تو تھوڑی دیر میں راکھ میں بدل جائے گا اور راکھ کی صورت میں ایک نئی ھیئت و صورت حاصل ہوجائیگی جو پہلے معدوم تھی۔
اسی طرح جب کوئی کاریگر مٹی سے برتن بناتا ہے تو برتن بننے سے پہلے وہ مٹی ہوتی ہے، برتن کی شکل و صورت معدوم ہوتی ہے لیکن جب اس سے برتن بن کر تیار ہوجاتا ہے تو برتن کی صورت میں ایک نئی ہيئت و صورت حاصل ہوجاتی ہے جو کہ برتن بننے سے پہلے معدوم تھی یعنی اسکا وجود نہیں تھا۔ اور جس چیز کا پہلے وجود نہ ہو اسی کو تو حادث کہا جاتا ہے اور یہ ایک مُسلَّم منطقی اصول بھی ہے کہ ” کُلُّ مُتَغَیِّرٍ حَادِثٌ “ یعنی ہر بدلنے والی چیز حادث ہوتی ہے۔
معلوم ہوا کہ اعراض سب حادث ہوتے ہیں کیونکہ وہ بدلتے رہتے ہیں۔
اعیان یعنی اجسام بھی حادث ہوتے ہیں اور اسکی دلیل یہ ہے کہ ہر جسم لازمی طور پر کسی نہ کسی شکل و صورت میں ہوتا ہے اور شکل و صورت عرض ہیں۔ اگر جسم کو قدیم مانا جائے تو لازمی طور پر اسکی شکل و صورت کو بھی قدیم ماننا پڑے گا کیونکہ جسم کو عرض لازم ہے اور جسم ملزوم، لازم اور ملزوم میں سے ایک چیز اگر قدیم ہوگی تو ضروری ہے کہ دوسری چیز بھی قدیم ہو ورنہ لازم اور ملزوم میں فصلِِ زمانی لازم آئے گا جو کہ محال ہے۔
اور ابھی اوپر ثابت ہوچکا کہ اعراض سب حادث ہیں جب اجسام کی شکل و صورت یعنی عرض حادث ہے تو لازمی طور پر جسم کو بھی حادث ماننا پڑے گا کیونکہ ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ لازم تو حادث ہو اور ملزوم قدیم۔
لامحالہ دونوں کو حادث ماننا پڑے گا۔
جب اعیان اور اعراض دونوں کا حادث ہونا ثابت ہوگیا تو کائنات کو بھی حادث ماننا پڑے گا کیونکہ کائنات ان دو چیزوں کو مجموعہ ہے۔ اور جب کائنات کا حادث ہونا ثابت ہوگیا تو ہر حادث کیلئے مُحدث(بنانے والا) کا ہونا ضروری ہوتا ہے کیونکہ مشاھدہ اور عقل سے یہ بات قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہے کہ کوئی بھی چیز بغیر بنانے والے کے خود وجود میں نہیں آسکتی مثلاً کوئی بھی عمارت بغیر معمار کے نہیں بن سکتی، کوئی بھی گاڑی بغیر چلانے والے کے نہیں چل سکتی وغیرہ وغیرہ۔
اب کائنات کا بنانے والا یا تو قدیم ہوگا یا کائنات کی طرح حادث،
اگر کائنات کے بنانے کو بھی کائنات کی طرح حادث مان لیا جائے تو پھر سوال پیدا ہوگا کہ اسے کس نے تخلیق کیا؟
پھر اگر اسکا بھی کوئی خالق حادث مان لیا جائے تو پھر سوال اٹھے گا کہ اسکو کس نے پیدا کیا؟ وعلیٰ ھذا القیاس یہ سوالات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجائے گا جسے منطق کی اصطلاح میں تسلسل کہا جاتا ہے جسکے بطلان پر اہل علم کا اتفاق ہے۔
لہٰذا ماننا پڑے گا کہ کائنات کا بنانے والا وہی ہو سکتا ہے جو خود حادث نہ ہو بلکہ قدیم ہو اور وہ قدیم ذات اللہ رب العزت کی ہے جس نے اس کائنات کو وجود عطا کیا۔
اب آتے ہیں ملحدین کے سوال کی طرف کہ اگر کائنات کو خدا نے بنایا ہے تو پھر خدا کو کس نے پیدا کیا؟
اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ ہم خدا کو حادث مانتے ہی نہیں لھٰذا آپکا ہم سے یہ سوال کرنا ہی غلط ہے کیونکہ ھمارے عقیدے کے مطابق اللہ تعالیٰ قدیم ہے اور قدیم کا کوئی خالق نہیں ہوتا بلکہ حادث کا خالق ہونا ضروری ہوتا ہے۔
اگر وہ خدا کے قدیم ہونے پر کوئی معقول اعتراض کریں تو اس کا جواب دیا جا سکتا ہے لیکن جو اعتراض ہمارے عقیدے کے مطابق ہی نہ ہو تو ہم اس کا جواب دینے کے بھی پابند نہیں ہیں۔ پہلے وہ اپنے اعتراض کو درست کریں۔
جبکہ موجودہ دور کے ملحدین بگ بینگ (Big Bang) تھیوری کے قائل ہیں اور ان کا اس تھیوری کو ماننا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ کائنات حادث ہے یعنی پہلے نہیں تھی بگ بینگ کے بعد وجود میں آئی،
اور جو ملحدین کائنات کے قدیم ہونے کا نظریہ رکھتے تھے اس کو بھی ہم اوپر رد کر حادث ہونا ثابت کر چکے۔
لہٰذا جب ملحدین کے دونوں گروہوں کے نظریے کے مطابق کائنات کا حادث ہونا ثابت ہوچکا تو اب حادث کے بارے میں ہمارا ان سے سوال کرنا بلکل بجا ہے کہ اگر خدا نہیں ہے تو پھر اس حادث کائنات کا محدث (بنانے والا) کون ہے؟ اگر کائنات بگ بینگ سے بنی ہے تو پھر اس Big Bang کا فاعل (دھماکہ کرنے والا) کون ہے؟ اور یہ دھماکہ کس طرح ہوا جب کچھ تھا ہی نہیں؟ کیونکہ بغیر فاعل اور مٹیریل کے کوئی دھماکہ ہو نہیں سکتا۔
اور ہمارے یہ سوالات بلکل ان کے نظریے کے مطابق ہیں لھٰذا انکا جواب دینا انکے ذمے لازم ہے۔
لیکن کوئی بھی ملحد ان سوالات کے جوابات نہیں دیتا بلکہ انکے جوابات دینے کے بجائے الٹا مسلمانوں سے یہ سوال کرنے لگتے ہیں کہ اگر خدا نے کائنات کو بنایا تو پھر خدا کو کس نے بنایا؟
ارے عقل کے اندھے ہم خدا کو حادث مانتے ہی نہیں تو پھر ہم سے یہ سوال کس بنیاد پر کر رہے ہو؟ ہمارے نزدیک تو خدا قدیم ہے لھٰذا جو سوال ہمارے عقیدے کے مطابق ہی نہیں ہے تو پھر ہم اسکا جواب کیوں دیں؟؟؟
جبکہ ہمارا آپ سے سوال کرنا أپکے نظریے کے مطابق ہے کیونکہ آپ بھی کائنات کو حادث مانتے ہو اس لئے اسکا جواب دینے آپکے ذمے لازم ہے۔
دوسرا سوال یہ کرتے ہیں کہ اگر خدا نے کائنات کو بنایا ہے تو پھر کس چیز سے بنایا ہے جب کچھ تھا ہی نہیں؟
اس سوال کا مطلب یہ ہوا کہ خدا کو سائنسدانوں کی طرح کسی چیز کو بنانے کیلئے مٹیریل کا محتاج مانا جائے۔ جبکہ وہ خدا ہو ہی نہیں سکتا جو کسی چیز کا محتاج ہو۔ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ ہمارے عقیدے کے مطابق خدا کسی بھی معاملے میں کسی چیز کا ہرگز محتاج نہیں ہے۔ اور جو کسی اور چیز کا محتاج ہو وہ خدا نہیں ہو سکتا۔
اس لیے ان کا یہ اعتراض بھی ہمارے عقیدے کے مطابق نہیں ہے۔ یا تو ہمارے عقیدے کے مطابق سوال کریں یا پہلے عقلی دلائل سے سے خدا کو حادث ثابت کریں پھر یہ اعتراض کریں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے