حجاب کا استحصال: مذہبی آزادی کا خون



حجاب کا استحصال: مذہبی آزادی کا خون
محمد مبشر حسن مصباحی
جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی
ہندوستان میں بی جے پی، سنگھیوں کے ذریعہ مسلمانوں کو ٹارگٹ کرکے ڈرانے دھمکانے، شخصی، مذہبی آزادی تار تار اور قومی اتحاد ریزہ ریزہ کرنے کا معاملہ ہمیشہ سخت کربناک، جمہوریت کی پامالی اور ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی ہے. دوسری جانب عالمی مسلمانوں کے دینی جذبات زخمی کرنا، انٹر نیشنل پیمانے پر ملک کی بے عزتی اور تھو تھو کا سلسلہ بھی بے حد المناک ہے.
مسلمانوں پر ظلم وتشدد کے افسوسناک مناظر سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں کا ہندتوا مسلم نسل کشی کے نظریات میں مکمل اسرائیل کے نقش قدم پر ہے.
یہاں کبھی گاؤ رکشش کے ذریعہ مسلمانوں کا ماب لینچنگ کیا جاتا یے ، کبھی مصطفیٰ باد دھلی میں سنگھیوں کے ذریعہ مسلمانوں پر ظلم وتشدد اور قتل کے واردات کیے جاتے ہیں. کبھی ترپل طلاق کا بل لاکر مذہبی آزادی کا خون کیا جاتا ہے، کہیں مسلمانوں کو گھر سے بے دخل کیا جاتا ہے. کبھی کیب، این آر سی کا جبری بل لاکر نہ ماننے والوں پر گولی بارود داغی جاتی ہے ، کبھی جامعہ لائبریری میں گھس کر طالب علموں کی آنکھیں پھوڑی جاتی ہیں، کبھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ طالبات پر تشدد کیا جاتا ہے، ہر وقت انصاف کا ساتھ دینے والے اور انقلابی نعرہ لگانے والے جے این یو کے طلباء طالبات کی آوازیں بند کرنے کی ناکام کوششیں کی جاتی ہیں. کبھی تریپورا میں مساجد نذر آتش کی جاتی ہیں، کبھی کرونا وائرس پھیلانے کا مسلمانوں پر الزام لگتا ہے، تبلیغی جماعتیوں کو زنداں بھیجا جاتا ، کہیں طاقتور سیاسی لیڈران کو سلاخوں کے پیچھے ڈالا جاتا ہے، کبھی سب سے بڑے مسلم قائد اعظم اسد الدین اویسی پر قاتلانہ حملہ کیا جاتا یے، ان پر گولیوں کی بوچھار کی جاتی ہیں.. کبھی مسلم لڑکیوں پر حجاب پہننے کی پابندی لگائی جاتی ہے. کہ مسلمانوں کا حوصلہ کسی طرح طرح پارہ پارہ ہوجائے. لیکن
اسلام تیری نبض نہ ڈوبے گی حشر تک
تیری رگوں میں خو ں ہے رواں چار یار کا
ابھی کرناٹک کے اوڑپی ضلع کے کالجیز میں سنگھیوں کے ذریعہ حجاب پہننے پر واویلا مچایا گیا ، وہاں پر مجاہد مسلم طالبات نے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا یے، کیمرہ کے سامنے بے باک پیاری مسکان بہن نے اکیلی ہزاروں بھیڑیوں کے سامنے ڈٹ گئ اور اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے ایسا للکارا جس کی آواز پوری دُنیا میں گونج گئ، مسلمانوں کا سر بلند ہوا اور انسانیت کا سینہ فخر سے چوڑا ہوگیا.
کہرام مچا ڈالا اسلام کی بیٹی نے
دشمن کوڈرا ڈالا اسلام کی بیٹی نے

