کورونا کی مہاماری اور اسلام کی غم گساری

 کورونا کی مہاماری اور اسلام کی غم گساری

اس مشکل گھڑی میں مسیحائی کا شرعی نقطۂ نظر.

اس وقت کم و بیش عالمی سطح  پر کورونا وائرس کی وبا پھیلی ہوئی ہے، جوممالک اپنی اقتصادی طاقت اور میڈیکل سائنس میں بڑی حد تک پیش قدمی کر رہے تھے، عام طور پر وہی ممالک  اس موذی اور جان لیوا مرض سے زیادہ جوجھ رہے ہیں، جو انسانوں کو کالوں اور گوروں میں بانٹ کر دیکھتے تھے، آج انھیں کے گورے زیادہ لقمۂ اجل بن رہے ہیں۔ ہمارے محبوب وطن ہندوستان کی پوزیشن بھی کسی پر مخفی نہیں ہے، لاک ڈاؤن میں ڈھیل کے باوجود مریض مسلسل بڑھ رہے ہیں، مہاراشٹر میں ممبئی، دہلی، تمل ناڈو اور راجستھان وغیرہ میں مریضوں کی تعداد روزافزوں ہے ، اتر پردیش میں مغربی علاقے زیادہ زد میں ہیں۔ کورونا وائرس ایک وبائی مرض ہے ، حدیثِ رسول ﷺ میں ”طاعون“ کے بارے میں وضاحت موجود ہے، ہم نے اس حدیث پاک اور اس سے متعلق دیگر اہم باتوں کا دیگر تحریروں اور بیانات میں ذکر کیا ہے۔

اپنے خالق و مالک کی بارگاہ میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ تعالیٰ! تو ہی توبہ قبول فرمانے والا ہے  اور اپنے مومن بندوں سے ستّر ماؤں کی ممتا سے زیادہ پیار فرمانے والا ہے۔ یا رب العالمین! ہم جیسے بھی ہیں تیرے ہی بندے ہیں، یارب العالمین! تیرے برتر و بالا در کے سوا ہمارا کوئی حقیقی ٹھکانہ نہیں۔ یا ارحم الراحمین ! تونے ہی اپنے محبوب مصطفےٰ جانِ رحمت کو وما ارسلنٰک الّا رحمۃ للعالمین کا تاجِ زریں پہنایا ہے۔ میدانِ محشر میں جب ہر طرف سے مایوس ہو جائیں گے ، ہر نبی کی زبان پر اذہبوا إلیٰ غیری ہوگا  ،تو اے پروردگار !تیرا ہی محبوب سراپا رحمت بن کر آواز لگا رہا ہوگا۔ انا لہا انا لہا۔شفاعت کے لیے میں ہوں، شفاعت کے لیے میں ہوں۔ کسی عاشق نے کیا خوب کہا ہے؂

فقط اتنا سبب ہے انعقادِ بزمِ محشر کا              کہ ان کی شانِ محبوبی دکھائی جانے والی ہے

 احادیثِ نبویہ کی روشنی میں ہمیں یقین ہے کہ اس قسم کے وبائی مرض غیر مسلموں کے لیے عذاب ہوتے ہیں اور سنی مسلمانوں کے لیے رحمت ، اور اگر مسلمان متاثر ہو جائیں اور اپنی جان جان آفرین کے حوالے کر دیں تو انھیں شہادت کا مژدۂ جاں فزا  بھی ہے۔ ہم دعا گو ہیں مولا تعالیٰ عالمِ کفر کو اسلام کے دامن میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ وہ اپنے جرائم سے توبہ کر لیں اور صراطِ مستقیم پر چلنے کے لیے بے تاب ہو جائیں، اللہ تعالیٰ سب کو اپنے گناہوں اور بد اعتقادیوں سے بچنے اور دل سے توبہ و استغفار کرنے کے سچے جذبات عطا فرمائے۔

