جدید الحاد، اسباب اور سد باب: ایک تجزیاتی مطالعہ
از قلم:
مفتی محمد رضا قادری مصباحی نقشبندی
استاذ جامعہ اشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ
" الحاد" یہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہے انحراف کرنا ، راستے سے ہٹ جانا ،الحاد کو انگریزی میں (Atheism) کہا جاتا ہے جس کا مطلب لا دینیت اورلامذہبیت ہے۔ اصطلاحی معنی میں الحاد اس فکر کا نام ہے جس میں خدا اور مذہب کا کوئی تصور نہ ہو، نہ مذہب کی بنیاد پروارد ہونے والے جزا وسزا کا تصور ہو۔ یہ انکار خدا کے ہم معنی ہے۔ اس نظریے کے پیروکار کو ملحد ، مادہ پرست اور انگریزی میں (Atheist) کہتے ہیں۔ ماہرین سماجیات کے الحاد سے متعلق متعدد عالمی مطالعہ کے جائزے کے مطابق پوری دنیا میں ایک ارب ملحد پائے جاتے ہیں ۔ یہ پوری دنیا کی آبادی کا تقریبا ساڑھے بارہ فیصد بنتا ہے۔
( آزاد دائرۃ المعارف ، ویکیپیڈیا)
اس وقت پوری دنیا میں سب سے زیادہ ملحدین کی تعداد چین میں پائی جاتی ہے۔ چینی ملحدین کی تعداد 40؍ کروڑ بتائی جاتی ہے ۔( آزاد دائرۃ المعارف) اس کے بعد ان ملکوں میں ملحدین بکثرت ہیں جہاں مارکسسٹ اور کمیونسٹ نظریات کے لوگ زیادہ ہیں جیسے روس۔
ملحدین کے خیال کے مطابق یہ دنیا کسی خدا نے نہیں بنائی بلکہ از خود وجود میں آگئی اور مختلف شکلوں میں ہمیشہ موجود رہے گی۔ ملحدین صرف ان باتوں پر یقین کرتے ہیں جن کا کوئی عقلی اور سائنسی وجود ثابت ہو ۔ اعتقادی، وجدانی اور ما فوق الطبیعی چیزوں کا سرے سے انکار کرتے ہیں۔
الحاد کی تاریخ
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ الحاد ایک نئی فکر اور نئی سوچ ہے جس کا ظہور جدید سائنسی و صنعتی انقلاب کے نتیجے میں ہوا ہے ۔ بالخصوص چارلس ڈارون(Charles Darwin) کے نظریہ ارتقا کے ظہور کے بعد الحادی فکر دنیا میں عام ہوئی، لیکن یہ کسی صورت درست نہیں۔ الحاد کی تاریخ مذہب کی تاریخ کی طرح بہت قدیم ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ الحاد کے اسباب ہر دور میں مختلف رہے ہیں۔ الحاد کے آثار ہندوستان میں ایک ہزار سال قبل مسیح بخوبی دیکھے جا سکتے ہیں ۔ خدا کے وجود پر شک کی عبارتیں ہندوؤں کی مقدس کتاب "رگ وید" میں اس طرح پائی جاتی ہیں: کون یقین سے جانتا ہے ؟ کون اس کا اعلان کرے گا ؟ یہ مخلوقات کب پیدا ہوئیں ؟ خدا اس کائنات و مخلوقات کی خلقت کے بعد پیدا ہوئے اس لیے کون جان سکتا ہے کہ یہ کائنات کہاں سے پیدا ہوئی؟ کوئی نہیں جانتا کہ کائنات کیسے پیدا ہوئی ؟(Rav.H the “Hindu speaks” P.27 kastiuri and sons channa India 1999)
تیسری ،چوتھی، پانچویں صدی قبل مسیح دور میں افلاطون ( 327ق،م - 347 ق م)، ارسطو(381 ق م- 322 ق م) ،سقراط ( 460 ق م - 325 ق م ) اور بقراط( 470 ق م- 399 ق م ) جیسے فلاسفہ اسی مذہب لا ادریہ الحادیہ کے پیروکار گزرے ہیں۔ دور اسلام کی تاریخ میں بھی سینکڑوں لوگ ملحد ہوئے جن میں ابن الراوندی ، ابو عیسی ، وراق اور ابن المقفع کے اسما سر فہرست ہیں ۔ الحاد کوئی نیا ظاہرہ یا نئی فکر نہیں ہے بلکہ مختلف شکلوں میں اور مختلف اسباب کے زیر اثر ہر دور میں موجود رہا ہے۔
جدید الحاد (Modern Atheism):
یہ ایک انگریزی اصطلاح ہے جسے 2006ء میں صحافی گیری وولف نے وضع کی تھی ، اس کا مقصد اکیسویں صدی عیسوی کے ملحدین کے موقف کو پوری دنیا میں عام کرنا تھا۔
جدید الحاد کا دور سترہویں صدی عیسوی کے اواخر سے شروع ہوتا ہے اور بیسویں صدی کے اختتام تک ایک مضبوط اور مستحکم نظریہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ گو یہ کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتا تا ہم لا مذہبوں کا بھی ایک مذہب بن چکا ہے۔ قدیم فلاسفہ اپنے مذہب الحادی کی تعبیر کے لیے لا ادریہ کا لفظ استعمال کرتے تھے جو انکار خدا کا ہم معنی تھا اور دور جدید کے منکرین، مادہ پرستی کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔
فکری اعتبار سے ہم انسان کی تاریخ کو دو ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں، ایک جدید سائنس کے ظہور سے پہلے کا دور اور دوسرا جدید سائنس کے ظہور کے بعد کا دور ہے۔ دور اول میں مذہب انسان کے لیے رجحان ساز تھا جبکہ دور سائنس میں یہ درجہ جدید سائنس کو حاصل ہو چکا ہے ۔ سائنس من کل الوجوہ نہ مذہب کے موافق ہے نہ مخالف لیکن بعض وجوہ سے ملحدین ،سائنس کو مذہب کے خلاف استعمال کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔ زیر نظر مقالہ میں ان تمام گوشوں کا ایک تجزیاتی مطالعہ پیش کیا جا رہا ہے۔