اغیارِ زمانہ کی لمحے میں تنِ تنہا
بنیاد ہِلاڈالا اسلام کی بیٹی نے

اسلام امن وشانتی کا مذہب ہے کبھی نہیں سنا گیا کہ اسلامی حکومت یا غیر اسلامی حکومت میں مسلمانوں کی طرف سے کسی قوم کی شخصی یا مذہبی آزادی کے خلاف ہتک آمیز بات بھی کی جاتی ہو، ان کے قومی شعار پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہوں. لیکن نہ جانے مسلمانوں کے کھانے پینے، لباس پہننے اوڑھنے سے کسی کے پیٹ میں درد کیوں ہوتا ہے؟
ہر قوم میں خاص قسم کا شعار ہے، مسلمانوں میں حجاب ہے، عیسائیوں میں برقعہ کے مانند قومی لباس یے ، ہندوؤں میں گھونگھٹ کا رواج ہے.
لیکن مسلمانوں کو ہی جان بوجھ کر ٹارگٹ کرنا ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہے. در اصل مستشرقین کی طرح سنگھیوں کو بھی تسلیم ہے کہ اسلام دنیا کا سب سے روحانی طاقت ور مذہب یے اس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا ہے. واحد حل اسلامی تعلیمات میں خرد برد کرنے سے ہی ممکن ہے. حجاب مسلم خواتین کے بنیادی حقوق اور اسلامی شعار ہے. اس پر حملہ کرنا گویا قرآن وأحاديث پر حملہ کرنا ہے.
آیے سرسری طور پر ملاحظہ کرلیں کہ قرآن مجید میں حجاب کے بارے میں کیسی تاکید ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا (الاحزاب،33 : 59)
’’اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دیں کہ (باہر نکلتے وقت) اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں، یہ اس بات کے قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں (کہ یہ پاک دامن آزاد عورتیں ہیں) پھر انہیں (آوارہ باندیاں سمجھ کر غلطی سے) ایذاء نہ دی جائے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم فرمانے والا ہے‘‘ (ترجمہ عرفان القرآن)
ابن سیرین طبری رحمۃاللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عبیدہ سلمانی سے اس کی تفسیر کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے چادر سے پورا سر پیشانی اور منہ ڈھانپ کر آنکھوں کو کھلا رکھا۔(تفسیر طبری)
امام عبدالرزاق رحمۃاللہ علیہ، حضرت ام سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ اس آیت کے نزول کے بعد انصار کی خواتین اس وقار سے اپنے گھروں سے نکلتی تھیں کہ گویا ان کے سروں پر پرندے ہیں اور اپنے آپ کو چھپانے کے لئے بڑی بڑی سیاہ چادریں اوڑھ لیا کرتی تھیں جن سے نہ صرف لباس بلکہ ان کے چہرے بھی چھپ جایا کرتے تھے۔
ہر دور میں حجاب کی ضرورت واہمیت واضح رہی ہے جب عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حجاب کی ضرورت پڑی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ کچھ اوباش لڑکے خواتین کو گزرتے ہوئے تنگ کیا کرتے تھے، مدینہ منورہ کے صحابہ کرام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا : ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !ہماری ازواج کو مدینہ منورہ کے اوباش لڑکے پریشان کرتے ہیں اور وہ یہودی لڑکے یہ کہتے ہیں کہ ہمیں پہچان نہیں ہوتی کہ یہ یہودی خواتین ہیں یا مومنات ! تو یا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ فرق اس طرح واضح فرما دیجئے کہ مومنات کی انفرادیت واضح ہو جائے اور وہ محفوظ ہو جائیں‘‘۔ جس پر درج ذیل آیات نازل ہوئیں۔ پھر اس کے بعد ان آیات پر سختی سے عمل اس طرح کیا گیا کہ تمام مسلم خواتین جب بھی گھروں سے باہر نکلتی تھیں تو وہ اپنے آپ کو مکمل طور پر ڈھانپے ہوئے ہوتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ النور میں حکم فرمایا :
وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُوْلِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ. (النور،24 : 31)
’’اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دوپٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر (بھی) ڈالے رہا کریں اور وہ اپنے بناؤ سنگھار کو (کسی پر) ظاہر نہ کیا کریں سوائے اپنے شوہروں کے یا اپنے باپ دادا یا اپنے شوہروں کے باپ دادا کے یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں کے یا اپنی (ہم مذہب، مسلمان) عورتوں یا اپنی مملوکہ باندیوں کے یا مردوں میں سے وہ خدمت گار جو خواہش و شہوت سے خالی ہوں یا وہ بچے جو (کم سِنی کے باعث ابھی) عورتوں کی پردہ والی چیزوں سے آگاہ نہیں ہوئے (یہ بھی مستثنٰی ہیں) اور نہ (چلتے ہوئے) اپنے پاؤں (زمین پر اس طرح) مارا کریں کہ (پیروں کی جھنکار سے) ان کا وہ سنگھار معلوم ہو جائے جسے وہ (حکمِ شریعت سے) پوشیدہ کئے ہوئے ہیں، اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو اے مومنو! تاکہ تم (ان احکام پر عمل پیرا ہو کر) فلاح پا جاؤ‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)
اسی طرح حجاب کی اہمیت اور اس کی فضیلت اور حکمت کا اندازہ اس آیت پاک سے بھی ہوتا ہے کہ اللہ نے فرمایا!
وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ. (الاحزاب : 33،53)
’’اور جب تم ان (ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن) سے کوئی سامان مانگو تو اُن سے پس پردہ پوچھا کرو، یہ (ادب) تمہارے دلوں کے لئے اور ان کے دلوں کے لئے بڑی طہارت کا سبب ہے‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)
ان آیات مقدسہ سے واضح ہوا کہ حجاب پر پابندی لگانا در حقیقت آرس ایس ایس کا ان قرآنی تعلیمات پر پابندی لگانا ہے، مسلمانوں کو قرآن سے دور کرنے کی ہندتوا سازشی تدبیر ہیں. سوچ رہا یے جب مسلمان عورت پے پردہ ہونگی، عریانیت عام ہوگی، اسلامی طاقت پامال ہوگی، بے راہ روی کا شکار ہوگی، ایمانی محبت کمزور ہوگی، دینداری ختم ہوگی، دین بے زاری ہوگی، اغیار سے بھی شادی کرنے پر راضی ہوگی، پھر آرس ایس ایس کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا.
مگر دنیا نے ابھی غیرت اسلامی کا لبادہ اوڑھنے والی خواتین کے دینی حوصلوں کا ادنیٰ جھلک دیکھا ہے، ماضی قریب میں چاہے جامعہ کی دلیر طالبات ہوں یا کرناٹک کی مجاہدہ طالبات، دین وشعائر اسلام کے خاطر اپنی قربانیاں دینے والیوں کی تعداد کروڑوں ہیں.
اللہ سے دعا ہے کہ ہم سب کو اسلام کا متبع بنائے، شعار پہچاننے کی توفیق بخشے، اور ساری بنت حوا کو باطل سے لڑنے کا بلند حوصلہ عطاء فرمائے.
آمین بجاہ سید المرسلین صلی علیہ وسلم.

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

Emoji
(y)
:)
:(
hihi
:-)
:D
=D
:-d
;(
;-(
@-)
:P
:o
:>)
(o)
:p
(p)
:-s
(m)
8-)
:-t
:-b
b-(
:-#
=p~
x-)
(k)