یہ تو سچ اور حق ہے کہ طاعون جیسے وبائی مرض  سے اگر کوئی صالح عقیدے والا انسان دنیاے فانی سے جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے شہادت کا درجہ عطا فرماتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہم اہلِ سنت و جماعت میں صالحین کی تعداد کتنے فیصد ہے۔  ہم میں اکثر مجرم اور گناہ گار ہیں، ہمیں بہر صورت اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہم لوگ جو زندگی گزارتے ہیں اس میں شریعت کے مطابق کتنا ہوتا ہے؟ ہمیں اپنی بندگی پر غور کرنا چاہیے کہ ہمارے دلوں میں اخلاص و للہیت کا جذبہ کارفرما ہے یا یا محض دکھاوا اور ریاکاری ہے۔ہمیں اپنی نمازوں، روزوں، زکاتوں اور حج کی ادائگی پر نظرِ ثانی کرنا چاہیے ، کیا ہماری نمازوں میں طہارتوں کا بھر پور اہتمام تھا یا نہیں؟ بظاہر بدن اور کپڑے پاک ہیں مگر نیتوں میں پاکیزگی کا کیا حال تھا، کیا ہمارے سجدے محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے ہیں، کیا واقعی ہم اپنے سجدوں میں تجلیاتِ ربانی کا مشاہدہ کرتے ہیں، یا پھر دوسرا درجہ کہ ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے ۔ صحاح ستہ کی مشہور حدیث جبرئیل ہے، وہ بارگاہ رسول ﷺ میں تشریف لائے اور انھوں نے سرکار ﷺ سے اسلام، نماز، روزہ، حج اور ایمان کے بارے میں سوالات کیے ، حضور ﷺ نے جو جوابات عنایت فرمائے ، سائل نے ان تمام کی تصدیق فرمائی، پھر بعد میں اسی حالت میں سوال کیا :

”فَأَخۡبِرۡنِیۡ عَنِ الۡاِحۡسَانِ ؟قَالَ : أنۡ تَعۡبُدَ اللہَ فَاِنَّکَ تَرَاہُ ، فَإِنۡ لَمۡ تَکُنۡ تَرَاہُ  فَإِنَّہٗ یُرَاکَ الخ۔“

(اخرجہ البخاری، فی الصحیح، کتاب الایمان ۲۷/۱، الرقم ۵۰)

” عرض کیا! مجھے احسان کے بارے میں بتائیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : احسان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے نہ دیکھ سکے تو یہ جان کہ وہ یقیناً تجھے دیکھ رہا ہے۔“

یعنی ایک حقیقی بندۂ مومن کی شناخت یہ ہے کہ جب وہ عبادت کرے تو اس کو واقعی اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ  کا مشاہدہ ہونا چاہیے، یہ ایک مخلص بندۂ مومن کا اکمل درجہ ہے، جب اسے عبادت کے دوران مشاہدۂ الٰہی کی معراج ہوگی تو اس کا خیال اِدھر اُدھر نہیں بھٹکے گا ، بلکہ اس کے دل و دماغ پوری یکسوئی کے ساتھ حاضر ہوں گے، اور اگر یہ اعلیٰ درجہ اخلاص و للہیت  کی کوتاہی کی وجہ سے حاصل نہ ہو تو اسے یہ یقین رکھنا چاہیے کہ معبودِ حقیقی ہمیں دیکھ رہا ہ، جب بھی نہ اس کی نظر بہکے گی اور نہ دل و دماغ میں غیر متعلق تصورات آئیں گے۔

شیخ عبد الحق محدث دہلوی کا درود و سلام پر یقین کامل:

