مسئلے کا حل تذلیل وتضحیک نہیں ہے

 

مسئلے کا حل تذلیل وتضحیک نہیں ہے

غیاث الدین احمد عارف مصباحی نظامی


قرآن کریم کی سورہ نمبر/06 سورۃ الانعام آیت نمبر 108 میں اللہ رب العزت کا ارشاد گرامی ہے

 وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدۡوًۢا بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ؕ کَذٰلِکَ زَیَّنَّا لِکُلِّ  اُمَّۃٍ  عَمَلَہُمۡ ۪ ثُمَّ   اِلٰی رَبِّہِمۡ مَّرۡجِعُہُمۡ فَیُنَبِّئُہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۰۸﴾

ترجمہ :اور انہیں گالی نہ دو جن کو وہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں کہ وہ اللہ کی شان میں بے ادبی کریں گے زیادتی اور جہالت سے یونہی ہم نے ہر امت کی نگاہ میں اس کے عمل بھلے کر دیے ہیں پھر انہیں اپنے رب کی طرف پھرنا ہے اور وہ انہیں بتا دے گا جو کرتے تھے۔۔۔۔

سمجھنے کی بات :

قرآن ہمارے لئے ہر دور میں سراپا ہدایت ہے مگر آج کے اختلاف بھرے ماحول میں قرآن کی یہ آیت مبارکہ ہمارے لئے مزید غور وفکر کاسامان مہیا کررہی ہے جب ہم غیروں کے ساتھ اپنوں سے بھی جُوجھ رہے ہیں، غیر تو غیر ہی ہیں جو لگاتار ہمارے جذبات سے کھلواڑ کرنے اور ہمارے صبر کا امتحان لینے پر تُلے کھڑے ہیں مگر اس کے ساتھ ہم آپس میں خود ایک دوسرے کے لئے ایک بڑے مسئلے اور چیلنج کی شکل میں اُبھرتے جارہے ہیں، آج ہمارا عنوانِ تحریر یہی"  اپنے لوگ" ہیں جو گزشتہ کچھ سالوں سے مسلسل بر سرِ پیکار ہیں اور اپنی پوری توانائی(خود اپنوں میں) ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے میں صرف کررہے ہیں .

سر دست اختلافی مسئلہ "عید کی چاند" کا ہے۔

آج عید ہوئے تین روز گزر چکے ہیں مگر "سوشل میڈیائی مجاہدین "کی تُو تُکار اب تک جاری ہے(اللہ کرے آگے بند ہوجائے).

اگر بات صرف دلائل شرعیہ کی حدتک ہوتی تو کوئی مقام تعجب نہیں تھا کہ اس طرح کے اختلاف تو ہردور میں فقہاء آپس میں کرتے رہے ہیں اور یہ امت کے باعث رحمت بھی ہے مگر تماشے کی بات یہ کہ ہر دو فریق کے چاہنے والے ایک دوسرے کی تذلیل وتضحیک پر آمادہ ہیں،نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ کچھ بھی اول فول بکے جارہے ہیں اورانھیں امت کے نقصان کا احساس تک نہیں ۔

اس تناظرمیں ایک بار دوبارہ ذکر کردہ آیت مبارکہ کو پڑھیں اور غور کریں کہ جب ہمارا خدا جو ساری کائنات کا رب ہے اس نے ہمیں یہ حکم دیا کہ تبلیغ اسلام تو ضرور کریں، یہ بھی بتاتے رہیں کہ خدا ایک ہی ہے اس کے سوا کوئی خدا نہیں، مگر اِس اَمر کا خیال رکھیں کہ مشرکین کے معبودانِ باطل کو بُرا بھلا نہ کہیں کہ اس کے رِی ایکشن میں وہ تمہارے اُس پاک رب کو بُرا بھلا کہہ سکتے ہیں جو واقعی میں ساری کائنات کا رب اور خدا ہے کیوں کہ اس طرح کا ری ایکشن انسان کا فطری تقاضا ہے ۔۔۔

آپ اندازہ لگائیں کہ اسلام ہمیں کس قدر اعتدال کا پیغام عطا کرتا ہے ۔۔۔۔اسلام کی یہ بہت ہی غیر معمولی بات ہے کہ جو اسلام صرف اور صرف وحدانیت کا درس دیتا ہے اور اس کے علاوہ کچھ بھی قبول نہیں کرتا مگر اس کے باوجود اس بات سے منع کرتا ہے کہ باطل معبودوں کو بُرا بھلا نہ کہا جائے ۔ہاں اگر اپنا مدعا دلیل سے ثابت کیا جائے تو اسلام اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔

اس تناظر میں ہمیں آپس میں بھی یہی قرآنی طریقہ اپنانا چاہئے کہ اگر ہمیں ایک دوسرے سے اختلاف ہے تو اپنا دعویٰ ثابت کرنے کے لئے ہمیں محض دلائل کی حد تک محدود ہونا چاہئے ،ایک دوسرے کی تذلیل و تضحیک سے کسی بھی مسئلے کا حل تو قطعاً نہیں نکلتا البتہ نفرت وعداوت میں اضافہ یقینی طور پر ضرورہوجاتا ہے ۔

پس اے صاحبان عقل!  غور وفکر کرنا آپ کا کام ہے کہ امت مسلمہ میں اختلاف کی بیج بوکر ہر آئے دن ایک نیا بکھیڑا کرنا چاہتے ہیں یا اتحاد کی راہیں ہموار کرکے ایک سچے مصلح ومبلغ بننے کا نمونہ پیش کرتے ہیں ۔۔۔۔

غیاث الدین احمد عارف مصباحی نظامی


ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

Emoji
(y)
:)
:(
hihi
:-)
:D
=D
:-d
;(
;-(
@-)
:P
:o
:>)
(o)
:p
(p)
:-s
(m)
8-)
:-t
:-b
b-(
:-#
=p~
x-)
(k)