جدید الحاد کے اسباب
کوئی نئی فکر یوں ہی پروان نہیں چڑھتی بلکہ اس کے پیچھے کچھ عوامل ہوتے ہیں، کچھ محرکات ہوتے ہیں جو انسان کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اس نظریہ کو قبول کرے اسی طرح الحاد کے فروغ کے بھی کچھ معقول اسباب ہیں ہم ان میں چند اسباب پہ گفتگو کر رہے ہیں۔
(١)حریت پسندی اور فکری آورگی:
انسانوں کا ایک گروہ ایسا ہردور میں رہا ہے جو اپنے کو کسی بھی مذہبی قانون سے بالاتر رکھنے کا خواہش مند رہا ہے وہ نہیں چاہتا کہ مذہب یا مذہبی اقدار میں الجھ کر اپنی ناجائز خواہشات کی تکمیل سے محروم رہے۔ مذہب خواہ کوئی بھی ہو خواہ وہ صحیح ہو یا غلط یہ معاشرے کے لیے کچھ نہ کچھ رہنما اصول اور اخلاقی قدریں ضرور رکھتا ہے۔ ہرمذہب میں کچھ نہ کچھ ایسے رہنما اصول موجود ہیں جو انسان کو برے کاموں سے روکتے ہیں اور اچھے کاموں پر زور دیتے ہیں۔ ملحد اس وجہ سے خدا کا انکار کرتا ہے کہ خدا کو مان کر وہ مذہبی پابندیوں کو اپنے اوپر لازم کر لے گا اس طرح اس کی جنسی اور فکری آوارگی کی تسکین مذہب پسند معاشرہ میں مشکل ہے ،اس لیے وہ لا مذہبیت کی طرف قدم بڑھاتا ہے کیونکہ جب کسی نیک عمل پر جزا اور برے عمل پر سزا کا تحقق ہوگا تو لازماً اسے ایک عدالت میں جواب دہ ہونا پڑے گا ۔اس دنیا کے علاوہ دوسری دنیا کو بھی ماننا پڑے گا ان تمام جھمیلوں سے بچنے کے لیے آسان راستہ یہی تھا کہ مذہب کا ہی سرے سے انکار کر دیا جائے تاکہ جزا و سزا، حشر و نشراور آخرت کا سوال ہی ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔
(٢) مذہب کا عقل انسانی کو مطمئن نہ کرنا :
اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں یورپ کے اندر بیداری پیدا ہوئی اور سائنسی و صنعتی انقلاب آیا جس کے اثرات زندگی کے تمام شعبوں پر پڑے اس نے سوچ و فکر کا زاویہ بدل دیا۔ انسان کو تخیلات اور تصورات و مفروضات کی دنیا سے نکال کر تجربات و مشاہدات کی راہ پر لا کھڑا کیا ۔قدیم زمانے میں لوگوں نے مظاہر قدرت کو خدا کا درجہ دے دے رکھا، سورج ،چاند، پہاڑ ،دریا اور زمین و آسمان کومقدس مان لیا گیا اور مخلوق کی بجائے خالق کا مقام دے دیا گیا تھا جس کے نتیجے میں لوگ انہیں مقدس مان کر ان کے سامنے سر خمیدہ رہتے تھے، تاریخ انسانی میں اسلام کے زیر اثر ایسا ہو سکا کہ انہیں خالق اور معبود کے درجے سے ہٹا کر مخلوق کے درجے پر لا کر رکھا گیا اللہ تعالی نے فرمایا:
وَسَخَّرَ لَكُمُ ٱلشَّمۡسَ وَٱلۡقَمَرَ دَآئِبَيۡنِۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ ٱلَّيۡلَ وَٱلنَّهَارَ (سورۃ ابراھیم:33)
ترجمہ: اللہ تعالی نے تمہارے لیے سورج اور چاند کو اور رات و دن کو مسخر کر دیا ہے۔
وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ جَمِيعًا مِّنْهُ ۚ إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَءَايَٰتٍۢ لِّقَوْمٍۢ يَتَفَكَّرُونَ (سورۃ الجاثیۃ:13)
ترجمہ:اور آسمان و زمین کے درمیان جو کچھ ہے وہ سب تمہارے تابع ہے۔ بے شک اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔
ان آیات کے نزول کے بعد انسانوں کے اندر ایک شعوری انقلاب آیا، فطرت پرستی کے دور کا خاتمہ ہوا ،قرآنی انقلاب کے زیر اثر مسلمانوں کے اندر سائنسی شعور بیدار ہوا ۔دور اول کا اسلامی انقلاب قرآن اور ایمان کے زیر اثر آیا تھا جس کی وجہ سے لوگ ملحد ہونے سے بچ گئے دوبارہ یہی تاریخ 17ویں صدی سے بیسویں صدی تک دہرائی گئی اور دنیا پھر ایک بار علمی انقلاب سے دوچار ہوئی مگر اب اس کی پشت پر مذہب نہیں تھا بلکہ مادہ تھا اورمادہ پرستی تھی اس لیے یہ انقالاب خدا پرستی کے بجاے خدا بیزاری کی طرف لے جانے والا ثابت ہوا ¬۔ دوبارہ یہ انقلاب صنعت ،حرفت اور سائنس کی شکل میں رونما ہوا جس سے مذاہب عالم متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ فطرت اور کائنات کے مختلف حصوں پر آزادانہ ریسرچ و تحقیق کا دور شروع ہوا ۔اس تحقیق کے نتیجے میں سائنس دانوں پر قدرت کے راز ہائے سربستہ کا تھوڑا انکشاف ہوا۔
یہ کائنات جس قانون قدرت کا پابند ہو کر محو سفر ہے اور کائنات میں کس قدر نظم اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے اس کا تھوڑا علم انھیں (سائنس دانوں) حاصل ہو گیا۔ اس کائناتی تحقیق کے سفر کے دوران سائنس دانوں کے ذہن میں کچھ سوالات پیدا ہوئے، اس کائنات میں جس قدر ہم آہنگی اور نظم پایا جا رہا ہے اور جو قوانین طبعیہ اس میں کام کر رہے ہیں، وہ غیر معمولی طور پر انسانی عقل کو حیرت زدہ کرنے والے ہیں، کیا یہ سب خود بخود ہو رہا ہے؟ یا کوئی ہے جو اس کو ایک محکم نظام کے تحت چلا رہا ہے، اس کا جواب سائنسدانوں نے مذہب پرستوں سے حاصل کرنے کی کوشش کی۔ جب عیسائیت کی طرف دیکھا تو ان کے یہاں تین خداؤں ( Trinity) کا تصور پایا، یہودیت میں دو خداؤں ( Dualism) کا تصور تھا، مجوسیت میں بھی دو خداؤں کا تصور تھا جب بدھ مت کی طرف دیکھا تو یہاں خدا کا تصور ہی مجہول تھا۔ اور جب ہندو مت کی طرف دیکھا تو یہاں لاتعداد خدا کا تصور موجود تھا۔ اب سائنسی و عقلی طور پر یہ ماننا نا ممکن تھا کہ اس کائنات کو تین طاقتیں یا دو قوتیں یا لا تعداد طاقتیں کنٹرول کر رہی ہیں۔ کیوں کہ چند طاقتیں اس نظام کائنات کو کنٹرول کر رہی ہوتیں تو نظام عالم فاسد ہو جاتا، ایک خدا چاہتا کہ سورج کو پورب سے نکالے اور دوسرا چاہتا کہ سورج پچھم سے نکالے۔ لہذا اسلام کے سوا دوسرے مذاہب نے پہلے ہی اسٹیج پر دم توڑ دیا وہ دنیا کو ایک خدا کا صحیح تصور دینے میں ناکام رہے لہذا یہاں سے مذہب بیزاری کا عمل شروع ہوا، سائنسی انقلاب کے زیر اثر یہ تبدیلی آئی کہ دورِ شرک کا خاتمہ ہو گیا۔ اب شرک، پڑھے لکھے لوگوں اور سائنسدانوں کا عقیدہ نہ رہا سائنسی انقلاب کے نتیجے میں دنیا شرک، بت پرستی، گاؤ پرستی اور مظاہر فطرت پرستی سے نکل کر ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہوگئی جہاں اسے یہ جواب مل سکے کہ اس دنیا کو پیدا کرنے والا کوئی موجود ہے، اس دنیا کا کوئی تو ڈزائنر ہے کیوں کہ اس قدر خوب صورت ڈزائن کسی ڈزائنر کے بغیر ممکن نہیں مگر فرسودہ مذاہب جو خود شرک کی بھول بھلیوں میں بھٹک رہے تھے، ان مادیت پسندوں کو جواب نہ دے سکے جس کے نتیجے میں انھوں نے خدا کے وجود کا ہی انکار کر دیا اور مذہب سے دوری اختیار کر لی۔
( ۳)حوادث عالم کی مادی توجیہات:
تیسرا اہم سبب جس نے الحادی فکر کو فروغ دیا وہ ہر واقعہ کی مادی توجیہ تلاش کرنا ہے۔ جدید سائنس کے ظہور کے بعد یہ معلوم ہوا کہ ہر نتیجے سے پہلے بظاہر اس کی ایک مادی علت ( material cause) موجود ہوتی ہے مثال کے طور پر جدید سائنس کا بانی آئزک نیوٹن (1727ء-1642ء) اپنے باغ میں بیٹھا ہوا تھا اس کے سامنے سیب کا ایک درخت تھا۔ درخت سے ایک سیب ٹوٹ کر نیچے آ گرا ، نیوٹن نے سوچا کہ پھل ٹوٹ کر نیچے کیوں آیا،وہ اوپر کیوں نہیں چلا گیا؟ آخر کار اس نے دریافت کیا کہ ہماری زمین میں قوت کشش ( gravitational pull) ہے اس بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ چیزیں اوپر سے نیچے آتی ہیں ۔یہ مطالعہ آگے بڑھا یہاں تک کہ سائنس دانوں نے دریافت کیاکہ اس دنیا میں جو واقعات و حادثات پیش آتے ہیں ان سب کے پیچھے ہمیشہ ایک سبب (cause) ہوتا ہے ہر نتیجہ کسی نہ کسی سبب کے تحت ظہور میں آتا ہے پہلے کہیں زلزلہ آتا تھا تو لوگ اسے خدا کی طرف پھیر دیتے تھے اور کہتے تھے کہ اللہ تعالی کی قدرت کانتیجہ ہے ،ہارٹ اٹیک ہو یا کوئی حادثہ پیش آجاے تو اس کی توجیہ مذہب اور خدا کے حوالے سے کی جاتی تھی۔ اب جدید سائنس کے ظہور کے بعد واقعات کی توجیہ کے لیے خدا کے بجائے سبب کا حوالہ دیا جانے لگا ، سائنس کی یہ دریافت ابتدائی طور پر صرف ایک طبیعی مفہوم رکھتی تھی خدا کے حوالے سے واقعات کی توجیہ نہ کرنے کے باوجود وہ خدا کے انکار کے ہم معنی نہ تھی مگر ملحد مفکرین نے نظریاتی ہائی جیک ( hijack) کے ذریعے اس کو خدا سے انکار کے ہم معنی بنا دیا یہیں سے وہ نظریہ شروع ہوا جس کو جدید الحاد (modern atheism ) کہا جاتا ہے۔
(4)جدید مادہ پرستی (Modern Materialism)
میٹیریل ازم ایک فلسفہ بھی ہے اور ایک کلچر بھی۔ مادہ پرستی کا خلاصہ یہ ہے کہ اپنی آرزؤں کی تکمیل اور جنت کے حصول کے لیے اب اس کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں کہ اگلی دنیا(آخرت) برپا ہو اور وہاں خدا اپنی خصوصی عنایت کے طور پر جنت عطا کرے ۔ اب ہم کو وہ سب معلوم ہوگیا ہے جس کے ذریعے اس دنیا میں جنت کی تعمیر ممکن ہے ۔ جدید ٹکنالوجی کی بدولت یہ سب ممکن ہے ۔چنانچہ جدید ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اس جنت ارضی کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہو چکاہے ۔ مادیت(Materialism )کے نام سے پوری تہذیب وجود میں آچکی ہے ۔ مادہ پرستی بھی کوئی عہد جدید کی پیداوار نہیں ہے بلکہ اس کی تاریخ بھی نہایت قدیم ہے اس کا ابتدائی سرا ہمیں شداد بن عاد کی بنائی ہوئی جنت ارضی کے واقعے سے ملتا ہے ۔شہر ارم میں اس نے جنت تیار کیا ،جس کےمحلات سونے اور چاندی کے بنے ہوئے تھے، قیمتی پتھروں ،ذمرد و یاقوت کو تراش کر تزین کاری کی، ہر طرح کے درخت لگاے ، نہریں جاری کیں ایک روایت کے مطابق اس کی تعمیر میں پچاس سال صرف ہو گئے، جب جنت ارضی کی تعمیر مکمل ہو گئی اور شداد نے اس میں داخل ہونا چاہا تو اللہ تعالی اس پوری قومِ عاد پر عذاب نازل فرما دیا۔
جدید صنعتی انقلاب نے یہ ممکن بنادیا کہ انسان جدید طرز کا لائف اسٹائل ، جدید قسم کے اونچے محلات اور آرائش کے نت نئے طریقے اختیار کرے۔
مادہ پرستی کی فکر نے اس کو ایک حیوانی انسان بنادیا جو اپنی خواہش نفس کی تکمیل کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے،اپنی جنت ارضی کےحصول کے لیے ظلم وجبر ،تشدد اور انتہا پسندی کے تمام طریقے اختیار کرتا ہے ۔ مگر اس جنت ارضی کا حصول بہت بھاری قیمت پر ممکن ہوسکا ۔ اس جنت ارضی کا حصول اس قیمت پر ممکن ہوسکا کہ موجودہ دنیا انسان کے لیے ناقابل استعمال ہوجائے ۔مثال کے طور پر کاروں اور ہوائی جہازوں نے بظاہر سفر کو آسان کردیا ، مگر اس کا ناقابل برداشت حد تک منفی نتیجہ کاربن ایمیشن (Carbon Emissions )اور گرین ہاؤس گیسز (Green house gases) کےاخراج کی شکل میں نکلا جس کا حل تلاش کرنے میں سائنس دانوں کو بڑی مشکلات کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے۔
جدید سائنسی انقلاب اس قیمت پر ممکن ہوسکا کہ فطرت (Nature) میں چھیڑ چھاڑ کی جائے ۔مشینی آلات ، صنعتی کارخانوں کی کثرت ،جنگی جہازوں ،میزائل،راکٹس،ایٹم بموں اور ہائڈروجن بموں کی تیاری ،پھر ان کے استعمال ، اسپس میں چھیڑچھاڑ،خلائی اسفار اور ایرکنڈیشنگ کے سامانوں کی تیاری کا یہ بھیانک نتیجہ نکلا کہ زندگی بخش اوزون لیئر (Ozone layer) میں بہت بڑا سوراخ (Hole) پیدا ہوگیا ، جس کے سبب سورج کی بنفشی شعائیں بغیر فلٹر کے زمین پر پڑنے لگیں۔ گلوبل وارمنگ (عالمی درجۂ حرارت) کا ارتفاع اتنا زیادہ بڑھ گیا ہے کہ زندگی کے لیے خطرات لاحق ہوچکے ہیں ۔ انسان اور حیوانی زندگی کو بچانا آج سائنس دانوں کے لیے سب بڑا چیلنج بناہوا ہے ۔
گلوبل وارمنگ ( Global Warming) کے بڑھتے ہوے خطرات کے پیش نظر ترقی یافتہ ملکوں میں عالمی سطح کی کانفرنسیز منعقد کی جارہی ہیں ۔ جدید تحقیق سے معلوم ہوا کہ غیر مضر اشیا بنانے کےلئے پلوشن فری انڈسٹری قائم کرنا ضروری ہے اور پلوشن فری انڈسٹری(Pollution free industry) قائم کرنا انسان کے بس میں ہے ہی نہیں ۔
مادہ پرستی اور جدید کنزیومرازم ( Modern consumerism) نے آخرت کے تصور کو بالکل ختم کردیا یا بہت حد تک کمزور کردیا ہے ۔ انسان نے یہ سوچ لیا کہ جو کچھ کرنا ہے اسی دنیا میں ، جو کچھ ملنا ہے یہیں ملنا ہے ،جو کچھ آرام و راحت حاصل کرنا ہے یہیں حاصل کرنا ہے ،اسی فکر نے انسان کے لیے خدا کے انکار کا راستہ ہموار کیا۔
جب ایک انسان مذہب کے زیر اثر یہ سوچتا ہے کہ اگر اس دنیا میں اس کو اسباب عیش و عشرت فراہم نہیں ہوئے توکیا ہوا ، آخرت میں ملنا ہی ہے تو وہ اپنے آپ کو بہت زیادہ مطمئن محسوس کرتا ہے ، دولت اور اسباب عیش کو جمع کرنے کےلیے حلال و حرام کی سرحدوں کو نہیں پھلانگتا ،اس کے برعکس وہ انسان جس کا عقیدہ یہ ہو کہ جو کچھ ملنا ہے وہ اس دنیا میں ملنا ہے وہ اپنی جائز و ناجائز خواہشات کی تکمیل کے لیے کسی بھی حد تک چلا جاتا ہے ظلم وجبر کا راستہ اختیار کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔جب اس کی کوشش کے باوجود اسے کامیابی نہیں ملتی تو ڈپریشن کا شکار ہوکر ذہنی مریض بن جاتاہے۔ کبھی خودکشی کرلیتا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ یورپ اور امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملکوں میں خودکشی کرنے والوں کی تعداد بنسبت مشرقی ملکوں کے بہت ہی زیادہ ہے ۔
مذہب پسند انسانوں کو ،مذہب مطمئن کر دیتا ہے ، تسلی دیتا ہے کہ اگر یہاں اسے اپنی خواہش کے مطابق اسباب عیش و عشرت میسر نہیں ہیں تو پریشان نہ ہوں اس کی تلافی جنت کی زندگی میں ہو جائے گی ۔ جب کہ دہریوں اور ملحدوں کے پاس تسلی دینے کے لیے کوئی چیز نہیں ہے ، اس لیے ان کی پوری زندگی مادہ کے حصول اور بے چینی و بے سکونی میں گزرتی ہے۔
(5) ڈارونزم (Darwinism)
ان اسباب میں سے جو انسان کو الحاد و زندقہ کی طرف لے جاتے ہیں ایک سبب چارلس ڈارون(1809ء-1882ء)کے ذریعے پیش کیے گئے ارتقائے حیات کا نظریہ ہے۔پچھلے ہزاروں سال سے انسان یہ مانتا چلا آرہا ہے تھا کہ انواع حیات بشمول انسان کو پیدا کرنے والا صرف خدا ہے ۔یہ خداوند عالم ہے جو براہ راست اپنی تخلیق کے ذریعے تمام انواع حیات کو وجود میں لاتا ہے، مگر چارلس ڈارون نے مفروضہ طور پر یہاں بھی ایک سبب دریافت کر لیا یہ سبب ڈارون کے الفاظ میں نیچرل سلیکشن تھا ،یعنی حیاتیاتی عمل کے دوران طبیعی اسباب کے تحت مختلف انواع حیات ظہور میں آتی رہیں، گویا ان انواع حیات یا انسان کو وجود میں لانے والا عنصر ایک مادی سبب ہے نہ کہ غیر مادی خدا ۔
ڈارون نے ہی یہ نظریہ پیش کیا کہ انسان کی اصل بندر ہے، مختلف قسم کے طبیعی مراحل طے کرنے کے بعد انسان آج اس صورت میں موجود ہے مگر ڈارون کا دریافت شدہ یہ نظریہ کبھی بھی علمی طور پر ثابت شدہ نظریہ نہ بن سکا۔ اس کی حیثیت فقط ایک مفروضے کی رہی، نہ سائنس داں اس کے اس نظریے سے کبھی مطمئن ہوئے حتی کہ خود چارلس ڈارون کو آخری عمر میں اپنے اس مفروضہ نظریے پر شک پیدا ہو گیا تھا لہذا وہ اسی مایوسی کی حالت میں مرا ۔
اس واضح منطقیخامی کے باوجودمغرب اور جدید علمی حلقوں میں یہ نظریہ اس لیے مقبول ہوا کہ اس میں ملحدین اور فکری آوارگی رکھنے والوں کے لیے یہ مواد موجود تھاکہ انسان ہو یا دیگر انواع حیات خود بخود ایک طبیعی حیاتیاتی عمل کے نتیجے میں ارتقاء پذیر ہوئے ہیں اس کے بنانے میں کسی خدا کی ضرورت پیش نہیں آئی ۔
جدید الحاد کے فروغ کے یہ چند اسباب تحریر کیے گئے اوربھی چند اسباب ہیں جن سے اس نظریے کو تقویت ملی ہے مثلا مارکسزم،کارل مارکس (1818ء-1883ء) کا نظریہ سماجی معاشیات اور بدھزم کا نظریہ امیری و غریبی اور راحت و تکلیف، بدھزم نے مفروضہ طور پر اس کا ایک سبب دریافت کیا وہ یہ کہ ہر آدمی اپنے پچھلے کرم (عمل) کے لازمی نتیجے میں اپنے عمل کے انجام کو بھگت رہا ہے یہ توجیہ چونکہ سبب پر مبنی تھی اس لیے جدید ذہنوں نے اسے قبول کر لیا وغیرہ۔
جدید الحاد کا سد باب کیوں کر ممکن ہو ؟
درج بالا سطور میں راقم سطور نے اسباب الحاد کا ذرا تفصیل سے جائزہ پیش کیا اب اس پر گفتگو ہوگی کہ الحاد کے سد باب کے لیے کیا تدابیر اور ذرائع اختیار کیے جائیں۔
تشخیص امراض کے بعد مرض کا علاج آسان ہو جاتا ہے۔ جب تک امراض کے اسباب کی صحیح تشخیص نہ ہو علاج ممکن نہیں ہے۔ بہت سے اہل علم کا خیال ہے کہ گھر کا ماحول دینی بنایا جائے ، بچوں کی صحیح اعتقادی تربیت کی جائے۔ غلط سنگتوں سے بچایا جائے تاکہ ان میں فکری بے راہ روی نہ پیدا ہونے پائے۔ یہ تمام باتیں فقط مسلم معاشرہ کے لیے کی جا سکتی ہیں اور ان کا اطلاق ہم اپنے ماحول پر کر سکتے ہیں لیکن یہ فتنۂ الحاد کا کوئی معقول جواب یا مقابلہ نہیں ہے۔ ہزاروں وہ افراد جن کا تعلق دین اسلام سے نہیں ہے ان کو الحادی فکر سے روکنے کے لیے کون سا طریقۂ کار اختیار کیا جائے گا؟ یہ ایک بڑا مسئلہ ہے راقم سطور اپنے ناقص مطالعہ کی روشنی میں کچھ تدابیر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے ممکن ہے کہ ان کا وسیع پیمانے پر پھیلاؤ اس فتنے کو روکنے میں کسی حد تک ضرور کارگر ہوگا۔
شرک سے توحید کا سفر
ملحدین میں کثیر تعداد ان لوگوں کی ہے جو پہلے شرک میں گرفتار تھے۔ مظاہر فطرت کو پوجنے والے گھرانوں میں پیدا ہوئے ۔اپنے گھر والوں کو، گرد وپیش کے ماحول کو کبھی سورج کی تو کبھی چاند کی تو کبھی کسی دیوی، دیوتا یا بتوں کی پرستش کرتے ہوئے دیکھا، یہ بھی دیکھا کہ اپنے ہاتھوں سے مٹی کی مورتی بناتے ہیں اور اپنے جذبۂ عبودیت کی تسکین کی خاطر اس کے آگے جھکتے ہیں ،احترام بجا لاتے ہیں، پھر اسی مورتی کو دریا کی نذر کر دیتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوا تھا کہ اللہ تعالی نے انسان کی جبلت میں، انسان کی فطرت میں جذبہ بندگی رکھا ہوا ہے۔ وہ کسی کے سامنے جھکنا چاہتا ہے۔ کسی بڑی قوت کے آگے سرخمیدہ ہو کر اپنی فطرت کی پکار کو سننا چاہتا ہے جب اسے اصل خدا تک پہونچنے کا راستہ نہیں ملتا کہ توحید کا ماحول اور معاشرہ انھیں مہیا نہیں تو اپنے جذبہ عبودیت کو تسکین فراہم کرنے کے لیے اپنے ہی ہاتھوں سے بنائے ہوئے باطل خداؤں کے سامنے جھک جاتا ہے۔ جس سے وقتی طور پر اسے ایک گونہ سکون حاصل ہو جاتا ہے۔ ہندو مذہبی رہنماؤں کے ذریعے عقیدہ وحدت الوجود "ہمہ اوست" کی غیر علمی و غیر حقیقی تشریح نے کثیر بندگان خدا کو شرک کے دلدل میں دھکیل دیا ۔
اب وہ اس عقیدہ کے تحت ہر مادی شے کو خدا سمجھنے لگے ۔ نتیجے میں لا تعداد خداؤں کا ظہور ہونے لگا۔ جب ایسی سوسائٹی کے افراد سائنسی علوم پڑھنے کے لیے عصری دانش گاہوں میں پہنچے اور سائنسی تجربات سے ان کا سابقہ پڑا تو مذہب کے یہ بنائے ہوئے تمام گھروندے ریت کا محل ثابت ہوے۔ سائنسی علوم نے انہیں فرضی کہانیوں سے نکال کر حقیقت پسندی کی زمین پر لا کھڑا کیا ۔ سائنسی طرز فکر نے ان کے لیے ناممکن بنا دیا کہ انسان جو اشرف مخلوقات ہے وہ نیچر کی پرستش کرے۔ اب وہ کروڑوں خداؤں کے جنگل سے نکل کر توحید کی طرف آنا چاہتا تھا یا دو خداؤں یا تین خداؤں کے کنفیوژکرنے والے نظریہ سے نکل کر ایک خدا کی طرف آنا چاہتا تھا لیکن مذہب اسے مطمئن کرنے میں ناکام رہا۔ اس کی سائنسی عقل اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھی کہ وہ حضرت مسیح کو جو حضرت مریم عذرا علیہ و علیھا السلام کے پیٹ سے پیدا ہوئے ان کو خدا مان لے، حضرت مریم کو خدا کی بیوی تسلیم کر لے یا کسی ان دیکھی ذات کو خدا کا درجہ دے کر اسے مان لے اب اس کے پاس دو ہی راستے تھے یا تو وہ مشرکانہ کلچر اور مشرکانہ مذہب کو ترک کر دے اور لامذہب ہو جائے یا ایک خدا کی طرف واپسی کرے۔ جب یہودیت ،مسیحیت ،مجوسیت ،زرتشتیت ،بدھ ازم ،کنفیوشنزم اور ہندو ازم میں اس کا جواب نہ ملا تو ایسے عقلیت پسندوں نے مذہب کو ترک کرنے میں عافیت خیال کیا۔ ایسے افراد کم از کم ان لوگوں سے تو بدرجہا افضل ہیں جو عقل رکھتے ہوئے بھی توہم پرستانہ اور مشرکانہ زندگی گزار رہے۔ ہیں یہ اس توہم پسندانہ معاشرہ سے نکل کر علاحدہ تو ہو گئے۔ ایک درجہ انہوں نے قطع کر لیا اب دوسرا درجہ انہیں توحید کی طرف آنے کا تھا اور وہ اسی صورت میں ممکن تھا کہ نظریۂ توحید کو عقیدۂ الہ کو سائنسی اور عقلی بنیادوں پر اتنا واضح کیا جائے کہ ایک سائنس دا ں بھی اس کو بغیر کسی پس و پیش کے قبول کر لے۔
پچھلے ہزاروں سالوں کی تاریخ میں سائنسی بنیادوں پر یہ ثابت کرنا بہت مشکل تھا کہ ایک نامعلوم ہستی اس کائنات کے نظام کو چلا رہی ہے اور وہ ایک ہی ذات ہے، ایک ہی حقیقت ہے تاہم ہزاروں سال کے فطری انقلاب اور تغیرات افکار کے نتیجے میں دنیا اس دور میں داخل ہو چکی ہے کہ اب خالص علمی اور سائنسی بنیادوں پر یہ ثابت کرنا ممکن ہو گیا کہ اس دنیا کو ڈیزائن کرنے والی ذات ایک ہے۔
عقیدۂ توحید کا سائنسی ثبوت
برطانوی سائنس داں نیوٹن (1727ء-1643ء)جو ماہر فلکیات اور فلسفی تھا جسے جدید سائنس کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ نیوٹن سے پہلے غیر اسلامی دنیا میں توہمات (superstitions) کازور تھا اس وقت یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ خداؤں کی تعداد بہت زیادہ ہے مثلا :سن گاڈ(Sun god ) رین گاڈ (Rain god)مون گاڈ(Moon god) وغیرہ نیوٹن نے اس معاملے کا سائنسی مطالعہ کیا اس نے کہا چار طاقتیں ہیں جو کائنات کے نظام کو کنٹرول کرتی ہے وہ چار طاقتیں یہ ہیں:
(1) قوت کشش(Ggravitational force)
(۲) برقی مقناطیس قوت(Electromagnetic force)
(۳) طاقتور نیو کلیئر قوت(Strong nuclear force)
(۴) کمزور نیوکلیئرقوت ( Weak nuclear force )
مگر سائنسی مطالعہ کے ذریعے جو دنیا دریافت ہوئی اس میں اتنی ہم آہنگی (harmony) پائی جاتی تھی ،اتنا غیر معمولی نظم تھا کہ یہ ناقابل فہم تھا کہ اتنی زیادہ بامعنی اور منظم کائنات کو کئی طاقتیں کنٹرول کر رہی ہوں ،اس لیے سائنسی ذہن اس تعدد پر مطمئن نہ تھا تحقیق کا یہ سفر جاری رہا تقریبا 300 سال تک تحقیق کے اس طویل سفر کے بعد 1979ء میں ایک نئی تحقیق سامنے آئی، بیسویں صدی کے عظیم سائنسی دماغ البرٹ آئن اسٹائن ( 1879ء- 1955ء)نے بھی اس تعداد کو کم کرنا چاہا مگر نہ کر سکا۔ اس نئی تحقیق کے مطابق کائنات کو کنٹرول کرنے والی طاقتیں چار نہیں بلکہ تین تھیں اس دریافت تک پہنچنے والے تین نوبل انعام یافتہ سائنس دان تھے ان کے نام یہ ہیں:
Sheldon Glashow (b.1932)
Steven Weinberg (1933-2021)
Dr, abdus salam ( 1926- 1996)
ان تین سائنسدانوں نے مل کر یہ تعدادگھٹا تودی تاہم یہ کائنات اتنی حیرت انگیز طور پر مربوط اور منظم ہے کہ سائنسداں اس تعدد پر بھی مطمئن نہیں ہوئے۔ وہ اس تعداد کو گھٹا کر ایک تک پہنچانا چاہتے تھے اللہ تعالی نے یہ کام برطانوی سائنس داں اسٹیفن ہاکنگ (1942ء-2018ء) کے ذریعے انجام تک پہونچایا اسٹیفن ہاکنگ کو بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے اوائل میں فزکس کا سب سے بڑا سائنسداں تسلیم کیا جاتا ہے ۔وقت کی تاریخ، بلیک ہول اور اس کائنات کے بارے میں ایک جامع نظریہ پیش کیا اس نے پیچیدہ ریاضیاتی حساب کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ صرف ایک طاقت (force) ہے جو پوری دنیا کو کنٹرول کر رہی ہے۔
سائنسی اصطلاح میں اسے سگنل اسٹرنگ نظریہ (single string theory) کہا جاتا ہے یہ نظریہ اب تعلیم یافتہ طبقے کے درمیان ایک مسلمہ کے طور پر مان لیا گیا ہے۔ سنگل اسٹرنگ نظریہ گویا ایک خدا کے حق میں سائنسی اساس فراہم کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب خالص سائنسی بنیادوں پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کائنات کا ایک خدا ہے۔ اس کائنات کا خالق صرف ایک ہے۔
صحیح بخاری( کتاب الجہاد و السیر حدیث نمبر3062 )میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے ایک حدیث مروی ہے اس طویل حدیث کا اخری حصہ یہ ہے حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
إن اللہ لیوئد ھذا الدین بالرجل الفاجر
اللہ تعالی اپنے دین کی تائید فاجر (کافراور فاسق شخص )سے بھی کرا لیتا ہے ۔
اسٹیفن ہاکنگ گو مسلمان نہیں تھا لیکن اس سے اللہ تعالی نے وہ کام لیا جو نظریہ توحید کے حق میں ایک سائنسی بنیاد بن گیا اب اہل اسلام کا کام ہے کہ وہ ان نظریات کا استعمال عقیدۂ توحید کو سائنسی طور پر ثابت کرنے کے لیے کریں دنیا کے ملحدین کو بتائیں کہ خالص عقلی بنیادوں پر بھی خدا کا وجود ثابت ہے اس طرح کے دلائل و براہن کے بعد ہی یہ ممکن ہے کہ الحاد زدہ افراد جو مذہب سے برداشتہ ہو چکے ہیں وہ مذہب سے قریب آئیں۔ اس میں مذہبی ارتداد کا تریاق بھی موجود ہے اور ان لوگوں کی بھی ذہنی تسکین کا سامان بھی موجود ہے جو روایتی مسلمان گھرانوں میں پیدا ہوے مگر ان کا ایمان و یقین مذہب کے حوالے سے متزلزل ہو چکا ہے وہ مذہب کو ایک قصہ پارینہ خیا کرتے ہیں ۔
خالص سائنسی بنیاد پر خدا کے وجود کا اثبات
قدیم زمانے میں مذہب کو رجحان ساز نظریہ ساز ہونے کا درجہ حاصل تھا لیکن اب معاملہ بالکل برعکس ہوگیا ہے۔مذہب کی جگہ جدید سائنس نے لے لی ہے ۔اب انسان ہر چیز کو سائنسی نظر سے دیکھنے اور سننے کا عادی ہو چکا ہے۔کوئی بات اگر مذہب کے غلاف رکھ کر سمجھائی جائے تو حلق کے نیچے نہیں اُترتی، وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ خدا کا جبری قانون ہے جسے مذہب کا پابند ہونے کی وجہ سے ماننا پڑے گا۔لیکن جب اُسے یہ بتا دیا جائے کہ جس نظریہ کو تم مذہب کی عینک سے دیکھ رہے ہو وہ ایک سائنسی مسلمہ کی حیثیت سے بھی ثابت ہو چکا ہے۔مذہب اور سائنس میں کوئی تخالف اور تضاد نہیں ہے تب اُسے ماننے میں کوئی تامل نہیں ہوتا۔عصر جدید تقاضا کرتا ہےکہ شراب کہن کو نئے پیمانے میں پیش کیا جائے۔یہ عصر تقاضا کرتا ہے کہ عقلیت پسندوں کے لیے مذہب کے عقائد کو بھی تعقل کی سطح پر قابل فہم بنا کر پیش کیا جائے۔دین کے مسلمات،توحید،رسالت،وحی ،قرآن ،معجزات،تصور قیامت ، حشر و نشر،ثواب و عقاب ، ملائکہ اور جنت و دوزخ کو عقل کی کسوٹی پر رکھ کر عقلی دلائل سے ثابت کیا جائے تاکہ مذہب اسلام کا غیر جانبدرانہ مطالعہ کرنے والوں کے لیے اسلام قبول کرنا آسان ہوجائے۔
جب انسان اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے اور شعور کی منزل کو پہنچتا ہے تو اسے اس کائنات میں ہر سو اللہ کی آیات بکھری ہوئی نظر آتی ہیں۔اب اس کے لیے مطالعۂ کائنات کے دو طریقے ہیں یا تو سرسری نگاہ ڈال کر بغیر غور و فکر کیے ہوئے گزر جائے یا ان نشانیوں میں غور و فکر سے کام لے اور مصنوعات میں غور و فکر کے ذریعے صانع تک پہنچے، مخلوقات میں تدبر کے ذریعے خالق تک پہنچے۔کائنات کا جب سائنسی مطالعہ کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ پوری کائنات ایک بے نقص کائنات ہے اس وسیع کائناتی خلا میں دو بلین (ارب) کہکشائیں ہیں۔ جن میں اربوں سیارے گردش کناں ہیں اور ٹریفک کا نظام اس قدر محکم ہے کہ ایک سیارہ دوسرے سیارہ سے ٹکراتا نہیں، جب کہ اس کے برعکس کسی شہر میں چند لاکھ گاڑیاں سفر کریں تو سینکڑوں گاڑیاں حادثے کا شکار ہو جاتی ہیں ،مگر اربہا سال سے یہ کیسا نظام ہے کہ تمام اجرام فلکی اپنے مقررہ مدار میں گردش کر رہے ہیں اور کوئی کسی سے ٹکراتا نہیں۔ گویا اس عظیم خلا میں نہایت وسیع پیمانے پر ایک ایکسیڈنٹ فری ٹریفک قائم ہے ۔ سورج کا ہزاروں سال سے روزانہ مشرق سے طلوع کرنا اور مغرب میں غروب ہونا ،پھر صبح کو مشرق سے نکلنا ،رات کا جانا اوردن کا آنا یہ سب کسی مدبر کائنات کے بغیر ہو رہا ہے؟ کیا کائنات کا اس قدر حیرت انگیز نظام بغیر کسی صانع کے چل رہا ہے؟ یہ بے مثال کائناتی کنٹرول اور یہ آفاقی توازن پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ اس کے پیچھے ایک زبردست قوت والا خدا موجود ہے جو ان واقعات کو ظہور میں لا رہا ہے۔
سائنس اب دھیرے دھیرے ایک ناگوار سچائی کی طرف بڑھ رہی ہے، گو وہ اس سچائی کا اعتراف کرنے کے لیے لفظ (God) کا استعمال نہیں کر پا رہے ہیں تاہم وہ ایسے الفاظ بولنے لگے ہیں جو خدا جیسی کسی ہستی کے اعتراف کے ہم معنی ہیں۔ مثلا جرمنی کے مشہور فلسفی فریڈرک ہیگل (وفات: 1831ء) نے اس برتر ہستی کو ورلڈ اسپرٹ World Sprit)) کا نام دیا ہے۔
مشہور سائنسداں سرجیمز جینز(وفات: 1947ء)نے اپنی کتاب (the mysterious universe ) میں کہا:
"کائنات ایک ریاضیاتی ذہن(Mathematical mind) کی شہادت دیتی ہے" برٹش عالم فلکیات سرفریڈ ہائل(2001ء) نے اس حقیقت کا اعتراف ان لفظوں میں کیا ہے کہ ہماری کائنات ایک ذہین کائنات ہے۔ اس سے بھی قریب تر وہ اعتراف ہے جو امریکی سائنسدان پال ڈیوز نے کیا ہے۔ اس نے کہا "اس کائنات کے پیچھے ایک باشعور ہستی موجود ہے" برٹش سائنس داں سر آرتھر اڈنگٹن (وفات:1944ء) نے اس حقیقت کا اعتراف ان لفظوں میں کیا کہ " کائنات کا مادہ ایک ذہین مادہ ہے"۔ ( تفصیل کے لیے مطعالہ کریں ۔ اظہار دین ، از مولانا وحید الدین خان ،مطبوعہ 2014ء )
ان اعترافات سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ سائنس داں دھیرے دھیرے ایک ایسی سچائی کی طرف بڑھتے چلے جا رہے ہیں جو خدا کے وجود کو علمی طور پر ثابت شدہ مسلمہ بناتا ہے۔
یہ کوئی پراسرار عقیدہ نہیں رہا ۔اب سائنس داں صاف لفظوں میں اس کا اعتراف اس لیے نہیں کر رہے ہیں کہ خدا کے تصور کے بعد لازما مذہب کو ماننا پڑے گا اور انہیں عقیدۂ توحید کی طرف آنا پڑے گا۔ یہاں تک سائنس دانوں نے کام کر دیا اب اس کے بعد اہل اسلام کا کام شروع ہو جاتا ہے کہ وہ خدا کے وجود کو ناقابل انکار سائنسی دلائل کی روشنی میں ثابت کر کے کروڑوں منکرین خدا کو خدا کے وجود کا احساس دلائیں۔
اگر اہل ایمان دستیاب علمی مواد کی روشنی میں خدا کے وجود، نبوت و رسالت، وحی ،قران مجید، تصور و قیامت ،بعث بعد الموت اور جنت و دوزخ وغیرہ کو ثابت کر کے دنیا کے سامنے ایک علمی نظریے کے ساتھ پیش کر دیتے ہیں تو یہ لاکھوں منکرین خدا اور مذہب بیزار لوگوں کے دین اسلام سے قریب آنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اور نظریاتی طور پر پوری دنیا میں اسلام کی بالادستی قائم ہو سکتی ہے اور اگر مسلمان علما یوں ہی خوابیدہ رہے، عصر جدید کے چیلنج اور تقاضوں کو نہ سمجھ سکے تو ایک بڑا امکان واقعہ بننے سے رک سکتا ہے۔
قدرت نے ہزارہا سال کے طبیعی تغیرات کے نتیجے میں اہل ایمان کے لیے وہ قوتِ علمی فراہم کردی ہے جس کے ذریعے مغرب کو اسلام کی دہلیز پر کھڑا کیا جا سکتا ہے۔
اب مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ مادی اسلحوں اور ہتھیاروں سے بلند ہو کر علمی استدلال کا ویپن لے کر میدان میں آئیں اور مادہ زده اقوام مغرب کو اسلام کے چشمۂ صافی سے سیراب کریں۔ دعوت کی طاقت سب سے بڑی طاقت ہے، جس کا استعمال کر کے مسلمان فاتح قوموں کو مفتوح اور غالب قوم کو مغلوب کر سکتے ہیں۔
اس عنوان پر مزید تفصیلی گفتگو کی گنجائش موجود ہے تاہم اسی قدر پر اکتفا کیا جاتا ہے امید ہے کہ یہ تحریر اس موضوع پر کام کرنے والے علما و محققین کے لیے چراغ راہ کا کام کرے گی۔وماتوفیق إلا باللہ علیہ توکلت و إلیہ أنیب

Social Plugin