محقق علی الاطلاق شیخ عبد الحق محدث دہلوی کی ولادت محرم الحرام ۹۵۰ھ/۱۵۵۱ء میں ہوئی، وصال ۲۱؍ ربیع لاول ۱۰۵۲ھ/۱۹؍ جون ۱۶۴۲ء کو ۹۴؍ برس کی عمر میں میں ہوا۔ آپ گیارہویں صدی ہجری کے مجدد تھے، فتنۂ اکبری کی اصلاح اور بر صغیر میں حدیث نبوی کے علوم و معارف کی بھر پور اشاعت  وغیرہ آپ کے تجدیدی کارنامے ہیں، خشیتِ ربانی کے ساتھ عبادت و ریاضت آپ کی زندگی کی اہم کمائی تھی اور اس کے ساتھ خاص بات یہ کہ آپ انتہائی مؤدب عاشقِ مصطفیٰ ﷺ تھے۔ ان کا خیال تھا کہ باقی عبادات تو فسادِ نیت کا شکار ہو سکتی ہیں مگر اے اللہ تعالیٰ !جو ہم نے تیرے محبوب کی محفلِ میلاد میں با ادب کھڑے ہو کر سلام پیش کیے ہیں اور انتہائی عجز و انکساری کے ساتھ تیرے محبوب ﷺ کی بارگاہِ ناز میں جو ہم نے درودیں پیش کی ہیں ان میں کبھی فسادِ نیت کا شائبہ نہیں ہوا، اے اللہ تعالیٰ !تو خوب جانتا ہے ، دنیا میں کوئی مجلس ایسی نہیں  جو محفلِ میلاد النبی ﷺ سے زیادہ با برکت ہو، اس سے زیادہ خیر و برکت کا نزول کسی دینی تقریب میں نہیں ہوتا۔ آپ نے مزید فرمایا: اے ارحم الراحمین ! میرا کوئی عمل قابلِ قبول ہو یا نہ ہو، مگر عشقِ رسول ﷺ میں ڈوب کر آقا ﷺ کی بارگاہ میں درود و سلام پڑھنے کا  عمل ضرور قبول ہوگا۔ آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جو بندۂ مومن درود و سلام پڑھ کر جو دعا کرتا ہے وہ کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔

اب آپ خود سماعت فرمائیے، محقق علی الاطلاق شیخ عبد الحق محدث دہلوی کیا فرماتے ہیں:

اے اللہ ! میرا کوئی عمل ایسا نہیں ہے جسے تیرے دربار میں پیش کرنے کے لائق سمجھوں, میرے تمام اعمال میں فساد نیت موجود رہتی ہے, ہاں مجھ حقیر فقیر کا ایک عمل صرف تیری ذات پاک کی عنایت کی وجہ سے بہت شاندار ہے اور وہ یہ ہے کہ (عید)میلاد  النبی ﷺ کی مجلس میں کھڑے ہوکر سلام پڑھتاہوں اور نہایت ہی عجز وانکساری اور اخلاص ومحبت کے ساتھ تیرے حبیب پاک ﷺپر درود و سلام بھیجتا رہا ہوں۔

اے اللہ! وہ کونسا مقام ہے جہاں میلاد مبارک سے زیادہ تیری خیروبرکت کا نزول ہوتا ہے۔ اس لیے اے ارحم الراحمین ! مجھے پکا یقین ہے کہ میرا یہ عمل کبھی بیکار نہ جائے گا بلکہ یقینا تیری بارگاہ میں قبول ہوگا۔ اور جو کوئی درود و سلام پڑھے اور اس کے وسیلے سے دعا کرے وہ کبھی مسترد نہیں ہو سکتی۔ (اخبارالاخیار، ص، 624)

غریبوں کی غم گساری احادیث کی روشنی میں:

ان احادیث نبویہ کی روشنی میں ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ آج عالمی سطح پر انسانوں کی جو کس مپرسی ہے وہ سب پر ظاہر ہے۔ اقتصادی صورت حال بھی انتہائی نازک ہے ۔ خود مسلمانوں کی پوزیشن بھی سب پر عیاں ہے۔ ہم لوگ اگر اپنے ملکی حالات پر نظر ڈالیں تو صورتِ حال خون کے آنسو رلانے پر مجبور کر دیتی ہے ، آپ کو جان کر حیرت ہوگی، اسی کورونا مہاماری کے دوران جب ۵؍ جون ۲۰۲۰ء کو شراب خانے کھولے گئے تو صرف اتر پردیش میں دس گھنٹے میں تین سو کروڑ روپے کی شراب فروخت ہوئی۔ ہم نے اس پر بھی اظہارِ افسوس کرتے ہوئے احتجاجی بیانات میڈیا کو جاری کیے۔ ہم نے حدیثوں کی روشنی میں یہ نتیجہ نکالا تھا کہ شراب باعثِ شفا نہیں بلکہ مکمل بیماری ہے۔

اب ذیل میں ہم چند احادیثِ نبویہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں جن سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کی مدد کرنا کتنی فضیلت رکھتا ہے :

پہلی حدیث مصطفےٰﷺ:

عَنِ ابۡنِ عُمَرَ رضی اللہ تعالیٰ عنہما أَنَّ رَسُوۡلَ اللہِ ﷺ قَالَ : الۡمُسۡلِمُ أَخُو الۡمُسۡلِمِ لَا یَظۡلِمُہُ وَلَا یُسۡلِمُہٗ مَنۡ کَانَ فِیۡ حَاجَۃٍ أَخِیۡہِ کَانَ اللہُ فِيۡ حَاجَتِہِ وَمَنۡ فَرَّجَ عَنۡ مُسۡلِمٍ کُرۡبَۃً فَرَّجَ اللہُ عَنۡہُ بِہَا کُرۡبَۃً مِنۡ کُرُبَاتِ یَوۡمِ الۡقِیَامَۃِ وَمَنۡ سَتَرَ مُسۡلِمًا سَتَرَہُ اللہُ یَوۡمَ الۡقِیَامَۃِ . مُتَّفَقٌ عَلَیۡہِ.

(اخرجہ البخاری فی الصحیح، کتاب المظالم، ۲/۲۷۶، الرقم:۲۳۱۰)

 حضرت عبد اللہ بن عمر ﷟ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا: ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یارومددگار چھوڑتا ہے جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی حاجت روائی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی فرماتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان کی دنیاوی مشکل حل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی مشکلات میں سے کوئی مشکل حل فرمائے گا اور جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی ستر پوشی کرے گا۔“

یہ حدیث پاک صحیح مسلم شریف، ترمذی شریف، سنن ابو داؤد، نسائی کی سنن کبریٰ، مسند احمد بن حنبل، صحیح ابنِ حبان اور بیہقی کی سنن کبریٰ میں بھی مروی ہے۔

اس میں سرکار ﷺ  نے یہ یہ واضح فرما دیا ہے کہ تمام صحیح العقیدہ مسلمان باہم بھائی بھائی ہیں، ایک بھائی اپنے بھائی پر نہ ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے۔ یعنی ایک سچا بھائی وہی ہوتا ہے جو اپنے بھائی کی ہر مشکل میں اور ہر خوشی میں شریک و سہیم ہوتا ہے۔ اسی لیے آقا ﷺ فرماتے ہیں کہ کوئی بھائی اپنے بھائی کی معاونت فرماتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی شانِ کریمانہ کے مطابق اس کی معاونت فرماتا ہے ۔ دونوں میں جو فرق ہے وہ ہم سے بہتر آپ سمجھ رہے ہیں کہ ایک بے یار ومددگار بندہ ہے جو زندگی اور بندگی کے ہر معاملہ میں اللہ تعالیٰ کی توفیق کا محتاج ہے اور دوسری طرف مدد فرمانے والا خالق و مالک ہے ، دنیا کی ہر چیز اس کی محتاج ہے ، اس کی نگاہِ کرم ہو تو ذرہ آفتاب ہو جائے اور قطرہ سمندر ہو جائے۔ آقا ﷺ مزید فرماتے ہیں کہ ایک شخص اگر اپنے کسی بھائی کی دنیاوی مشکل پوری کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس معاون کی اخروی مشکل پوری فرمائے گا ۔ اب آپ ذرا غور کریں ، دنیا اور آخرت  میں زمین و آسمان کا فرق ہے ، یہ دنیا ایک دن ختم ہو جائے گی مگر آخرت کا معاملہ بڑا اہم ہے ، وہاں موت کو بھی موت آنا ہے۔  اس کے بعد عالمِ غیب پیغمبر ﷺ فرماتے ہیں کہ دنیا میں ایک مسلم بھائی اپنے دوسرے مسلم بھائی کی پردہ پوشی کرے گا تو اللہ تعالیٰ بروز محشر اس کی ستر پوشی فرمائے گا۔ یہاں دنیا، وہاں آخرت ، یہاں بندہ اور وہاں اللہ تعالیٰ۔  فافہم یااولی الأبصار۔

دوسری حدیث مصطفےٰﷺ:

”عَنۡ زَيْدِ ابۡنِ ثَابتٍ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عَنۡ رَسُوۡلِ اللہِ ﷺ قَالَ : لَا یَزَالُ اللہُ فِيۡ حَاجَۃِ الۡعَبۡدِ مَادَامَ فِيۡ حَاجَۃِ أَخِیۡہِ . رَوَاہُ الطَّبۡرَانِیُّ بِإِسۡنَادِ جَیِّدٍ. (اخرجہ الطبرانی فی المعجم الکبیر، ۵/۱۱۸، الرقم:۴۸۰۱)

”حضرت زید بن ثابت ﷛ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ اس وقت تک اپنے بندے کے کام میں مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے مسلمان بھائی کے کام میں مدد کرتا رہتا ہے۔“

اس حدیث میں آقا ﷺ فرماتے ہیں کہ ایک بندہ جب تک اپنے مسلم بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس مددگار کی مدد فرماتا رہتا ہے۔ ایک انسان اپنے مسلم بھائی کی مدد کرتا ہے ، مگر اس انسان کی حیثیت کتنی ہے، وہ جو کچھ بھی خدمت کرتا ہے اس کی حیثیت ایک فانی اور حادث بندے کی ہوتی ہے مگر جو خالق و مالک اس کی مدد فرماتا ہے، اس کے دستِ قدرت میں سب کچھ ہے، اس کے لفظِ کن سے دنیا اور مافیہا وجود میں آگئے اور وہ جب چاہے دنیا کو فنا فرما دے  گا۔ اب ذرا آپ موجودہ حالات پر نظر ڈالیں ، کیا ہے انسانی حیات۔ کورونا کی وبا سے پوری دنیا کے ممالک متاثر ہیں۔ ظاہری قوتوں کے فراعنہ بھی اس کے سامنے لرزہ بر اندام ہیں ، یہ امریکہ، برازیل، اٹلی ، برطانیہ اور ایران وغیرہ ، کون جان سکتا تھا کہ یہ اتنی آسانی سے  ھباءً منثورا ہو جائیں گے۔ مرض میں مبتلا ہونے کے بعد صحت یاب ہونا کوئی ضروری نہیں، میڈیکل سائنس بھی کوئی مفید دوا بنانے سے ابھی تک قاصر ہے ، جب کہ بعض ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ کوئی وبائی مرض نہیں، بلکہ محض سیاست ہے ۔ خیر ہمیں ان اختلافات سے لینا دینا کیا ہے ، اسے ہم وبائی مرض ہی مانتے ہیں ، باضابطہ احادیث میں وبائی امراض کا ذکر اور ان سے بچنے کی تدابیر بھی موجود ہیں۔

تیسری حدیثِ مصطفےٰ ﷺ:

”عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ الله ﷺ إِنَّ لِلهِ خَلَقًا خَلَقَهُمْ لِحَوَائِجِ النَّاسِ يَفْزَعُ  النَّاسُ إِلَيْهِمْ فِيْ حَوَائِجِهِمْ أُوْلٰئِكَ الْاٰمِنُوْنَ مِنْ عَذَابِ اللهِ .

(رواه الطبراني في المعجم الكبير، ۲/۳۵۸، الرقم:۱۳۳۴)

”حضرت عبد اللہ بن عمر ﷟ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی مخلوق ہے جنہیں اس نے لوگوں کی حاجت روائی کے لئے پیدا فرمایا ہے، لوگ اپنی حاجات (کے سلسلہ )میں دوڑے دوڑے ان کے پاس آتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ رہیں گے ۔

اس حدیث پاک کو قضاعی نے مسند الشہاب میں ، منذری نے الترغیب والترہیب میں بھی روایت کیا ہے۔

رسولِ کرریم ﷺ فرماتے ہیں کہ کچھ حضرات مرجعِ خلائق ہوتے ہیں، جیسے مرشدانِ طریقت، علماے کرام، اہلِ خیر حضرات ،نیک مزاج سیاسی قائدین، ڈاکٹرس اور اطبا، عام طور پر لوگ اپنی ضرورتوں کے لیے ان سے رابطے کرتے ہیں اور یہ حضرات بے لوث ہو کر ضرورت مندوں کی ضرورت پوری فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں کو اپنے عذاب سے محفوظ رکھے گا اور ان شاء اللہ تعالیٰ شفیعِ محشر ﷺ کی شفاعتِ کبریٰ ان کا مقدر بنے گی۔

چوتھی حدیثِ مصطفےٰ ﷺ:

عَنِ ابۡنِ عُمَرَ وَأَبِيۡ هُرَيْرَةَ hقَالَا : قَالَ رَسُوۡلُ اللہِ ﷺ : مَنۡ مَشَیَ فِيۡ حَاجَۃِ أَخِیۡہِ الۡمُسۡلِمِ حَتّٰی یُتِمَّہَا  لَہٗ أَظَلَّہٗ  اللہُ  بِخَمۡسَۃِ اٰلَافٍ۔ وَفِيۡ رِوَایَۃَ: بِخَمۡسَۃٍ وَسَبۡعِیۡنَ اَلۡفَ مَلَکٍ یَدۡعُوۡنَ وَيُصَلُّوْنَ عَلَیۡہِ إِنۡ کَانَ صَبَاحًا حَتّٰی یُمۡسِیۡ وَاِنۡ کَانَ  مَسَاءً حَتّٰی یُصۡبِحَ وَلَا یَرۡفَعُ قَدَمَا اِلَّا کُتِبَتۡ لَہٗ بِہَا حَسَنَۃٌ  وَلَا يَضْعُ قَدَمَا اِلَّا حَطَّ اللہُ عَنۡہُ بِہَا خَطِیۡئَۃً

(أَخۡرَجَہٗ  البیہقی في شعب الإیمان ، ۶/۱۱۹، الرقم:۷۶۶۹)

حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت ابو ہریرہ ﷡دونوں روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا: جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کے کام کے سلسلہ میں چل پڑا یہاں تک کہ اسے پورا کر دے اللہ عز و جل اس پر پانچ ہزار، اور ایک روایت میں ہے کہ پچھتر ہزار فرشتوں کا سایہ فرما دیتا ہے وہ اس کے لئے اگر دن ہو تو رات ہونے تک اور رات ہو تو دن ہونے تک دعائیں کرتے رہتے ہیں اور اس پر رحمت بھیجتے رہتے ہیں اور اس کے اٹھنے والے ہر قدم کے بدلے اس کے لئے نیکی لکھ دی جاتی ہے اور اس کے (اپنے مسلمان بھائی کی مشکل کو حل کرنے کے لئے) اٹھانے والے ہر قدم کے بدلے اللہ تعالیٰ اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔

اس حدیث میں مصطفیٰ جانِ رحمت ﷺ فرماتے ہیں کہ ایک مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی مدد کے لیے جب نکلتا ہے (دو روایتیں ہیں ) کہ پانچ ہزار یا پچھتر ہزار فرشتوں کا سایہ فرما دیتا ہے، جو اس کے لیے دن ہو تو رات ہونے تک اور رات ہو تو دن ہونے تک دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ اس مسلمان کے لیے ہر قدم پر ایک نیکی عطا  فرماتا ہے اور ایک گناہ مٹاتا ہے۔

موجودہ حالات میں جو نیک مزاج ہیں یا اہلِ خیر دولت مند ہیں ، مسلسل متاثرین کی مدد کر رہے ہیں، انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی ۔  اسی طرح دیگر حضرات بھی۔

اب ایک نظر عیدِ قرباں پر:

عید الاضحیٰ مسلمانوں کا ایک بڑا تیوہار ہے ۔ اس کے مسائل سے عام طور سے آپ تمام حضرات واقف ہیں ، جنھیں دریافت کرنا ہو وہ علماے کرام اور اپنے ائمۂ عظام سے دریافت فرما لیں ۔ چند مسائل موجودہ رسالے میں بھی ہیں ۔ ایک سوال یہ ہے کہ اس کورونا وائرس کے دور میں قربانی کیسے کریں؟ طریقہ کار کیا ہوگا؟ اس سلسلے میں بہت سی آرا ذمہ داران نے بیان کی ہیں۔ مفتیانِ کرام جو حکم دیں اس کے مطابق قربانی کے وجوب کو ادا کریں۔ ضد اور ہٹ دھرمی کبھی کبھی وبال جان بن جاتی ہے، اس لیے ہمیں عذر شرعی کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔ حکومتی سطح پر جو قوانین پیش کیے جائیں ان پر شرعی روشنی میں عمل کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرنی چاہیے کہ ہماری قربانیوں کو عذر شرعی کی صورت میں قبول فرما لے ، وہ ارحم الراحمین ہے، اس کے محبوب ﷺ رحمۃ للعالمین ہیں۔ وہ ہمیں کبھی مایوس نہیں فرمائیں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

*****


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے