سیاہ خضاب لگانے والے کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟

سیاہ خضاب لگانے والے کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟

سیاہ خضاب لگانے والے کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟

سیاہ خضاب لگانے والے کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟


السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اگر کوئی امام صاحب سیاہ خضاب لگاتے ہیں تو ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
محمد اشتیاق، گجرات
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ:
سیاہ خضاب لگانا یا بالوں کو سیاہ نما کر لینا حالت جہاد کے سوا ناجائز و حرام اور لگانے والا فاسق معلن مرتکب گناہ کبیرہ ہے۔ سیاہ خضاب کی حرمت پر احادیث صحیحہ و معتبرہ موجود ہیں۔ صحیح مسلم میں ہے:
وَحَدَّثَنِى أَبُو الطَّاهِرِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ أَبِى الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ أُتِىَ بِأَبِى قُحَافَةَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ وَرَأْسُهُ وَلِحْيَتُهُ كَالثَّغَامَةِ بَيَاضًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « غَيِّرُوا هَذَا بِشَىْءٍ وَاجْتَنِبُوا السَّوَادَ ». ( صحيح مسلم، باب فِى صِبْغِ الشَّعْرِ وَتَغْيِيرِ الشَّيْبِ، ح: 5631)
سنن نسائی میں ہے:
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْحَلَبِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ وَهُوَ ابْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَفَعَهُ أَنَّهُ قَالَ: «قَوْمٌ يَخْضِبُونَ بِهَذَا السَّوَادِ آخِرَ الزَّمَانِ كَحَوَاصِلِ الْحَمَامِ، لَا يَرِيحُونَ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ» ( سنن النسائي، باب النھي عن الخضاب بالسواد، ح: 5057)
مستدرک میں ہے:
الصُّفْرَةُ خِضَابُ الْمُؤْمِنِ، وَالْحُمْرَةُ خِضَابُ الْمُسْلِمِ، وَالسَّوَادُ خِضَابُ الْكَافِرِ. ( مستدرك، ذكر عبد الله بن عمرو بن العاص، ح: 6239)
فتاوی رضویہ میں ہے:
سیاہ خضاب ... خواہ کسی چیز کا سوا مجاہدین کے سب کو مطلقا حرام ہے۔ اور صرف مہندی کا سرخ خضاب یا اس میں نیل کی کچھ پتیاں اتنی ملا کر جس سے سرخی میں پختگی آجائے اور رنگ سیاہ نہ ہونے پائے سنت مستحبہ ہے۔ (فتاوی رضویہ، ج: 23، ص: 481)
درج بالا احادیث اور عبارت سے ظاہر ہے کہ سیاہ خضاب حرام اور سرخ خضاب وغیرہ سنت مستحبہ ہے۔
بعض صحابہ و تابعین کا سیاہ خضاب لگانے کے حوالے سے آثار منقول ہیں مگر چوں کہ وہ احادیث سے مقابل و معارض ہیں؛ اس لیے وہ قابل التفات نہ ہوں گی نیز ان آثار میں حالت جہاد میں لگانے کا بھی احتمال ہے۔ إذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال۔ نیز یہ آثار اس امر سے عدول پرباعث نہیں ہو سکتے جو ہمارے ائمہ کرام کے نزدیک سنت ثابت ہو اور حقیقت امر یہ کہ ہم پر اتباع مذہب لازم ہے۔ دلائل میں نظر ائمہ مجتہدین فرما چکے ہیں۔ لہذا جب یہ ثابت ہے کہ سیاہ خضاب لگانا حرام ہے اور حرام کا مرتکب فاسق ہے تو جو امام سیاہ خضاب لگائے، وہ فاسق معلن ہے، اسے امام بنانا گناہ، اس کی اقتدا میں نماز پڑھنا مکروہ تحریمی اور اس کی اقتدا میں پڑھی گئی نمازیں واجب الاعادہ ہوں گی۔
غنیہ میں ہے:
لو قدموا فاسقا یاثمون بناء علی ان کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم لعدم اعتنائہ باموردینہ وتساھلہ فی الاتیان بلوازمہ فلا یبعد منہ الاخلال ببعض شروط الصلٰوۃ وفعل ما ینافیھا بل ھوالغالب بالنظر الی فسقہ.
یعنی اگر لوگوں نے فاسق کو امام بنا دیا تو اس بنا پر لوگ گناہ گار ہوں گے کہ ایسے شخص کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے کیوں کہ فاسق امور دینیہ میں لاپروائی برتتا ہے اور دین کے لوازمات کو بجا لانے میں سستی کرتاہے۔ پس ایسے شخص سے یہ بعید نہیں کہ وہ نماز کے بعض شرائط چھوڑ دے اور نماز کے منافی عمل کو بجالائے، بلکہ ا یسا کرنا اس کے فسق کے پیشِ نظر اغلب ہے۔ ( غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی، فصل فی الامامۃ الخ، ص: 413- 514)
در مختار میں ہے:
كُلُّ صَلَاةٍ أُدِّيَتْ مَعَ كَرَاهَةِ التَّحْرِيمِ تَجِبُ إعَادَتُهَا. (در مختار مع رد المحتار، ج: 1، ص: 457)
حاصل یہ کہ سیاہ خضاب لگانا یا بالوں کو سیاہ نما کر لینا حرام اور ایسا کرنے والا فاسق معلن ہے۔ ایسے شخص کو امام بنانا گناہ، اس کی اقتدا میں نماز پڑھنا مکروہ تحریمی اور پڑھی گئی نمازیں واجب الاعادہ ہوں گی۔ واللہ تعالی اعلم
کتبہ
محمد اظہارالنبی حسینی
6/شعبان المعظم 1442ھ مطابق 21/ مارچ 2021ء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے