کمفرٹ زون، ایک خطرناک نشہ



کمفرٹ زون، ایک خطرناک نشہ

(قاسم علی شاہ)



مینڈک بڑے مزے سے تالاب میں زندگی گزاررہا تھا لیکن ایک دن اس کے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ اس کو بھوک لگی ہوئی تھی۔ کافی دیر سے کھانے کے لیے کچھ نہیں مل رہا تھا۔ خوراک کی تلاش میں وہ پانی سے نکل کر کنارے پر آیا تو وہاں ایک پتھر پر کھانے کی چیز پڑی ہوئی تھی۔ وہ بڑاخوش ہوا اورپتھر پر چڑھ کر جیسے ہی خوراک کے قریب ہوا تو ایک انسانی ہاتھ نے اس کو پکڑ کر تھیلے میں ڈال دیا۔ وہ چلایا، پھڑپھڑایا لیکن تھیلے سے باہر نہیں نکل سکا۔ آدمی نے گھر آکر ایک برتن میں پانی بھرا، اس کو چولہے پر رکھا اور مینڈک کو اس میں ڈال دیا۔ مینڈک نے صاف پانی دیکھا تو وہ اس کو اچھا لگنے لگا۔ وہ اس میں تیرنے لگا اور اس کو انجوائے کرنے لگا۔ کچھ ہی دیر میں اس کو محسوس ہوا کہ پانی کا نچلا حصہ آہستہ آہستہ گرم ہو رہا ہے، اس نے پروا نہ کی۔ کچھ دیر بعد سارا پانی گرم ہوگیا اور رفتہ رفتہ وہ شدت اختیار کرتا گیا لیکن اس نے اپنی قدری صلاحیت سے اپنے جسم کو ٹھنڈا کرنا شروع کیا، پانی گرم ہوتا گیا اور وہ اپنی جسمانی ٹھنڈک بڑھاتا گیا۔ دو منٹ کے بعد پانی ابلنا شروع ہوگیا۔ مینڈک نے اپنے جسم کو اس کے مطابق ٹھنڈاکرنے کی کوشش کی لیکن اس کے مسلز جواب دے گئے۔ اب اس نے اچھل کود شروع کردی اور پوری کوشش کرنے لگا کہ کسی طرح اس برتن سے باہرنکلے لیکن اس کی تمام جدوجہد بے کارثابت ہوئی۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ ہانپنے لگا۔ اس کے جسم میں توانائی ختم ہوچکی تھی اور کچھ ہی لمحوں میں کھولتے ہوئے پانی کی تاب نہ لاکر وہ مرگیا۔
ہم انسانوں کی مثال بھی مینڈک کی اس کہانی جیسی ہے۔ہم میں سے 98 فیصد لوگ ایسے ہیں جو اپنا وقت ایک خطرناک ترین جگہ پر گزارتے ہیں۔جی ہاں! خطرناک ترین جگہ ۔آپ کے ذہن میں ہوگا کہ میں تو ایسی کسی جگہ سے لاعلم ہوں لیکن نہیں! آپ نے بھی کہیں نہ کہیں اس جگہ وقت گزارا ہے۔یہ جگہ Comfort Zone(خطہ آرام) ہے جو انسان کی صلاحیتوںکا قتل اور اس کے ہنر کو زنگ آلود کرتا ہے۔
گھر میں صوفے پر نیم دراز ہوکر ٹی وی دیکھنا ،صبح کی سیر کے بجائے نرم بستر کے مزے لینا،ہر تیسرے دن مٹن کڑاہی،چکن بریانی،پیزا، کولڈ ڈرنک سے لطف اندوزہونا، محنت وکوشش کے بجائے کام سے جان چھڑانا ، ایک اچھی نوکری چاہنا، مناسب سی تنخواہ پر گزاراکرنااور یہ خواہش کرنا کہ زندگی بھر کوئی تکلیف ، کوئی مسئلہ کوئی آزمائش میرے سامنے نہ آئے۔مجھے کوئی تنگ نہ کرے ، کیوں کہ مسائل نمٹانے سے میری جان جاتی ہے۔ محنت کرنے سے میں تھک جاتاہوں۔سبزیاں اور سلاد کھانے سے میرا من نہیں بھرتا،ورزش میں پسینہ بہاناخود کو خواہ مخواہ میں تھکادینا ہے اور نوکری کے بجائے اپنی ذات کے لیے کام کرنا مجھے بہت بڑا رسک لگتا ہے۔یہ سب انسان کی دل کی آواز ہوسکتی ہے لیکن یہ اس قدر خطرناک جال ہے کہ ا س میں پھنسنے والا انسان اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں بہت پیچھے رہ جاتاہے۔
مینڈک والی مثال کاجائزہ لیجیے۔اگر مینڈک پتیلے کے صاف پانی کے مزے نہ لیتا اور پانی شدید گرم ہونے سے پہلے وہ چھلانگ مارلیتاتو اس کی جان بچ سکتی تھی لیکن وہ پڑارہا،اس نے ایک بہترین موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا، اس نے چیلنج کو عارضی سمجھ کر نظرانداز کیالیکن جب با ت اس کی برداشت سے باہر ہوگئی اور اس کے لیے پانی سے نکلنا بے حدضروری ہوگیا تب اس کے پاس اتنی توانائی ہی نہیں بچی تھی کہ وہ اپنی جان بچاپاتا۔
ہمارے ساتھ بھی یہی ہوتاہے۔ہم گزارے لائق زندگی کو قبول کرلیتے ہیں۔ہمارے پاس محنت کرنے ، اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے ، خودکو نکھارنے اور عام سے خاص بننے کاایک سنہری موقع موجود ہوتاہے لیکن ’’کمفرٹ زون‘‘ ہمیں اس قدر لطف و سرور کا عادی بنالیتا ہے کہ ہم اس کو چھوڑ ہی نہیں سکتے۔اس کے پہنائی ہوئی بیڑیوں کو ہم توڑ ہی نہیں سکتے۔ہماری سوچ ہوتی ہے کہ بس زندگی گزررہی ہے نا، تو گزرنے دو۔وقت آنے پر دیکھا جائے گا۔اس سوچ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتاہے کہ جب پانی ہمارے سر سے اوپر چلاجائے اور ہماری سانس بند ہونے لگے تو پھر ہمارے اندرتوانائی ہی نہیں بچی ہوتی۔ ہم صرف ہاتھ پیرہی مارسکتے ہیں ، پانی سے باہر نکلنے کی ہمت نہیں کرسکتے۔
’’کمفرٹ زون‘‘ جس قدرخوش نما نظر آتاہے اس سے کئی گنا زیادہ خطرناک ہے۔یہ ایک نشہ ہے جو غیر محسوس طریقے سے انسان کی رگوں میں اترتاہے اور اس کو اپناعادی بنالیتا ہے۔اس میں رہتے رہتے انسان کو احساس تک نہیں ہوتا کہ اس کے اندر جوقابلیتیں موجود ہیں وہ زنگ آلود ہونا شرو ع ہوگئی ہیں۔رفتہ رفتہ وہ اپنی صلاحیتوں سے محروم ہوناشروع ہوجاتاہے اور پھر ایک وقت آتاہے کہ وہ ایک نکما، تن آسان اور انتہائی سست انسان بن جاتاہے۔
قابلیت سے محروم ایسا انسان اپنی زندگی میں چیلنج نہیں لے سکتا۔معمولی سے حالات خراب ہونے پر بھی اس کے ہاتھ پائوں پھول جاتے ہیں۔اس کے اندر زندگی کے حقائق تسلیم کرنے اور ان سے لڑنے کی ہمت نہیں ہوتی ۔اس کی زندگی میں تبدیلی نہیں آتی۔ایساشخص اپنی زندگی بدلنا چاہ رہا ہوتاہے،وہ چاہتاہے کہ میں ایک نامور انسان بن جائوں لیکن یہ صرف خواہش ہوتی ہے اس کو عملی شکل دینے کے لیے وہ کچھ کرتانہیں ہے۔وہ رسک لینے کو تیار نہیں ہوتا۔وہ راستہ بدلنے ،ہجرت کرنے ، پسندیدہ نوکری چھوڑنے اورتبدیلی کی قیمت چکانے کوتیار نہیں ہوتا۔اس کی زندگی میں نئے لوگ نہیں آتے کیوں کہ رشتے بنانے اور نبھانے کے لیے تین چیزیں درکارہوتی ہیں۔توجہ ،ٹائم اور پیسا۔ہر رشتے کو توجہ دینی ہوتی ہے، اس کے لیے وقت نکالنا ہوتاہے۔شادی بیاہ اورغمی خوشی میں شرکت کرنی ہوتی ہے اور بوقت ضرورت پیسے بھی خرچ کرنے ہوتے ہیں لیکن ’’کمفرٹ زون‘‘ کا قیدی شخص یہ سب نہیں کرسکتا ،کیوں کہ وہ آرام دہ زندگی گزارنے کا عادی ہوچکا ہوتاہے۔
’’کمفرٹ زون‘‘میں رہنے کا دوسرا بڑا نقصان یہ ہوتاہے کہ یہ انسان کی پیشہ ورانہ زندگی کوکھوکھلاکرنا شروع کرتاہے، جس کی وجہ سے ایسا شخص اپنے میدان میں آگے نہیں بڑھ سکتا۔اس کی ساری زندگی نکل جاتی ہے لیکن وہ وہیں رہتاہے جہاں آج سے بیس سال پہلے تھا۔
’’کمفرٹ زون‘‘انسان کی صحت کو بھی متاثر کرتاہے۔ٹی وی کے سامنے صوفے پر بیٹھ کر اور ایک ہاتھ میں پاپ کارن کا پیکٹ لے کر گھنٹوں گزارنا ، واک نہ کرنا ، کھانااورسوجانا، تلی ہوئی چیزوں کے سہارے جینا اور اس جیسی بے شمار عادات کے نتیجے میں اس کی صحت جواب دے جاتی ہے۔وہ ہروقت کسی نہ کسی طبی مسئلے کا شکار ہوتاہے ۔یہ معاشرے کا اجتماعی رویہ ہے اور اسی کی بدولت ہر علاقے میں آپ کومیڈیکل اسٹورز پر رش نظر آئے گا۔
’’کمفرٹ زون‘‘انسان کی قابلیت کو بھی زنگ آلود کردیتا ہے۔وہ نئی چیزیں نہیں سیکھتا، اپنی شخصیت پر محنت نہیں کرتا، اپنی کمزوریوں کو دور نہیں کرتا۔نتیجتاً وہ ایک بے ثمر انسان بن کر رہ جاتاہے جو نہ اپنی زندگی کو بدلنے کی ہمت رکھتاہے اور نہ دوسروں کی۔
’’کمفرٹ زون‘‘انسان کے رشتوں کو بھی کمزور کردیتاہے۔وہ رشتے نبھانا تو چاہتاہے لیکن اپنے ’’کمفرٹ زون‘‘کی شرط پر ۔وہ اپنے وقت اور توجہ کی قربانی دینے کو تیار نہیں ہوتا اور رفتہ رفتہ اس کے دوست احباب اور رشتے دار اس سے دور چلے جاتے ہیں۔
’’کمفرٹ زون‘‘انسان کی Will Power(قوت ارادی) کو بھی کمزور کردیتاہے۔اس کے اندر کچھ نیا کرنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی۔حالانکہ انسان تووہ مخلوق ہے کہ اگر وہ اپنی سوچ بدل لے تو اس کی پوری زندگی بدل جاتی ہے۔وہ اپنی زندگی میں کوئی اچھا استاد، دوست یا کتاب شامل کرلے تو اس کی تقدیر بدل جاتی ہے لیکن یہاں ایسا نہیں ہوتاکیوں کہ ’’کمفرٹ زون‘‘نے اس کی ہمت کی عمارت کو شکستہ کردیا ہوتاہے۔
تو کیا آپ کے اندر ’’کمفرٹ زون‘‘سے نکلنے کی ہمت ہے؟اگر ہے تو اٹھیے اوراپنے زورِ بازو سے جیل کی یہ سلاخیںتوڑ کر خود کو آزاد کیجیے لیکن آپ اب بھی آزا د نہیں ہوں گے۔’’کمفرٹ زون‘‘سے نکل کر آپ ایک اور دائرے میں آجائیں گے جس کو Fear zone(خطہ خوف) کہاجاتاہے۔ یہاں آپ کو ہر وقت یہ فکر کھاتی رہے گی کہ میں کوئی نیا قدم تو اٹھالوں گا لیکن لوگ کیا کہیں گے؟آپ جب بھی خود کو بدلنے کی کوشش کریں گے تو اندر سے آواز آئے گی :’’ لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ یہ خوف آپ کے ذہن پر سوار ہوکر آپ کوکچھ نیا کرنے نہیں دے گا۔بار بار کی کوشش کے بعد آپ کو اپنے اوپر کچھ شک ہونے لگتاہے کہ شاید میرے اندر قابلیت کی کمی ہے اس وجہ سے میں کچھ نہیں کرسکتالیکن یہ ایک فریب ہوتاہے جس میں آپ کاخوف آپ کودھکیلنے کی کوشش کرتاہے۔یہاں رہ کر آپ کانفس بہانے ڈھونڈنے لگتاہے۔کسی بھی ناکامی پرآپ کے اندرسے فورا یہ بات آتی ہے کہ یہ تو فلاں شخص کی وجہ سے ایسا ہوگیاوگرنہ میں تو یوںکرنے والاتھا۔اس دائرے میں رہتے ہوئے آپ کے اندر قوت فیصلہ کی بھی کمی ہوتی ہے ۔آپ دوسروں کے فیصلوں کے محتاج ہوتے ہیں ،یعنی گاڑی تو آپ کی ہوتی ہے لیکن ڈرائیونگ سیٹ پر کوئی اور بیٹھا ہوتاہے۔
یہاں آپ کے اندر کوئی بولتاہے کہ بغاوت کرو، ان حالات کو قبول مت کرو،یہاں سے نکلو۔آپ اپنا پورا زورلگاکر ان سلاخوںکو بھی مروڑ دیتے ہیں۔آپ Fear zoneسے آزاد ہوجاتے ہیں۔اب ایک تیسرا دائرہ شروع ہوتا ہے جس کو Learning zoneکہتے ہیں۔اب آپ کے اندر ہمت آچکی ہوتی ہے۔آپ نئے چیلنجز لیتے ہیں۔آپ نئے تجربات بھی کرتے ہیں ، اس سوچ کے ساتھ کہ ان سے کچھ نہ کچھ سیکھ لیاجائے۔آپ ہر انسان اور ہر واقعے سے سیکھتے ہیں۔مختلف طرح کے حالات کا سامنا کرنے کی بدولت آ پ کے اندر Problem solving(مسائل حل کرنے کی صلاحیت) آجاتی ہے۔آپ کو جتنی بھی مشکلات کاسامنا ہو، جتنی بھی تنقید آپ کے اوپر آئے آپ ان سب چیزوں کو Part of the lifeسمجھتے ہیںاور ان کاحل نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہیں آپ اپنے اندر نئی اسکلزبھی پیدا کرتے ہیں۔آپ کے دل میں سوالات مچلتے ہیں ،جن کے جوابات آپ تلاش کرتے ہیں اور آپ کے سامنے نئے راستے کھلتے ہیں۔
سیکھنے کا یہ سفر آپ کو ایک بہترین شانداردائرے میں لے آتاہے جس کو Growth zone(خطہ نمو) کہتے ہیں۔نمو کا مطلب ہے قدم بہ قدم پروان چڑھنا۔ دنیا میں جتنی بھی ترقی ہوئی ہے اس خطہ کی وجہ سے ہوئی ہے۔یہاں آکر سب سے پہلی کامیابی آپ کویہ ملتی ہے کہ آپ کو زندگی کا مقصد مل جاتاہے۔آپ کے اندر خواب پلناشروع ہوجاتے ہیں۔یہ خواب آپ کوبے چین رکھتے ہیں۔آپ کو تڑپاتے ہیں ، آپ کروٹ پہ کروٹ بدلتے ہیں ، آپ راتوں کو اچانک اٹھ کر اپنے خوابوں کے بارے میں سوچتے ہیں۔آپ کی آنکھوں میں نیند نہیں ہوتی کیوں کہ وہاں خوابوں کابسیرا ہوتاہے۔یہ تڑپ ، یہ شوق آپ کو ’’جواز ہستی‘‘(مقصدحیات) کے انعام سے نوازدیتاہے۔
زندگی کا مقصد آپ کوآگے بڑھنے کی موٹیویشن دیتاہے۔یہ آپ کو ٹریک پر رکھتاہے۔کبھی آپ سمت کھوجائیں تو یہ آپ کو واپس ٹریک پر لاتاہے۔کبھی آپ کے پائوں ڈگمگاجائیں تو یہ آپ کودوبارہ سے ہمت دیتاہے۔آپ کی زندگی کامقصد جس قدر بڑا ہوگا اتنا ہی مرنے کا خوف بھی کم ہوگا۔کیوں کہ موت انسان کو آتی ہے ، مقصد کو نہیں۔بامقصدانسان اگر چلا بھی جائے تو اس کے مشن کو دوسرے لوگ آگے بڑھاتے ہیں۔اس کی مثال اولمپک مشعل کی طرح ہے جس کو ایک کے بعد ایک کھلاڑی تھامتا ہے اور مشعل اپنا سفر جاری رکھتی ہے۔
’’گروتھ زون‘‘ میں آپ اپنے لیے نئے اہداف طے کرتے ہیں۔ایک منزل مل جائے تو اس کے بعددوسری منزل ، دوسری کے بعد تیسری، چوتھی اور پانچویں منزل، پھر آپ منزل سے زیادہ راستے کو انجوائے کرتے ہیں۔اس خطے میں آپ فتوحات سے ہمکنار ہوتے ہیں۔آپ کے لیے تالیاں بجتی ہیں، نعرے لگتے ہیں ،آپ اپنی فتح کو سیلی بریٹ کرتے ہیں اور ہر فتح کے بعد ایک اور منزل کے لیے کمر بستہ ہوتے ہیں۔سچ پوچھیں تو اس راستے پر چلنے میں ایساسرور،ایسا سکون اوراطمینان ہے جو دنیا کی کسی بھی چیز میں نہیں۔
اٹھیے ، اپنا شمار دنیا کے دوفیصد ان خوش قسمت لوگوں میں کیجیے جو ’’کمفرٹ زون‘‘ کی سلاخوں کو توڑ ڈالتے ہیں ۔ اپنے آپ کو دھکیلے دھکیلتے ’’Growth zone‘‘میں لے آئیے کہ کامیابی کاراز بھی یہی ہے اور اگر ایسا نہیں تو پھر ایک داناآدمی کی یہ بات یاد رکھیے کہ ’’اگرتم وہی کررہے ہوجوہمیشہ سے کرتے آئے ہوتو تمھیں ملے گابھی وہی جو ہمیشہ سے ملتاآرہا ہے ‘‘اور مولانارومیؒ کے یہ الفاظ توانسان کوخواب غفلت سے جگانے کے لیے کافی ہیں:
’’خدا نے تمھیں اُڑنے کے لیے بنایا مگر تم رینگ رہے ہو!!‘‘

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے