روزے کی حالت میں آنکھ میں دوا ڈالنا

 روزے کی حالت میں آنکھ میں دوا ڈالنا

آنکھ میں دوا ڈالنے سے روزہ ہوگا یا نہیں؟
آنکھ میں دوا ڈالنا کیسا ہے؟

             


                             #صادق_مصباحی

روزے کی حالت میں آنکھ میں دوا ڈالنے کے سلسلہ میں فقہاے کرام کی رائیں مختلف ہیں۔

احناف اور شوافع کے نزدیک آنکھ میں دوا ڈالنے، سرمہ لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، چاہے دوا اور سرمے کا اثر حلق میں محسوس ہو یا نہ ہو۔

البتہ مالکیہ اورحنابلہ کے نزدیک اگر دوا کا اثر حلق میں ظاہر ہوجائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔

واضح رہے کہ مسائل کی بنیاد شرعی اصول وقواعد پر ہوتی ہے، صرف نئی تحقیق پر نہیں 

روزے کے بارے میں قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ جماع اور اس کے ملحقات کے علاوہ صرف اس دوا اور غذا سے روزہ ٹوٹتا ہے جو مسامات اور رگوں کے علاوہ کسی منفذ سے دماغ یا پیٹ، ( یا حلق ) میں پہنچے در مختار کے قول : " وصول مافیہ صلاح بدنہ الی جوفہ ۔۔۔ کے تحت ، ردالمحتار میں ہے:

الذی ذکرہ المحققون ان معنی المفطر وصول مافیہ صلاح البدن الی الجوف اعم من کونہ غذاءً او دواء ( جلد 2 صفحہ 410 ) 


فقہاے احناف کو یہ بات بخوبی معلوم تھی کہ آنکھ میں دوا/ سرمہ ڈالنے سے اس کا اثر حلق میں محسوس ہوتا ہے۔ اس کے باوجود انھوں نے اسے مفسد صوم نہ مانا۔ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟!

 

 اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے اگر فقہ کی اصطلاح : منفذ اور مسامات کا فرق ملحوظ رکھا جائے تو بڑی آسانی ہوگی اور خلجان دور ہو جائے گا ۔ 

فقہاے احناف کے یہاں جو چیزیں منفذ کے راستے سے جوف/ معدہ/ دماغ/ حلق تک پہنچتی ہیں ان سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اور جو چیزیں مسامات کی راہ سے اندر پہنچتی ہیں، ان سے روزے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ 

اسی لیے کان اور ناک کے راستے سے دوا اندر داخل کی جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا کہ یہاں منفذ کے راستے سے دوا اندر جا رہی ہے، لیکن اگر آنکھ کے راستے سے دوا کا اثر حلق میں محسوس ہو، بلکہ اس کا رنگ بھی تھوک میں نظر آئے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔

ڈاکٹروں کے بقول : کان اور ناک کے درمیان ایک نالی ہوتی ہے، جسے Eustachian tube کہتے ہیں ، اور اس کو فقہاے کرام منفذ کہتے ہیں۔ اس راستے سے اندر جانے والی چیز روزہ توڑ دیتی ہے۔ یہ نالی کان کے درمیانی حصے کو ناک کی پشت سے جوڑتی ہے۔

اور آنکھ اور ناک کے درمیان ایک باریک سی نالی ہوتی ہے، ( یا باریک باریک نالیاں ہوتی ہیں ) جسے (Nasolacrimal Duct) کہتے ہیں ۔ جسے فقہا مسامات سے تعبیر کرتے ہیں۔ اور مسامات کے راستے سے چَھن کر اندر جانے والی شے مفسد صوم نہیں ہوتی۔

مطلب یہ کہ موٹی نالی اور سوراخ کو منفذ ( جیسے منہ،کان، ناک کے سوراخ) کہتے ہیں اور باریک سوراخ کو مسام سے تعبیر کرتے ہیں ۔

 گرمیوں میں جسم سے پسینے کا خروج انہی مسامات کے راستے سے ہوتا ہے۔ اور جب انسان وضو اور غسل کرتا ہے تو اس حال میں بھی کچھ پانی از راہِ مسامات اندر داخل ہوتا ہے۔ 

انجکشن سے گوشت یا رگ میں دوا داخل کرنے سے بھی روزہ نہیں جاتا۔ وجہ؟ مسامات کے راستے سے دوا کا اندر جانا ہے۔ 

بدائع کی درج ذیل عبارت پر غور فرمائیں، علامہ کاسانی فرماتے ہیں : 

" اکتحل الصَّائم لم یفسد وإن وجد طعمہ في حلقہ عند عامّة العلماء․․․ ولنا ماروي عن عبد اللہ بن مسعود أنّہ قال: خرج علینا رسول اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم- في رمضان وعیناہ مملوءتان کُحلاً کحلتہما أمّ سلمة، ولأنّہ لا منفذ من العین إلی الجوف ولا إلی الدماغ وما وجد من طعمہ فذاک أثر لا عینہ وأنّہ لا یفسد کالغبار والدخان وکذا لو ادہن رأسہ أو أعضاءہ فتشرّب فیہ أنّہ لا یضرّہ؛ لأنّہ وصل إلیہ الأثر لا العین الخ (بدائع الصنائع: ۲/۲۴۴)

     مفہوم : روزے دار نے سرمہ لگایا اور اس کا ذائقہ حلق میں محسوس بھی ہوا تو بھی روزہ فاسد نہ ہوگا۔ نہ ٹوٹنے کی وجہ یہ ہے کہ آنکھ سے جوف اور دماغ کی طرف کوئی منفذ نہیں ہے۔ جیسے آنکھ میں دھول/ غبار/ دھواں کے داخل ہونے سے روزہ نہیں ٹوٹتا کہ یہ چیزیں از راہ منفذ اندر نہیں گئیں۔ 

اور جیسے کسی نے تیل کا استعمال کیا تو تیل کا اثر اگر چہ سر کی جلد یا دیگر اعضاے جسم کے اندر پہنچ جائے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہی ہمارے عامہء علما کا مذہب ہے۔ اور اس کی تائید میں حدیث شریف بھی ہے کہ نبی اکرم صلی الله عليه وسلم رمضان میں سرمہ لگایا کرتے تھے ۔

 علامہ سرخسی نے مسئلہ کو مزید واضح اور منقح فرما دیا ہے۔ جس کا مختصرا خلاصہ یہ ہے کہ سرمہ لگانے والے کے حلق جو ذائقہ پایا جاتا ہے وہ سرمے کا اثر ہے، عین اور حقیقتِ سرمہ نہیں جیسے زبان پر کڑوی دوا رکھنے سے اس کا اثر اور ذائقہ حلق میں محسوس ہوتا ہے، جس سے روزے پر اثر نہیں پڑتا۔ 

اور اگر بر سبیل تنزل درحقیقت سرمہ حلق میں پہنچ ہی گیا تو بھی روزہ نہ گیا، کہ وہ مسامات کے راستے پہنچا ہے، مسالک ( منفذ) کے راستے نہیں پہنچا کہ آنکھ سے حلق تک کوئی منفذ نہیں ( اور مسامات سے انکار نہیں) تو یہ ایسے ہی ہے جیسے روزہ دار پانی میں داخل ہو اور پانی کی ٹھنڈ کا اثر اس کے جگر تک پہنچ جائے، تو اس سے روزے پر اثر نہیں پڑتا۔۔۔

المبسوط للسرخسي کی عبارت یہ ہے:    

"(قال): والاكتحال لايضر الصائم، وإن وجد طعمه في حلقه وكان إبراهيم النخعي يكره للصائم أن يكتحل وابن أبي ليلى كان يقول: إن وجد طعمه في حلقه فطره لوصول الكحل إلى باطنه.

(ولنا) حديث أبي رافع أن النبي صلى الله عليه وسلم «دعا بمكحلة إثمد في رمضان فاكتحل، وهو صائم». وعن أبي مسعود قال «خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عاشوراء من بيت أم سلمة وعيناه مملوءتان كحلاً كحلته أم سلمة» وصوم يوم عاشوراء في ذلك الوقت كان فرضاً ثم صار منسوخاً ثم ما وجد من الطعم في حلقه أثر الكحل لا عينه كمن ذاق شيئاً من الأدوية المرة يجد طعمه في حلقه فهو قياس الغبار والدخان، وإن وصل عين الكحل إلى باطنه فذلك من قبل المسام لا من قبل المسالك إذ ليس من العين إلى الحلق مسلك فهو نظير الصائم يشرع في الماء فيجد برودة الماء في كبده، وذلك لايضره". (3/ 67)


 اس پر اگر کوئی یہ الزام دے کہ یہ طب اور ڈاکٹروں کا مسئلہ ہے، فقہاے کرام کو اس کی کیا خبر! تو اس کے جواب کے لیے اتنا کافی ہے کہ فقہاے کرام لکیر کے فقیر نہیں ہوتے تھے، ان میں بڑے بڑے ماہر حکیم بھی گزرے ہیں۔ مزید انھوں نے دیگر ماہر اطبا سے خوب چانچ پرکھ کر ہی اس مسئلے کو منقح کیا ہے۔ اور مزید اس کی تائید میں حدیث رسول بھی ہے۔ اس لیے، حدیث، اور جملہ فقہا کے متفقہ اقوال کو در کنار کرنے کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی۔ ہاں مالکی اور حنبلی حضرات اپنے ائمہ کے مذہب پر عمل کرنے میں آزاد ہیں۔ امام مالک و امام احمد علیہما الرحمہ تو بے ضرورت سرمہ لگانے کو ہی مکروہ مانتے ہیں۔ 


مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں بھی اس پر اچھی بحث موجود ہے:

" (وعن أنس قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم قال: اشتكيت عيني) بالتشديد، وفي نسخة بالتخفيف أي أشكو من وجع عيني " أفأكتحل وأنا صائم؟ " أي حال كوني صائماً (قال: نعم)، فيه جواز الاكتحال بلا كره للصائم، وبه قال الأكثرون، وقال مالك وأحمد وإسحاق: مكروه، نقله ميرك، ولعل الخلاف فيما إذا لم يكن عن عذر، وقال المظهر: الاكتحال ليس بمكروه للصائم وإن ظهر طعمه في الحلق عند الأئمة الثلاثة، وكرهه أحمد. (رواه الترمذي وقال: ليس إسناده بالقوي) وقال: لايصح عن النبي صلى الله عليه وسلم في هذا الباب شيء، نقله ميرك (وأبو عاتكة الراوي يضعف) وقال ابن الهمام: مجمع على ضعفه، وأخرج الترمذي عن عائشة قالت: «اكتحل النبي صلى الله عليه وسلم وهو صائم»، وفي إسناده من هو مجمع على ضعفه، وأخرجه البيهقي مرفوعاً بسند ضعيف، وأخرجه أبو داود موقوفاً على أنس، فهذه عدة طرق وإن لم يحتج بواحد منها فالمجموع يحتج به لتعدد الطرق، وأما ما في أبي داود أنه صلى الله عليه وسلم أمر بالإثمد عند النوم، وقال: " ليتقه الصائم " فضعيف، قال ابن حجر: ويوافقه خبر البيهقي والحاكم «أنه صلى الله عليه وسلم كان يكتحل بالإثمد وهو صائم»، لكن ضعفه في المجموع، وقال الترمذي: وخبر ابن عمر - رضي الله عنهما - «خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم وعيناه مملوءتان من الكحل، وذلك في رمضان، وهو صائم» ، في إسناده من اختلف في توثيقه".(4/ 1395)


 واضح ہو کہ یہ مسئلہ آلہ مکبر الصوت کے ذریعے اقتدا یا ٹرین پر نماز کی طرح، آج کی کوئی نئی اور حادث چیز نہیں کہ کہہ دیا جائے کہ فلاں عالم کی یہ تحقیق ہے اور فلاں کی راے یہ ہے۔ بلکہ دور قدیم سے لے کر اب تک کے جملہ فقہاے احناف کا اس پر اتفاق ہے۔ رہی بات طبی تحقیقات کی! تو خود اہل طب آپس میں کس قدر اختلاف راے رکھتے ہیں، اسے بیان کرنے کی حاجت نہیں ۔ آج کوئی تحقیق سامنے آئی تو کل کسی محقق نے اسے رد کر دیا اور لوگوں نے اس نظریہ کو اپنا لیا جو اسلام مخالف ہو، جیسا کہ حرکت زمین کے بارے میں ہم نے دیکھا ۔ 


 ( نوٹ: چند برسوں پہلے اس مسئلے پر مجلس شرعی جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے زیر اہتمام ایک سیمینار بھی منعقد ہوا تھا جس میں مسلک فقہاے قدیم اور جدید طبی تحقیق کو سامنے رکھ کر مقالات لکھے گئے اور خوب گرما گرم بحثیں ہوئیں اور آخر کار نتیجہ وہی رہا، جس کی ترجمانی اوپر کی سطروں کی گئی ہے۔)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے