خطبات جمعہ، قربانی میں کی جانے والی غلطیاں اور ان کی اصلاح

 


قربانی میں کی جانے والی غلطیاں اور ان کی اصلاح

الحمد للّٰہ رب العالمین والصلٰوۃ والسلام علٰی اشرف الانبیاء و المرسلین۔

اما بعد
فاعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم  بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

فصل لربک وانحر

توتم اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو

ایک بار سب لوگ مل کر درود شریف پڑھ لیجیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عزیزان ملت اسلامیہ !   مخصوص دنوں میں مخصوص شرائط کے ساتھ اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنے کی خاطر حلال جانور ذبح کرنے کو قربانی کہتے ہیں۔

حضرت ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

مَن وَجَدَ سَعَۃً فلم یُضَحِّ فَلاَ یَقرَبَنَّ مُصَلاَّنَا

جس کے پاس قُربانی کرنے کی گُنجائش ہو اور وہ قُربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نا آئےحاکم، احمد(

حضرات !        عید الاضحی کے دن   اولاد آدم کا کوئی عمل اللہ تعالی کے نزدیک قربانی کرنے سے زیادہ پیارا نہیں۔  قربانی کے پیچھے  اخلاص و  ایثار،  روحانیت، اور تقوی و پرہیزگاری کا فلسفہ کار فرما ہے۔  اس لیے اللہ تعالی کے نزدیک اس قربانی کی کوئی اہمیت نہیں  جس کے پیچھے اخلاص و ایثار اور تقوی کے جذبات نہ ہوں کیوں کہ  اللہ تعالی کو قربانی کا گوشت اور خون ہر گز نہیں پہنچتا ۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

لَنۡ یَّنَالَ اللہَ لُحُوۡمُہَا وَلَا دِمَآؤُہَا وَلٰکِنۡ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنۡکُمْ

اللہ  کو ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں نہ ان کے خون ہاں تمہاری پرہیزگاری اس تک باریاب ہوتی ہے ۔

         اس لیے قربانی کا  مقصد صرف اور صرف اللہ تبارک و تعالی کی رضا اور خوشنودی کا حصول   ہو نا چاہیے۔

         عید الاضحی کے دن  صاحب استطاعت مسلمان اپنے رب کی رضا کی خاطر  مختلف جانوروں کی قربانیاں کرتے ہیں  لیکن بعض اوقات عمدا یا سہوا کچھ ایسی غلطیاں کر جاتے ہیں جن کی وجہ سے یا تو ہماری قربانی ہوتی ہی نہیں یا ہوتی بھی ہے تو ناقص ۔ ذیل میں  ہم قربانی میں عام طور پر کی جانے والی غلطیوں کا جائزہ لیتے ہیں ۔

جانور کی خریداری میں لاپرواہی

حضرات محترم !            اکثر ایسا  ہوتا ہے کہ لوگ ناقص یا عیب دار جانور خرید  کر لے آتے ہیں پھر خریدنے کے بعد امام صاحب یا مولانا صاحب سے مسئلہ پوچھنے آتے ہیں کہ جانور میں فلاں فلاں عیب ہے قربانی ہوگی یا نہیں؟ حالاں کہ ہم بارہا تقریروں میں سن چکے ہوتے ہیں کہ عیب دار جانور کی قربانی درست نہیں لیکن پھر بھی ہم جانور خریدتے وقت احتیاط نہیں برتتے ، اس لیے بہتر ہے کہ جانور خریدنے سے پہلے ہم اچھی طرح دیکھ لیں کہ جانور صحیح و سالم ہے یا نہیں؟  کیوں کہ اس سلسلے میں شریعت کا حکم ہے کہ قربانی کا جانور عیب سے خالی ہو اگر تھوڑا سا عیب ہے تو قربانی تو ہو جائے گی مگر مکروہ ہوگی اور اگر زیادہ عیب ہے تو قربانی ہوگی ہی نہیں۔ اس لیے  جانور کی خریداری کے وقت ہی احتیاط برتنا زیادہ بہتر ہے۔

کم عمر جانور کی خریداری

برادران اسلام !           شریعت نے قربانی کے جانور کی جو  عمر مقرر کی ہے اس عمر کا جانور ہونا لازم ہے چنانچہ  اونٹ پانچ سال، گائے دو سال اور بکری ایک سال سے کم عمر ہو تو قربانی جائز نہیں۔ بہت سے لوگ بازار سے ایسے  بکرے  خرید لیتے ہیں  جن میں  ایک سال ہونے کی علامت ) دانت کا نکلنا ( نہیں پائی جاتی  اور محض مالک یا بائع کے کہہ دینے پر یقین کرلیتے ہیں کہ جانور ایک سال کا ہے۔ حالاں کہ مسئلہ یہ ہے کہ اگر جانور دوسرے کے دروازے کا ہے  تو جانور کا دانت ہونا جس کو ہماری زبان میں دَتَنا کہتے ہیں ضروری ہے۔  کیوں کہ جانوروں میں عام طور پہ بکری  یا بکرا کو ایک  ایک سال ، گائے  یا بیل کو  دو سال اور اونٹ  کو پانچ سال ہونے کے بعد ہی  سامنے کا دو دانت  نکلتا ہے جو  عمر کی پختگی کی علامت ہے۔  اس لیے اگر اپنے دروازے کا جانور ہے تو محض کامل عمر کافی ہے اور اگر دوسرے کے دروازے کا ہے تو دانت ضرور دیکھ لیں ورنہ قربانی جائز نہیں ہوگی۔

پرورش میں کوتاہی

سامعین ذی وقار !        عام طور پر  دیہاتوں میں ایسا ہوتا ہے کہ لوگ قربانی کے جانور کو باندھ کر نہیں رکھتے جس سے دوسروں کا کافی نقصان ہوتا ہے جس کی وجہ سے  کبھی کبھی لڑائی جھگڑے کی نوبت بھی آجاتی ہے اور سمجھانے پر کہتے ہیں کہ قربانی کا جانور باندھا نہیں جاتا ، یہ سراسر ہماری بھول ہے کیوں کہ قربانی ہمارے ذمہ واجب ہے اور اس واجب کی ادا کی خاطر اگر ہم جانور پالتے ہیں تو اس کی پرورش اور چارہ پانی بھی ہمارے ہی ذمہ لازم ہے۔ خیال رہے کہ قربانی محض اللہ تعالی کی رضا اور اس کی خوشنودی کے لیے دی جاتی ہے اس لیے جانور کو حلال چارہ ہی کھلا کر پالیں  اور کسی کا نقصان نہ ہونے دیں تاکہ ہم  کامل  ثواب  کے مستحق ہو سکے۔

ایک قربانی کئی مالک نصاب کے لیے کافی سمجھنا

برادران ملت اسلامیہ !             بعض دفعہ  ایک گھر میں کئی مالک نصاب ہوتے ہیں لیکن کچھ لوگ  صرف گارجین کی طرف سے ایک قربانی دے کر سبھوں کے لیے کافی سمجھتے ہیں۔عموما  لوگ ایسا مسائل قربانی سے عدم واقفیت کی بنا پر کرتے ہیں اور انجانے میں ترک واجب کے گناہ میں مبتلا رہتے ہیں  ۔ واضح ہو کہ قربانی ہر تونگر )مالک نصاب( آزاد مقیم مسلمان پر شرعا واجب ہے۔  اب اگر ایک گھر میں کئی لوگ  مالک نصاب ہوں  تو ہر ایک کے ذمہ  قربانی واجب ہے ، صرف گارجین کی یا کسی ایک کی قربانی دوسروں کے لیے کافی نہیں۔  ہاں البتہ کفیل کی قربانی کفالت میں رہنے والے کے لیے کافی ہے۔

ذبح میں غلطی

محترم سامعین کرام!       اکثر بڑے جانور ذبح کرتے وقت ایسا ہوتا ہے کہ بسم اللہ  پڑھ کر مولانا صاحب تھوڑا سا کاٹ کر چھری کسی کو دے دیتے ہیں جو ذبح مکمل کرتے ہیں ایسے میں جن کو چھری دی جاتی ہے وہ بغیر بسم اللہ  پڑھے  چھری چلانے لگتے ہیں  اگر دوسرے نے قصدا   بسم اللہ چھوڑا یا یہ خیال کرکے چھوڑا کہ مولانا صاحب کا بسم اللہ کافی ہے تو ایسی صورت میں جانور حلال نہ ہوگا بلکہ دونوں کے لیے بسم اللہ پڑھنا واجب ہے۔  اس لیے جانور  ذبح  کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے کہ  جتنے لوگ چھری پکڑے سبھوں کے لیے بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے۔  

قربانی میں حصہ داری

معزز حضرات ! قربانی کے بڑے جانور جیسے گائے، بیل ، بھینس ، اونٹ میں سات حصے ہوتے ہیں یعنی سات لوگوں کے نام سے قربانی ہوتی ہے اس سے زیادہ کرنا جائز نہیں ۔  ساتھ ہی ساتوں کی نیت قربانی یا تقرب الی اللہ جیسے عقیقہ وغیرہ کی ہو محض گوشت کھانے کی نہ ہو ورنہ کسی کی بھی قربانی نہیں ہوگی۔ اسی طرح ضروری ہے کہ تمام شرکاء صحیح العقیدہ  ہوں اگر کوئی بد عقیدہ شریک ہوا تو بھی کسی کی قربانی نہیں ہوگی۔  کبھی عدم توجہی اور کبھی عدم واقفیت کی بنا پر بارہا اس طرح کی غلطیاں سرزد ہوتی رہتی ہیں اس لیے ان باتوں کا خاص خیال رکھیں۔

اجرت میں گوشت دینا

حضرات ذی وقار !       بہت سے لوگ قربانی کرنے والے کو یا گوشت بنانے والے کو اجرت میں سر ،پیر یا گوشت دیتے ہیں جبکہ یہ جائز نہیں، فقہا نے قربانی کی اجرت میں گوشت دینے سے منع فرمایا ہے  اس لیے ہمیں چاہیے کہ اجرت میں گوشت نہ دے کر اس کی جگہ روپیے پیسے دیں تاکہ اس جائز کام میں کسی طرح کے ناجائز کی آمیزش نہ ہو۔

تقسیم گوشت

معزز سامعین!           بہتر ہے کہ قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کریں، ایک حصہ غریب ،فقیر اور محتاجوں کو دیں، ایک حصہ رشتہ داروں میں تقسیم کریں اور ایک حصہ خود رکھیں ۔  لیکن اب عام طور پر یہ دیکھا جا رہا ہے کہ جن کے پاس قربانی نہیں ہوتی  گوشت دینے میں لوگ ان کا خاص خیال نہیں رکھتے  اور جن کے پاس پہلے سے قربانی ہوتی ہے لوگ انھیں خصوصی طور پر گوشت دیتے ہیں اس امید پر کہ وہ بھی انھیں گوشت لوٹائیں گے۔  گویا یہ  ایک طرح سے گوشت کی لین دین ہے کوئی کار ثواب کی نیت نہیں جبکہ یہ بالکل غیر مناسب ہے۔ اس لیے گوشت تقسیم کرنے میں ان لوگوں کا خاص خیال رکھیں جو اپنی غربت کی وجہ سے قربانی کے اہل نہیں ، کیوں کہ آپ کی قربانی میں ایسے لوگوں کا بھی حصہ  مخصوص کیا گیا ہے۔  ذرا سوچ کر دیکھیے   عید کے دن آپ کے گھر  کے بچے گوشت کھارہے ہیں اور آپ کے پڑوسی  اور ان کے بچے اس انتظار میں بیٹھے  ہیں کہ مدرسہ یا انجمن سے یا کسی صاحب قربانی کے گھر سے گوشت آئے تو کھائیں اور مدرسہ یا انجمن سے گوشت آتے آتے کھانے کا وقت ہی نکل جاتا ہے۔ اس لیے اس سلسلہ میں خاص گزارش ہے کہ آپ اپنے پڑوسیوں کا خاص خیال رکھیں اور جلد ان کے گھر بھی گوشت بھیجنے کی کوشش کریں تاکہ ان کی عید بھی عید ہو ۔

 

عبد الرحیم ثمر مصباحی

 

 


ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

Emoji
(y)
:)
:(
hihi
:-)
:D
=D
:-d
;(
;-(
@-)
:P
:o
:>)
(o)
:p
(p)
:-s
(m)
8-)
:-t
:-b
b-(
:-#
=p~
x-)
(k)