عربی ادب کی وسعت اور معاصرانہ سمجھداری از محمد مبشر حسن مصباحی



عربی ادب کی وسعت اور معاصرانہ سمجھداری
محمد مبشر حسن


ہندو نیپال کے مدارس اسلامیہ میں متعدد فضلائے مدارس سے عربی زبان وادب کے حوالے سے گاہے بگاہے گفتگو کے بعد بہ نیت افادہ اور استفادہ یہ تحریر پیش قارئین ہے.
ادب اور ادیب کے بارے میں ہندو نیپال کے معاصرین فضلائے مدارس کی عام رائے یا عام سوچ یہ ہے کہ درس نظامی کے نصاب میں شامل عربی ادب کی کتابیں: فیض الأدب، معلم الانشاء، دیوان الحماسہ وغیرہ اور نحو وصرف کی کتابیں ادب سے متعلق ہیں اور ان کے پڑھانے والے شیخ الادب ہیں. اور پی ایچ ڈی کا طالب علم انہیں کے ارد گرد تحقیق کرتا ہے.

جبکہ اہل علم جانتے ہیں ادب کے مختلف معانی ہیں
" منها دعوة الناس إلى مأدبة (إلى طعام)، ومنها تهذيب النفس وتعليمها، ومنها الحديث في المجالس العامة، ومنها السلوك الحسن، ومنها الكلام الحكيم الذي ينطوي على حكمة أو موعظة حسنة أو قول صائب" لوگوں کو ضیافت: کھانے کی طرف بلانا، حسن سلوک، خود کو مہذب کرنا اور حصول تعلیم اور دانشمندانہ اور حکیمانہ گفتگو بھی شامل ہے جس میں حکمت اور حسن موعظت، صحیح قول بھی ہے. جہاں تک اصطلاح میں علم ادب کا تعلق ہے تو اس میں عربی کے زیادہ تر علوم شامل ہیں، جیسے گرامر: نحو وصرف، زبان، اور نثر: قرآن حدیث، تفسیر، قصہ، ناول مقالہ وغیرہ اور نظم: غزل وصف، مدح ، فخر، ہجو رثاء وغیرہ کی ساری اقسام، عربوں کی خبریں اور ان کے انساب ہیں .
ان علوم کے عالم کو ادیب کہاجاتا ہے ادیب اور عالم میں فرق یہ ہے کہ ادیب مصنف ہر چیز سے بہترین چیز لیتا ہے پھر تصنیف وتالیف کرتا ہے، جبکہ عالم وہ ہوتا ہے جو کسی علم کے فن کی تلاش کرے اور اس پر عبور حاصل کرے۔
یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹیز میں قائم عربی ڈپارٹمنٹ کے رسرچ اسکالرس کے دائرے وسیع ہیں ان علوم میں سے جس پر چاہیں وہ رسرچ کرسکتے ہیں شرط یہ ہے کہ اس عنوان پر کسی نے رسرچ نہیں کیا ہو. جیسا کہ ناچیز نے جے این یو میں ایک ہندوستانی محدث کے علم حدیث پر ایم فل کا مقالہ لکھا ہے اور پی ایچ ڈی فلسطینی ناولوں میں انسانی رجحانات پر رسرچ کیا ہے.

یونیورسٹی کی دنیا میں سنتا تھا کہ مدارس اور عصری جامعات کے فارغین کے درمیان فکری تصادم ہوتا ہے عملی زندگی مشاہدہ بھی ہوا، کچھ فاضلین مدارس نے کہا آپ علم حدیث پر کچھ نہیں لکھیں یہ آپ کا میدان نہیں ہے، کچھ فاضلین مدارس کے تاثرات موصول ہوئے آپ درسیات کے میدان میں نہیں آئیں آپ کو وہ شہرت وعزت نہیں ملے گی جو ملنی چاہیے چونکہ آپ کو درسیات میں تجربہ نہیں ہے.
یونیورسٹیوں میں عربی زبان وادب میں پی ایچ ڈی کرنے والے اکثر مدارس اسلامیہ کے فضلائے کرام ہوتے ہیں، انہیں نحو وصرف، بلاغت وغیرہ علوم پر اجراء کے ساتھ عربی زبان میں مہارت حاصل ہوتی ہے. وہ علوم اسلامیہ کی تعلیم وتعلم پر جس طرح قادر ہیں، اردو شروحات سے رٹ رٹ کر نحو وصرف، بلاغت، حدیث وتفسير کے درس دینے والے کبھی ہرگز نہیں ہوسکتے ہیں. یہ ایک تلخ حقیقت اور امر واقعی یے.
چونکہ عربی کے واقف اسرار جس طرح عربی متون کو سمجھنے پر قادر ہیں، اردو شروحات کی مدد سے عربی متون حل کرنے والے برابر نہیں ہوسکتے ہیں.
ہاں ہزار بار اعتراف ہے مدارس اسلامیہ میں ہمارے اساتذہ کی تعداد ایسی ہیں جنہیں علوم اسلامیہ پر مہارت کے ساتھ عربی زبان پر بھی عظیم قدرت حاصل ہے.
اور مدراس اسلامیہ یا عصری جامعات میں صرف عربی ادب پڑھانے والے اساتذہ اگر انہیں علم حدیث، علم تفسیر وغیرہ علوم اسلامیہ کی تدریسی ذمہ داریاں تفویض کی جائیں تو یقیناً وہ بحسن وخوبی افضل اعلیٰ طریقے سے انجام دے سکتے ہیں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے.
لیکن معاصر فضلائے مدارس کی فراست ہے کہ یونیورسٹیوں کے عربی ادب کے فارغين علوم اسلامیہ پڑھانے سے عاجز وقاصر ہیں.
ایسی پسماندہ تفکیر کو اعلیٰ بنانے کی ضرورت ہے.
حقیقت میں میں عربی زبان کی اہمیت وبرتری اس لیے ہے کہ یہ علوم اسلامیہ کی ماں ہے، سارے اہم اسلامی مصادر ومراجع عربی زبان میں ہیں ، قرآن واحادیث عربی زبان میں ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان عربی، دنیا کی سب سے قدیم ووسیع وعریض زبان عربی سیدنا دادا آدم علیہ السلام کی زبان عربی اہل قبور اور اہل جنت کی زبان عربی ہے.
دعا ہے اللہ اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے عربی پڑھنے اور پڑھانے والے تمام طلبہ وطالبات، اسکالرس اور اساتذہ پر عربی آسان تر کردے.
آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم


محمد مبشر حسن مصباحی
جامعہ صابریہ حنفیہ دانہ منڈی لدھیانہ پنجاب



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے