زانی جب زنا کرتا ہے چور جب چوری کرتا ہے شرابی جب شراب پیتا ہے اس وقت مومن نہیں رہتا تو کیا اسے کافر کہہ سکتے ہیں؟




سوال : کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ذیل میں کہ حدیث پاک میں ہے زانی جب زنا کرتا ہے چور جب چوری کرتا ہے شرابی جب شراب پیتا ہے اس وقت مومن نہیں رہتا تو کیا اسے کافر کہہ سکتے ہیں؟
کلام حسین، سانتا کروز، ممبئی

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ:
صحیح حدیث سے یہ ثابت ہے کہ جب کوئی بندہ زنا یا چوری کرتا ہے یا شراب پیتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا، مگر اس حدیث کی بنیاد پر کسی زانی یا چور یا شرابی کو کافر نہیں کہا جا سکتا ہے؛ اس لیے کہ گناہ کبیرہ کے مرتکب کافر نہیں ہوتا اور ایسی احادیث جن میں گناہ کبیرہ کی وجہ سے ایمان کی نفی وارد ہے، ان میں کمال ایمان یا نور ایمان کی نفی مراد ہوتی ہے۔ حدیث پاک میں ہے: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا زَنَى الرَّجُلُ خَرَجَ مِنْهُ الْإِيمَانُ كَانَ عَلَيْهِ كَالظُّلَّةِ، فَإِذَا انْقَطَعَ رَجَعَ إِلَيْهِ الْإِيمَانُ. ( سنن ابو داؤد، كتاب السنة، باب الدليل على زيادة الإيمان ونقصانه، ح:4690)
یعنی جب آدمی زنا کرتا ہے تو ایمان اس سے نکل کر اس پر سایہ کی مانند رہتا ہے۔ اور جب وہ اس فعل سے دور ہوتا ہے تو ایمان واپس آ جاتا ہے۔
صحیح بخاری میں ہے: وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «يُنْزَعُ مِنْهُ نُورُ الإِيمَانِ فِي الزِّنَا.
یعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا: زانی سے زنا کے وقت نور ایمان نکل جاتا ہے۔
شارحین حدیث نے بھی ایسا ہی فرمایا ہے، عمدۃ القاری میں ہے: قَوْله: (وَ هُوَ مُؤمن) ، جملَة إسمية وَقعت حَالا، قيل: مَعْنَاهُ وَالْحَال أَنه مُسْتَكْمل شرائع الْإِيمَان. وَقيل: يَزُول مِنْهُ الثَّنَاء بِالْإِيمَان لَا نفس الْإِيمَان، وَقيل: يَزُول إيمَانه إِذا اسْتمرّ على ذَلِك الْفِعْل، وَقيل: إِذا فعله مستحلاً يَزُول عَنهُ الْإِيمَان فيكفر، وَقَالَ ابْن التِّين: قَالَ البُخَارِيّ: ينْزع مِنْهُ نور الْإِيمَان. ( عمدۃ القاری، ج: 13، ص: 26)
یعنی اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ کامل ایمان والا زنا نہیں کرتا۔ ایک معنی یہ ہے کہ زنا کرنے والے سے ایمان کی خوبی زائل ہو جاتی ہے، نفس ایمان زائل۔نہیں ہوتا۔ ایک معنی یہ ہے کہ جب تک وہ اس فعل میں ملوث ہوتا ہے، اس کا ایمان زائل رہتا ہے۔ ایک معنی یہ ہے کہ جب حلال جانتے ہوئے یہ فعل کرتا ہے تو اس سے ایمان ختم ہوجاتا ہے اور وہ کافر ہو جاتا ہے۔ اور ابن تین نے فرمایا کہ امام بخاری نے فرمایا: اس سے نور ایمان نکل جاتا ہے۔
مرآۃ المناجیح میں ہے: ان تمام مقامات میں یا تو کمال ایمان مراد ہے یا نور ایمان، یعنی ان گناہوں کے وقت مجرم سے نور ایمان نکل جاتا ہے ورنہ یہ گناہ کفر نہیں نہ ان کا مرتکب مرتد، اگر اسی حالت میں مارا جائے تو وہ کافر نہ مرے گا۔ ( مرآۃ المناجیح، ج: 1، ص: 51)
حاصل یہ کہ استفتا میں درج حدیث کی بنیاد پر کسی زانی، چور یا شرابی کو کافر نہیں کہا جا سکتا جب کہ مرتکب ان افعال کو حلال نہ سمجھتا ہو یا حرمت شرعی کی توہین کی نیت نہ ہو۔ اور اگر حلال سمجھتا ہو یا حرمت شرعی کی توہین کی نیت ہو تو معاذ اللہ وہ کافر ہو جائے گا لیکن کسی مسلمان سے ایسی نیت بعید تر ہے۔ واللہ تعالی اعلم

کتبہ
محمد اظہارالنبی حسینی
رکن شرعی بورڈ آف نیپال
و مدرس دارا لعلوم قادریہ مصباح المسلمین، علی پٹی شریف
10/ شعبان المعظم 1442ھ مطابق 25/ مارچ 2021ء

الجواب صحیح
  • محمد محبوب رضا مصباحی
  • محمد محمود اختر مصباحی شہر مفتی راے بریلی

منجانب : شرعی بورڈ آف نیپال

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

  1. ماشاء اللہ ۔سبحان اللہ ۔۔۔اس ناچیزکو یہ سلسلہ وار کالم بہت پسند ہے ۔۔ جزاک اللہ احسن الجزاء فی الدنیاوالاخرۃ

    جواب دیںحذف کریں
Emoji
(y)
:)
:(
hihi
:-)
:D
=D
:-d
;(
;-(
@-)
:P
:o
:>)
(o)
:p
(p)
:-s
(m)
8-)
:-t
:-b
b-(
:-#
=p~
x-)
(k)